حالات سنگین ہو رہے ہیں؟

Mushtaq Sohail, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, e-paper

صحرائے سیاست میں برسہا برس سے خاک چھاننے اور ریت پھانکنے والے ایک سینئر سیاستدان نے جو عام طور پر جھوٹ کو گناہ سمجھتے ہیں یہ کہہ کر خطرے کی گھنٹی بجا دی کہ وزراء کے بیانات سے لگتا ہے حالات سنگین ہو رہے ہیں ،کیا واقعی؟ لگتا تو نہیں پر شاید ،ڈیرے پر رونقیں برقرار ہیں۔ سر پر ہاتھ اور سہارے کے لیے بیساکھیاں دستیاب، جن کے سینوں میں بغاوت کی آگ بھڑک رہی ہے انہوں نے عین اجلاس کے دوران زبان سے شعلے اگل کر آگ لگانے کی کوشش کی مگر چیمبر میں بلا کر ایسا کیمیکل چھڑکا کہ دھواںبھی نہ نکلا گویا ’’دھوئے گئے وہ ایسے کہ بس پاک ہوگئے‘‘ چیمبر سے باہر نکلتے ہی تیور اور زبان بدل گئی بولے چینلوں نے ایسے ہی طوفان اٹھا دیا میں نے اجلاس سے واک آئوٹ نہیں کیا۔ سگریٹ پینے باہر گیا تھا۔ ماشاء اللہ اتنے بلا نوش کہ وفاقی کابینہ کا اجلاس ختم ہونے کا بھی انتظار نہ کرسکے، ہلکی پھلکی سوجھ بوجھ رکھنے والے سیانے بھی سمجھ سکتے ہیں کہ حضرت سگریٹ پینے نہیں غصہ تھوکنے گئے تھے، اجلاس کے دوران جو ڈائیلاگ ہوئے وہ تاریخی  اور حالات کی سنگینی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ بے زبانوں کو زبانیں مل جائیں تو سمجھو کچھ ہونے والا ہے۔ بارش کا پہلا دوسرا قطرہ ٹپک پڑا بادل امڈ آئے بجلی چمکی تو بارش کون روکے گا۔ ایم این اے نور عالم نے نجی ٹی وی چینل پر انٹرویو کے دوران وفاقی کابینہ کے وزیروں مشیروں کو ہدف تنقید بنا ڈالا کہا کہ اگلی تین صفوں میں بیٹھے افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالے جائیں ان کے خلاف تحقیقات کی جائے۔ نور عالم خان پرویز خٹک کے ساتھ ہی واک آئوٹ کر کے باہر گئے تھے پرویز خٹک کو تو چیمبر میں بلا کر کسی نہ کسی طرح منا لیا گیا لیکن نور عالم کو پرویز خٹک ہی کے ذریعے شوکاز نوٹس دے دیا گیا۔ 7 دن میں جواب طلب، نور عالم نے کہا پرویز خٹک کیوں ٹکٹ وزیر اعظم نے دیا تھا وہی نوٹس دیں نوٹس جاری ہونے کے ایک دن بعد ہی انہیں پبلک اکائونٹس کمیٹی کی رکنیت سے ہٹا دیا گیا، اتنا فوری ایکشن نزلہ برعضو ضعیف، پرویز خٹک نے تو اشارے کر کر کے غیر ملکی درآمدی ترجمانوں اور معاونین خصوصی کو کوسنے دیے تھے ’’گھر کا گھر بیمار ہے کس کس کو دیں تسکین ہم‘‘ فارن فنڈنگ کیس دائر کرنے والے اکبر ایس بابر بھی ’’گوواں نہیں پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں ‘‘بہت سے دیگر لوگوں کی طرح پارٹی سے الگ ہوگئے تھے۔ سالہا سال تک کیس معرض التوا میں پڑا رہا آخر سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ منظر عام پر آگئی۔ 8  والیوم خفیہ رکھنے کی پی ٹی آئی کی استدعا بھی مسترد کردی گئی۔ اب فیصلے کا انتظار، مائنس ون یا مائنس آل ،حالات کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ الیکشن کمیشن ایکشن لے نہ لے۔ اس کی مرضی، ایکشن سے پہلے ری ایکشن کو مد نظر رکھنا ہوگا۔ کسی طرف سے ایمرجنسی کے نفاذ اور نظام کی تبدیلی کی بازگشت بھی سنی گئی جس طرف سے تجویز فلوٹ ہوئی وہ بھی کوئی معمولی یا عوامی سمت نہیں تھی جسے نظر انداز کردیا جائے۔ چنانچہ اس پر بھی بحث چلی اور خوب چلی، بحث کا لب لباب یہ تھا کہ ملک کے معاشی حالات انتہائی خراب ہیں جس کی 
وجہ سے ملک میں عدم استحکام یا خدانخواستہ دیوالیہ ہونے کے خدشہ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس صورتحال سے بچنے کا واحد راستہ مشرف دور کی طرح ایمرجنسی کا نفاذ اور اس کے ساتھ ہی صدارتی نظام رائج کرنا ہے۔ صدارتی نظام کے جواز میں دلیل دی گئی کہ اس صورت میں سارے اختیارات صدر کے پاس ہوں گے جو صوبوں کو دیے جانے والے بے تحاشا فنڈز کی فراہمی روک سکیں گے۔ صرف ضروری فنڈز دیے جائیں گے اور اس طرح بچنے والے کھربوں روپے سے ملکی معیشت کو تباہی سے بچایا جاسکے گا۔ سیاستدان یک لخت چیخ پڑے۔ آئین میں صدارتی نظام کی گنجائش نہیں، ایک سیانے نے کہا آئین لپیٹ کر گنجائش نکالی جاسکتی ہے۔ بحث ختم ہو گئی تجویز پر غورختم نہیں ہوا۔ وفاقی دارالحکومت اسی قسم کی افواہوں، خدشات اور امکانات کی دھند میں لپٹا ہوا ہے، ایسی خبریں کون پھیلاتا ہے کب پھیلائی جاتی ہیں کیوں پھیلائی جاتی ہیں۔ سمندر کی تہہ میں طوفان پل رہے ہوں تو کسی نہ کسی طرف سے نشاندہی ہوجاتی ہے۔ایسے واقعات طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں۔ کمر توڑ بلکہ گردن توڑ مہنگائی، روز بروز بیروزگاری میںتیزی سے بڑھتا اضافہ مہینوں اور ہفتوں میں نہیں روزانہ کی بنیاد پر آٹا، چینی، گھی، دالوں، بجلی، گیس یوریا بلکہ پانی کے نرخوں تک میں ناقابل برداشت اضافہ، شیخ رشید وفاقی داخلہ صف اول کے منظور نظر قریبی مشیر ہر روز کسی نہ کسی حوالے سے ٹی وی پر آکر حکومت کی حمایت میں دلائل دینا اور اپوزیشن خصوصاً نواز شریف اور دیگر ن لیگی رہنمائوں کی اہانت ان کا محبوب مشغلہ ہی نہیں فرض منصبی بھی ٹھہرا۔ دشنام طرازی اور بغیر تحقیق الٹے سیدھے الزامات اور بے پر کی خبریں اڑانے کی ریاست مدینہ میں سختی سے ممانعت ایسے لوگوں کے لیے عذاب الیم کی وعید جھوٹی تہمتیں لگانے والوں پر اللہ نے لعنت فرمائی لیکن ریاست مدینہ میں منحرفین اور منکرین بھی موجود جنہیںمنافقین کا نام دیا گیا اور فرمایا گیا ان المنافقین فی الدرک الاسفل من النار۔ ’’بے شک منافقین جہنم کے سب سے نچلے درجے میںہوں گے‘‘ آخرت کی خبر خدا جانے فی الحال تو سارے کے سارے تنخواہ دار ملازم، تنخواہیں بھی اتنی بھاری کہ مہنگائی قریب سے چھو کر بھی نہیں گزرتی، اتنی آسائشیں اتنی لا تعداد سہولتیں 18 کروڑ کی 45 نئی لگژری گاڑیاں 5 کروڑ دفاتر کی تزئین و آرائش کے لیے مختص جس کا کھائیں اس کے گن کیوں نہ گائیں اس دلکشی کے باوجود کبھی کبھار تو گھبراہٹ ہوتی ہے۔ خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے، پرویز خٹک، نور عالم خان اور دیگر نے دل کے پھپھولے پھوڑ کر دیکھ لیا۔ شیخ رشید کو جانے کیا سوجھی انہوں نے اشیائے خور و نوش کے مارکیٹ کے نرخوں کی فہرست لی اور اجلاس میں پہنچ گئے کہا  وزیر خزانہ کہاں ہیں انہوں نے کس دھڑلے سے قومی اسمبلی میں اعلان کیا تھا کہ 350 ارب کی سبسڈی ختم کرنے اور ٹیکسز کی شرح بڑھانے سے قیمتیں نہیں بڑھیں گی۔ شیخ صاحب کو بتایا گیا کہ وزیر خزانہ ٹیکس بڑھاتے ہی کرونا میں مبتلا ہوگئے اور گھر کے اندر قرنطینہ میں پڑے ہیں ،دراڑیں چھپائے نہیں چھپتیں، مختلف کوششیں، مختلف انداز سے چیخ و پکار، ن لیگ اور اپوزیشن کی دیگر جماعتوں پر الزامات کی آڑ میں رفوگری کی کوشش، شاہد خاقان اور دیگر ن لیگی رہنما سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی سے اظہار تعزیت کے لیے ان کے گھر گئے تھے۔ یاروں نے موقع غنیمت جانا دراڑیں چھپانے اور مہنگائی سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے ڈیل اور ڈھیل کے بکھیڑے لے بیٹھے وفاقی وزرا نے سر بکھیرے، معاونین خصوصی اور ترجمانوں نے آواز میں آواز ملائی وہ سماں بندھا کہ خلقت نہال ہوگئی کہا گیا کہ ’’چار ن لیگی رہنمائوں نے نواز شریف سے بغاوت کردی ہے اور کہا ہے کہ نواز شریف نے ملک کے لیے بہت برا کیا اچھا ہوا چلے گئے۔ ہم ہیں نا ہم سے ڈیل کریں شریف فیملی کے چاروں کو ڈھیل دے کر لندن جانے دیں‘‘ شاہد خاقان نے آڑے ہاتھوں لیا کہ ہمت کریں ان چاروں کا نام بتائیں جنہوں نے ملاقات کی یہ بھی بتائیں کس سے ملاقات ہوئی۔ ادھر سے’’ ایک خموشی سب کے جواب میں‘‘ حلقے بتاتے ہیں کہ کوئی ٹوٹا نہ گیا کیسے ٹوٹیں گے ٹوٹنے والوں کا حشر دیکھ چکے ہیں۔ 27 فروری قریب ہے 23 مارچ بھی دور نہیں۔ پی پی پی ڈی ایم کے قریب آرہی ہے آصف علی زرداری کا مولانا فضل الرحمان اور بلاول بھٹو کا شہباز شریف سے رابطہ ہو رہا ہے۔ کچھ ہوگیا تو کچھ ہوجائے گا کیا ساری باتیں گھاتیں اشارے کنائے اس بات کی نشاندہی نہیں کرتے کہ حالات سنگین ہو رہے ہیں۔ 

مصنف کے بارے میں