قومی اسمبلی کا اجلاس، پیپلز پارٹی نے سرائیکی صوبہ بنانے کا مطالبہ کردیا

قومی اسمبلی کا اجلاس، پیپلز پارٹی نے سرائیکی صوبہ بنانے کا مطالبہ کردیا
سورس: File

اسلام آباد: قومی اسمبلی اجلاس میں بجٹ پر بحث جاری ہے۔ پی پی پی ارکان نے سرائیکی صوبہ بنانے کا مطالبہ کردیا کہا اب تو ہم تیرہ جماعتیں حکومتی اتحاد میں ہیں اگر اب بھی سرائیکی صوبہ نہیں بنے گا تو کب بنے گا۔ جی ڈی اے کی رکن سابق سپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے کہا پارلیمان بے وقعت ہوکر رہ گئی ہے جس میں اپوزیشن ہی نہیں ہے یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں جس خاتون کو سپریم کورٹ نے تاحیات نااہل قرار دیا۔

قومی اسمبلی اجلاس سپیکر راجہ پرویزاشرف کی صدارت میں ہوا تو ارکان نے بجٹ پر تقاریر کا سلسلہ جاری رکھا۔ قومی اسمبلی اجلاس پچھلے کئی روز کی طرح بغیر کورم چلایا جاتا رہا ۔ قومی اسمبلی اجلاس میں سابق سپیکر قومی اسمبلی و رکن جی ڈی اے ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے کہا کہ بی جے پی کے لوگوں نے توہین رسالت کی ہے اس کی بھرپور مذمت کرتی ہوں ہمیں یہ معاملہ او آئی سی اور ہر فورم پہ اٹھانا چاہیے۔

نیشنل سکیورٹی کے حوالے سے کل کوئی میٹنگ ہوئی اس حوالے سے ہمیں ان کیمرہ بریفنگ ملنی چاہیے میڈیا رپورٹ کے مطابق ڈھائی لاکھ افغان پاکستان آئے ہیں ان لوگوں کی رجسٹریشن بھی نہیں ہوئی ۔ کورونا دن بدن بڑھتا جارہا ہے شاید این سی او سی کو ایکٹیویٹ کرنے کی ضرورت ہے بجٹ کے اعداد و شمار کچھ اور ہیں تقریریں کچھ اور ہورہی ہیں جو پلان آئی ایم ایف دے اور آپ منظور کرینگے تو یہ تقاریر کیوں کررہے ہیں۔

فہمیدہ مرزا کا کہنا تھا کہ پچاس روپے لیوی اور سیلز ٹیکس لگا رہے ہیں آج ہم مڈل کلاس کو ختم کررہے ہیں اگر پچھلے وزیر خزانہ ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کی کوشش کی ہے تو اس کو جاری رکھیں ۔ ایوان کے اندر اور باہر میڈیا بھی ہماری آواز دبا رہا ہے،میڈیا کبھی واچ ڈاک ادارہ تھا۔ میڈیا خو سیاست میں ملوث ہوگا تو ہمارا احتساب کیسے کرے گا۔

سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے نام پر مذاق کیا جارہا ہے،آر اوز انتخابات میں خود مہم چلا رہے ہیں،الیکشن کمیشن اس کا نوٹس لے ۔ اج ہماری نوجوان نسل مایوسی کا۔شکار ہورہی ہے،نوجوانوں کو انصاف، روزگار اور نمائندگی نہیں مل رہی،سپریم کورٹ نے ایک خاتون کو جعلی ڈگری پر تاحیات نا اہل قرار دیا،آر او نے بلدیاتی الیکشن میں اس خاتون کو کاغذات نامزدگی منظور کر لیے ہیں،الیکشن کمیشن نوٹس لے کہ آر او یہ قدم کیسے اٹھایا،پاکستان اج دوست ممالک سے سافٹ قرضوں کا منتظر ہے،صنعتوں کو گیس اور بجلی نہیں مل رہی تو جی ایس پی پلس سٹیٹس کا کیا فائدہ،سیاسی استحکام کیلئے پارلیمنٹ نے کردار ادا نہ کیا تو ملک کو نقصان ہوگا،اس وقت ملکی مفاد کیلئے دوبارہ چارٹر آف ڈیموکریسی کی ضرورت ہے،آج سیاسی جماعتوں نے صوبوں کے اندر ریاست کے اندر ریاست بنا دی گئی ہے۔

وفاقی وزیر اسرار ترین نے ارکان کے طالبان سے مذاکرات پر جواب دیتے ہوئے کہا ان کو یقین دہانی کراتا ہوں کہ جو بھی ڈائیلاگ ہوگا وہ آئین پاکستان کے مطابق ہوگااس تمام ڈائیلاگ کو پارلیمنٹ میں لے کے آئیں گے ۔ قومی اسمبلی نوید عامر جیوانے کہا آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی نے اقلیتوں کے لیے 5 فیصد کوٹہ مختص کیا تھاموجودہ حکومت سے درخواست ہے کہ اس کوٹہ کو بحال کیا جائےسینیٹری ورکرز کے کیے جو اشتہار دیا جاتا  ہے اس میں لکھا ہوتا ہے کہ غیر مسلم ہونا ضروری ہے ۔ ایسی شرط کسی بھی عقیدہ کے ماننے والے کی توہین ہےسرائیکی صوبہ بنایا جائے۔ 

رکن قومی اسمبلی محمد خان ڈاہانے کہا ایک وقت تھا  90 کی دہائی میں ہم بھارت سے بھی زیادہ کاٹن پیدا کرتے تھےپھر ہم کاٹن کی پیداوار میں پیچھے کو جاتے رہے، اس مرتبہ گندم کی کٹائی کے بعد کسانوں نے زیادہ کاٹن کی کاشت شروع کی ہےحکومت کاٹن کی پیداوار دوبارہ بڑھانے کے لیے زیادہ سپورٹ فراہم کرے۔

پی ٹی آئی حکومت نے ٹیوب ویل اور دیگر مدوں میں ٹیکس زیادہ کر دئیے تھے، انہیں کم کیا جائے،کسان کو یوریا  ڈی اے پی اور دیگر کھادوں کی قیمت کم کی جائے، گوارا اور کھاد کی پیداوار پر اجارہ داری ختم کی جائےحکومت کھاد کمپنیوں کو گیس دے رہی ہے، ان کے باقی مطالبات بھی مان رہی ہے مگر کھاد کی چار کمپنیوں کی اب بھی اجارہ داری ہےکھاد کی پیداوار کے لیے دیگر کمپنیوں کو بھی لایا جائے تاکہ  اجارہ داری کا خاتمہ ہو۔

رکن قومی اسمبلی مہر ار شاد سیال نے کہا کہ اقتدار کی تھوڑی جھلک دکھائی دی ہے لیکن ابھی لگتا نہیں ہم اقتدار میں ہیں ۔ سرائیکی صوبہ نہ بنانے کے حوالے سے آج ہمارے پاس کوئی بہانہ نہیں،انتخابی اصلاحات اور نیب قانون پر اتفاق کی طرح سرائیکی صوبے پر بھی اتفاق کریں ۔

 پی پی پی رکن آغا رفیع اللہ نے کہا کہ بجٹ اچھا ہے یا برا اس کا فیصلہ عوام کریں گے،ہر سال بجٹ میں غریب پر ہی سب سے زیادہ بوجھ ڈالا جاتا ہے،آج ہر شخص کہہ رہا ہے کہ مشکل حالات میں حکومت لینے کی کیا ضرورت تھی،ملک آئینی، معاشی اور خارجی بحرانوں کا شکار تھا،پی ٹی آئی ارکان تنخواہیں، مراعات اور گاڑیاں تو استعمال کر رہے ہیں لیکن عوام کی نمائندگی نہیں کر رہے ۔ سلیکٹڈ حکومت نے ساڑھے آٹھ لاکھ لوگوں کو بی آئی ایس پی پروگرام سے باہر نکالا،نکالے خاندانوں کو عزت کے ساتھ بی آئی ایس پی پروگرام میں دوبارہ شامل کر رہے ہیں۔

جماعت اسلامی کے رکن مولانا عبدالاکبر چترالی نے کہا حکومت کو آئی ایم ایف کی نئی غلامی مبارک ہو کیونکہ وہ اس کامیابی پر مبارک بادیں وصول کررہی ہے حالانکہ یہ شرمندگی کی بات ہے قومی اسمبلی اجلاس کل ساڑھے دس بجے تک ملتوی کردیا گیا

مصنف کے بارے میں