سوشل میڈیائی جنگ

سوشل میڈیائی جنگ

اتنا جھوٹ اور اتنا پروپیگنڈہ۔ تحریک انصاف کی شاید بنیاد ہی جھوٹ اور پروپیگنڈے پر رکھی گئی ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ یہ سیاسی کارکنوں کی پارٹی نہیں ہے بلکہ یہ ایک گروہ ہے جو عمران خان کی محبت کا اسیر ہے۔ اسے کوئی غرض نہیں ہے کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے اور رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کر دی ہے۔ میں آزادی اظہار رائے کا قائل ہوں اور میرا یہ ماننا ہے کہ اس پر کسی قسم کی کوئی قدغن نہیں ہونی چاہیے لیکن جتنا جھوٹ یہ لوگ پھیلا رہے ہیں اس کے بعد سوچتا ہوں کہ کوئی نہ کوئی ریگولیشن ضرور ہو۔ تحریک انصاف کا ایک ایسا سیل ہے جو گمراہ کن اور جھوٹی خبروں کو پھیلانے کا ذمہ دار ہے۔ میں ان پر زیادہ توجہ نہیں دیتا کہ یہ اس لائق نہیں اور نہ ہی ان کی اصلاح کی جا سکتی ہے۔ جب آپ کو علم ہو کہ یہ ناقابل اصلاح ہیں تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دینا ٹھیک رہتا ہے۔
یہ جلسے تحریک انصاف کے نہیں ہیں بلکہ میں انہیں عمران خان کے جلسے کہتا ہوں۔ عمران خان کے بغیر ایک جلسہ کر کے دکھائیں۔اب یوتھیے جعلی تصاویر اور ویڈیوز دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں۔  جعلی ویڈیوز کو سوشل میڈیا پر پھیلایا جا رہا ہے اور بدبختوں نے تحریک لبیک کے سربراہ خادم حسین رضوی کے جنازے کی ویڈیو بھی جاری کر دی۔ ہے ناں کمال یا اسے بے غیرتی کہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک کلپ وائرل ہوا جس میں ایک باپ کہہ رہا ہے کہ اگر عمران خان حکم کرے تو میں اپنے بیٹے کی گردن اتار دوں۔ کیسی عجیب مخلوق ہے۔ سوشل میڈیا پر یوتھیائی چینل کے ایک پروگرام ہوسٹ لوگوں سے پوچھ رہے تھے کہ آپ کس کو سپورٹ کرتے ہیں، آگے سے جواب آتا ہے کہ مسلم لیگ ن کو تو اینکر جھٹ سے کہتا ہے کہ اگر آپ اتنی محبت کرتے ہیں کہ تو دعا کریں کہ آپ کے بچے مریم اور حمزہ جیسے ہوں، اسی طرح پیپلزپارٹی کے کارکنوں سے کہتا ہے کہ دعا کریں کہ آپ کے بچے بلاول بھٹو جیسے ہوں۔ آپ کو وہ ملے تو اس سے ضرور پوچھیں کہ چلو آپ بھی دعا کرو کہ آپ کی ماں پنکی پیرنی جیسی ہو۔ آپ کی بیوی جمائمہ خان یا ریحام خان جیسی اور آپ کی بہن سیتا وائٹ جیسی ہو۔ وقت آ گیا ہے کہ ان کو شٹ اپ کال دی جائے۔ یہ باز ہی نہیں آ رہے۔ اس سیاسی قضیے میں یہ ضرور ہوا ہے کہ ایسی ذہنی کیفیت کے لوگوں سے چھٹکارہ حاصل کر رہا ہوں، ایک منٹ میں بہت سے اپنے باطن کو ظاہر کر دیتے ہیں اور ان سے جان چھڑانا آسان ہو جاتا ہے۔ میں نے حساب لگایا ہے اکثریت ایک جیسی ہی ہے، پروفیسر ہو یا ڈاکٹر ان کی ذہنی کیفیت ایک طرح کی ہے۔ یہ ایک جیسا سوچتے ہیں۔
کل ہی اے آر وائی چینل کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری ہوا ہے کہ اس نے اسد مجید کے حوالے سے ایک جعلی خبر چلا دی اور اسے ذرائع کا نام دے دیا۔ بہت سے صحافی یہ سمجھتے ہیں کہ ذرائع لکھ دینے سے خبر کے متعلق کوئی سوال نہیں کر سکتا۔ اسد مجید کا ایک ٹویٹر اکاؤنٹ موجود ہے، اے آر وائی نے سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے ونگ کی جانب سے چلائی جانے والی جعلی ٹویٹ پر خبر چلائی تھی۔ یہ ٹویٹ کل سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھی اور اس کا مقصد قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے کو سبوتاڑ کرنا تھا ۔ اب اے آر وائی کو معافی مانگنا پڑے گی یا جرمانہ بھگتنا ہو گا۔ ہمارے ذرائع ابلاغ میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جن کے دماغ بند ہیں۔ وہ اسے حق اور باطل کا معرکہ سمجھتے ہیں۔ عمران خان بھی اکیلے میں محظوظ ہوتا ہو گا کہ میری قسمت میں ان جیسے بے شمار لوگ موجود ہیں جو اس کی ہر بات پر آمین کہتے ہیں۔
میں تحریک انصاف کو اس وقت سے جانتا ہوں جب اس نے جنم لیا تھا۔ مجھے اس کے تمام نشیب و فراز کا پتہ ہے۔ بہت سے یوتھیے میری تربیت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ صحافی کو غیر جانبدار ہونا چاہیے۔ بعض کو سمجھاتے ہیں کہ جناب یہ کالم اور سوشل میڈیا پر میرے خیالات خبر نگاری نہیں ہے بلکہ کسی مسئلہ پر یہ میری رائے ہے اور میں اس کا کھل کر اظہار کرتا ہوں۔ بہت سے ایسے ہیں جو قبلہ ہارون الرشید ، حسن نثار اور ارشاد بھٹی کو اپنا روحانی مرشد مانتے ہیں اس وقت انہیں چنداں ندامت نہیں ہوتی اور وہ ان کی فکر اور دانش کو بڑے فخر کے ساتھ بیان کر رہے ہوتے ہیں۔ آپ خود اندازہ لگا لیں کہ ان کی فکری تربیت کا عالم کیا ہو گا۔
مجھے اس سے غرض نہیں کہ عمران خان کے جلسہ میں چند ہزار لوگ موجود تھے یا اس نے لاکھوں کا مجمع اکٹھا کیا تھا۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ یہ ایک سیاسی پارٹی ہے جو فاشسٹ انداز میں آگے بڑھ رہی ہے۔ ایک ایسی جماعت جو جمہوریت کے بنیادی اصول و ضوابط ماننے کے لیے تیار نہیں ہے وہ کسی جمہوریت پسند کی آئیڈیل کیسے ہو سکتی ہے۔ یہ سوشل میڈیا پر انقلاب لانا چاہتے ہیں۔ کچھ کو ایف آئی اے نے اٹھایا تو عمران خان سمیت پارٹی کے سارے بڑوں کی چیخیں ساتویں آسمان تک سنی گئیں۔
اس گروہ کے لیے اس نظام کو برداشت کرنا بہت مشکل ہے۔ عمران خان ابھی تک اس صدمے کا شکار ہے کہ شہبازشریف ملک کا وزیراعظم بن گیا ہے انہوں نے تو ای وی ایم مشینوں کے ذریعے 2028 تک اقتدار میں رہنے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ جب ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی نے قرارداد عدم اعتماد کو رد کیا تو عمران خان نے ایک لمحے میں اسمبلی کو تحلیل کر دیا اس سے پہلے جو تلاوت قرآن پاک پیش کی گئی اسے ایک بار ضرور سنیں۔
اب آتے ہیں قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے اعلامیہ کی جانب۔ آئی ایس آئی اور فوج پہلے ہی وضاحت کر چکی تھی کہ ملک کے خلاف کوئی سازش نہیں ہوئی لیکن میں نہ مانوں والی سیاست کی جا رہی ہے کہ اس کے علاؤہ ان کے پاس بیچنے کے لیے کوئی اور چورن نہیں ہے۔ اب ایک بار پھر قومی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا جس میں آرمی چیف، آئی ایس آئی کے سربراہ اور تمام فورسز کے سربراہان نے شرکت کی۔ اسد مجید نے بریفننگ بھی دی اور اعلامیہ میں یہ بات لکھی گئی کہ امریکہ نے کوئی سازش نہیں کی۔ وہ مداخلت کو سازش مانتے ہیں حالانکہ ان کے لیڈر یہ فرق بخوبی جانتے ہیں کہ مداخلت کیا ہوتی ہے اور سازش کس کو کہتے ہیں۔ 
نیازی کے لیے اقتدار سے باہر آکر اپوزیشن کرنا بہت مشکل ہے لیکن یہ مشکل تو اب برداشت کرنا پڑے گی کہ ریاست کا نظام ان کی مرضی اور منشا کے تحت نہیں چلایا جا سکتا۔ ان کے اختیار اور اقتدار کو عوام نے بہت بھگتا ہے۔ اس لیے تحریک انصاف والے جب تک الیکشن کا اعلان نہیں ہوتا اسی طرح سڑکیں ناپتے رہیں۔ پاکستان کے سو کامیاب بزنس مینوں کی ایک کتاب ایسے شخص نے چھاپی ہے جو پیسے لے کر ان کامیاب لوگوں کے بارے میں لکھتا ہے۔ اپنے سابق وزیراعظم کا نام بھی اس میں شامل تھا۔ پہلے میں سوچ میں پڑ گیا کہ عمران خان کونسا بزنس کرتے ہیں۔ پھر یاد آیا ہے کہ ان سے بڑا بزنس مین کون ہو گا جو لوگوں کے پیسے کو استعمال کر کے اپنی بزنس ایمپائر کھڑی کرتا ہے۔ اتنا پیسہ عمران خان نے پوری عمر نہیں کمایا جتنا پیسہ ان تین برس سات ماہ کی حکومت میں بنا لیا اور یہ وہ پیسہ ہے جس کا ریکارڈ موجود ہے۔ فرح گوگی کی قماش کے لوگوں کے ذریعے جو ڈیلیں ہوئی ان کا تو کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ یاد ہے جب موصوف اقتدار میں آئے تھے تو آتے ہی اپنی تنخواہ بڑھا لی تھی کہ وزیراعظم کو جو تنخواہ ملتی ہے اس میں ان کا گزارہ نہیں ہوتا اور کمانے پر آئے تو کروڑوں کما لیے۔ ماننا پڑے گا بھائی کہ عمران خان ایک کامیاب شخص ہے جس نے اتنے لوگوں کو بے وقوف بنا رکھا ہے لیکن قانون قدرت کو کون جھٹلا سکتا ہے کہ ہر عروج کو زوال ہے۔ جہاں تک سوشل میڈیا پر مقبول ہونے کا تعلق ہے تو پرویز مشرف کے فالوورز کی تعداد اس وقت تمام سیاسی جماعتوں سے زیادہ تھی اور آج موصوف دبئی میں جلاوطنی گذارنے پر مجبور ہیں۔ افسوس سیاست دان تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے۔

مصنف کے بارے میں