عوام اور معیشت

عوام اور معیشت

ملک میں اِس وقت دو جنگیں لڑی جارہی ہیں مہنگائی اوربے روزگاری کے خلاف ایک جنگ تو عوام لڑ رہی ہے مگر باوجود کوشش کے اُسے اِس جنگ میں معمولی سی بھی کامیابی نہیں مل رہی اب تو عوام کومہنگائی اور بے روزگاری سے لڑنے کے ساتھ بدامنی کا مسلہ بھی درپیش ہے جواُس کی مزید توانائی نچوڑرہا ہے جبکہ دوسری جنگ سیاسی جماعتیں لڑنے میں مصروف ہیں یہ جنگ اقتدار کی جنگ ہے ہر جماعت بڑھ چڑھ کرایک دوسرے پر حملے کرنے میں مصروف ہے کوئی چھینا گیا اقتدار واپس لینے کے لیے بے چین اوراِس کے لیے فوری طورپرعام انتخابات چاہتا ہے تاکہ جیت کر دوبارہ اقتدار میں آسکے کیونکہ اُسے زعم ہے کہ وہ آج بھی ملک کامقبول ترین چہرہ ہے لیکن مدِ مقابل تمام چہرے اِس کوشش میں ہیں کہ کسی طرح فوری طورپر انتخابات میں جانے سے بچ جائیں اور چاہے محدود مدت کے لیے ہی سہی بمشکل حاصل ہونے والا اقتدار پاس رہے تاکہ بدعنوانی جیسے مقدامات اور اسی نوعیت کی جاری تفتیش سے مستقل بنیادوں پر چھٹکارہ حاصل کرلیں نیب اختیارات کے حوالے سے کی جانے والی نئی ترامیم سے اُن کے مقاصد کسی حد تک پورے ہورہے ہیں مگراقتدار کے رسیا تمام فریق ہر پل داؤ  لگانے کی تاک میں رہتے ہیں ایک طرف اسمبلی میں آکر قومی مسائل پر بات کرنے کی دعوت دی جاتی ہے اور جب دوسرا فریق رضامندی ظاہر کرتا ہے تو چالاکی سے وہی استعفے منظور کرلیے جاتے ہیں جو قبل ازیں اسپیکرنے اِس بناپر روک رکھے تھے کہ جب تک ہر ممبرانفرادی طورپر پیش ہو کر تصدیق نہیں کرتامنظور نہیں کیے جا سکتے اب اچانک منظوری سے واضح ہے کہ صاف چھپتے بھی نہیں نظر آتے بھی نہیں کے مصداق بات قواعد کی نہیں بلکہ استعفوں کی نا منظوری دراصل سیاسی چال تھی مگر سیاسی چالوں کی جنگ میں وطنِ عزیز کے اصل مسائل نظر اندازہوکر ملکی معیشت کے لیے زہربنتے جا رہے ہیں ظاہرہے اِس زہر کاجب کوئی تریاق ہی تلاش کرنے میں سنجیدہ نہیں تو زہر ختم نہیں ہو سکتا اسی رویے کی بناپر ملکی معیشت تباہی کے دہانے پرپہنچ چکی ہے اور آج حالات اِتنے پریشان کُن ہو چکے ہیں کہ ملک میں قرضوں کی اقساط اور سود کی ادائیگی کی سکت نہیں رہی دوست ممالک مزید امداد سے قبل شرائط منوانے کے چکرمیں ہیں جبکہ عالمی مالیاتی اِدارے اب یا تو مزید قرض دینے سے اجتناب کرنے لگے ہیں یا قرض دینے سے قبل ہر قسم کی سبسڈی کے خاتمے کامطالبہ کرنے لگے ہیں واقفانِ راز کا کہنا ہے کہ عالمی مالیاتی اِداروں کی سبسڈی کے خاتمے کی شرط اندرونِ خانہ تسلیم کی جاچکی اوراِس حوالے سے کسی وقت بھی منی بجٹ آسکتا ہے جس سے ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری کی شرح میں مزید اضافہ ہو گا 
کوئی بھی فلاحی ریاست عوام پر زیادہ بوجھ ڈالنے سے گریزاور سہولتیں دینے کی کوشش کرتی ہے لیکن اقتدار کی جنگ میں مصروف سیاستدان اِس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام ہیں جس کی بڑی وجہ اقتدار بچانے اور اقتدار میں آنے کی جنگ ہے عین ممکن ہے کچھ سیاستدان سیاسی مہارت سے اقتدار کی جنگ تو جیت جائیں مگر عوام مہنگائی و بے روزگاری کے خلاف جاری جنگ ہارنے کے قریب آچکی ہے سیاستدان تو جب چاہتے ہیں اپنے کیس ختم کرانے کے لیے نظام میں تبدیلیاں کر لیتے ہیں مگر مہنگائی اور بے روزگاری کم کرنے پر وسائل وقف نہ کرنے سے غربت اوربھوک و افلاس میں اضافہ ہوتاجارہا ہے جس سے ریاست پر اعتماد میں بھی کمی آئی ہے۔
کرونا وبا نے دنیا کی بڑی معیشتوں چین،امریکہ اوریورپ کو بھی متاثر کیامگرحکمرانوں نے ناہموارہونے والی معاشی سرگرمیاں جلدہی بحال کردیں دنیا بھرمیں افریقی خطہ سب سے پس ماندہ تسلیم کیا جاتا ہے جہاں پانی اور خوراک کے ذخائر کی کمی سے عوام کوگزشتہ کئی دہائیوں سے بھوک و افلاس کا سامنا ہے علاوہ ازیں روزگار کے مواقع محدودہونے کی بناپرفی کس آمدن بھی کم ہے لیکن گزشتہ برس دنیابھر میں جنم لینے والی بدترین مہنگائی کی لہر کے باوجوداُن ممالک کو ہمارے جیسے مسائل کا سامنا نہیں بلکہ معیشتیں مستحکم ہورہی ہیں عالمی وباؤں سے افریقی ممالک میں بھی ترقی کی رفتار سست ہوئی پھر بھی دہرے ہندے میں جانے والی مہنگائی میں اب کمی کارجحان عیاں ہے افریقین ڈویلپمنٹ بینک نے حال ہی میں جاری اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ افریقہ کے 54ممالک کو عالمی معاشی بحران نے متاثر کیا  مزید یہ کہ روس کے یوکرین پر حملے،کرونا کے بعد کی صورتحال اور عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں نے بھی معاشی سرگرمیاں سست کیں جس سے نہ صرف ڈالر کی قدر میں اضافہ ہوا بلکہ مہنگائی سے عوام بھی پریشان ہوئے نیز یورپ اور چین کے لیے برآمدات کی طلب کم ہونے سے خطے پر سنگین اثرات دیکھے گئے توانائی اور غذائی اجناس کے نرخوں میں اضافے سے افریقی خطے میں مزید ایک کروڑ پچاس لاکھ لوگ انتہائی غربت کا شکار ہوئے جس سے اِس خطے میں پہلے سے موجود غربت میں مزید اضافہ دیکھنے میں آیا 2021کے مقابلے میں گزشتہ برس معاشی ترقی کی رفتار 4.8سے کم ہو کر 3.8ہوگئی لیکن اب پیداواری سرگرمیاں بحال ہو تی جارہی ہیں جس سے بہتری کی طرف سفر جاری ہے یہ رپورٹ واضح کرتی ہے کہ بدترین حالات کے باوجود افریقی ممالک چاہے دھیرے دھیرے ہی سہی مگر اب سنبھل رہے ہیں نہ صرف دوبارہ معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہورہا ہے بلکہ مہنگائی میں بھی معمولی ہی سہی لیکن کمی ہورہی ہے حالانکہ یہ وہ ممالک ہیں جہاں زرعی و صنعتی پیداوار کے زیادہ مواقع نہیں پھر بھی بہتری آنا واضح کرتا ہے کہ یہاں کی قیادت میں آگے بڑھنے کا جذبہ ہے کیونکہ عوام اور حکمران مہنگائی اوربے روزگاری کے خلاف شانہ بشانہ رہے اسی لیے خرابی کے بعد بہتری کی طرف سفر شروع ہو چکا ہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن ستم ظریفی یہ کہ عوام جو پہلے ہی کئی مسائل سے برسرِ پیکارتھی اب آٹے کے حصول کی جنگ بھی لڑنے پر مجبور ہے ڈالر کی قلت سے ایل سیز جاری نہ ہونے کی بناپر درآمدی خام مال صنعتوں کو نہیں مل رہا یہ عمل کارخانے اور ملیں بندہونے کا باعث ہے جس سے ٹیکسٹائل سیکٹر کے ستر لاکھ لوگ بے روزگارہوچکے مزیدیہ کہ برآمدی سامان کی تیاری متاثر ہونے سے برآمدات روزبروز کم ہوتی جا رہی ہیں جو زرِمبادلہ کے ذخائرمیں بدترین کمی کی بڑی وجہ ہے بات یہاں تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ ترسیلاتِ زرمیں بھی مسلسل کمی دیکھنے میں آرہی ہے اِس کی وجہ حکومت پردیارِ غیر میں حصولِ روزگار کے لیے آبادپاکستانیوں کے اعتماد کی کمی ہے سیاسی قیادت جہاں دوست ممالک سے مالی مدد لینے کے لیے خوار ہورہی ہے مگر زیادہ مثبت جواب نہیں مل رہااگر یہی بھاگ دوڑ تارکینِ وطن کے اعتماد کی بحالی کے لیے کی جائے تو ترسیلاتِ زر میں اضافہ ممکن ہے لیکن حکمرانوں کا خیال ہے کہ تارکینِ وطن کی اکثریت انتخابات میں جانے والی قوتوں کے ساتھ ہے اسی لیے نظر انداز رکھنامناسب ہے حالانکہ ذاتی پسند و ناپسند سے بالاتر ہوکر ملک کے وسیع تر مفاد میں فیصلے کرنے کی ضرورت ہے دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت کو ایران اور افغانستان سے ملنے والی سرحدوں پر بدامنی کا سامنا ہے اِن حالات میں چاہے محدود مدت کے لیے ہی سہی ملک کے لیے سیاسی استحکام ناگزیر ہے جس کے لیے ایک ایسے وسیع تر مکالمے کی ضرورت ہے جو تمام سیاسی قیادت میں افہام و تفہیم لانے کا باعث بنے لیکن اقتدار بچانے اور اقتدار میں آنے کی جنگ اِس قدر عروج پر ہے کہ سیاستدانوں کو کسی اور طرف دیکھنے کی فرصت ہی نہیں عوام نامی مخلوق کو بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا ہے جس کا نتیجہ ہے کہ نہ صرف عوام کے حصے میں مہنگائی اور بے روزگاری کے مقابلے پرمسلسل پسپائی آ رہی ہے بلکہ اقتدار بچانے اور دوبارہ اقتدار میں آنے کے خواہشمندوں کو بھی ناکامی و ہزیمت کا سامنا ہے قول وفعل کا تضاد عوام کو اُن سے متنفر کر نے کا باعث ہے اگر اقتدار بچانے اور اقتدار میں آنے کی جنگ وقتی طور پر روک کر مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف جنگ میں عوام کا ساتھ دیاجائے اور معیشت بحال کرنے کے لیے سیاسی اختلاف بالائے طاق رکھ کرکام کیا جائے تو نہ صرف سیاستدانوں کو مقبولیت ملے گی اور معاشی زوال ختم ہو گا بلکہ عوام کو بھی غربت،مہنگائی اوربے روزگاری جیسے مسائل سے نجات مل سکتی ہے۔