سندھ   میں  نیا سیاسی اتحاد بن گیا:پیپلز پارٹی کے مقابلے کےلیے   ن لیگ،ایم کیو ایم اور اتحادی " ایک " ہوگئے

سندھ   میں  نیا سیاسی اتحاد بن گیا:پیپلز پارٹی کے مقابلے کےلیے   ن لیگ،ایم کیو ایم اور اتحادی

کراچی : سندھ کی سطح پر نیا سیاسی اتحاد بن گیا ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کا مقابلہ کرنے کے لیے   ن  لیگ ، ایم کیو ایم پاکستان اور اتحادیوں نے خود کو سندھ میں پیپلز پارٹی کے متبادل کے طور پر پیش کردیا ہے اور یہ سب ایک ہوگئے ہیں ۔ مردان ہاؤس میں ایم کیوایم ،جے یوآئی ،مسلم لیگ ن اور جی ڈی اے رہنماؤں کی  بڑی بیٹھک ہوئی۔


  مردان ہاؤس کراچی میں ن لیگ کے بشیر میمن، ایم کیو ایم کے مصطفیٰ کمال، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے شاہی سید، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے راشد شاہ اور جے یو آئی رہنماؤں نے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔


اس میں ایک دوسرے کا اتحادی بننے اور  پیپلز پارٹی کا مقابلہ کرنے  کی حکمت عملی اور لائحہ عمل  طے کیاگیا۔ اس  موقع پر مصطفیٰ کمال نے کہاکہ  آپشن ہم ہیں۔ مصطفیٰ کمال کا کہنا تھا  ہمارا ایک نکاتی ایجنڈا ہے۔ لوگوں کو ان کی دہلیز پر وسائل ملیں۔ ہم سندھ میں حکومت بنائیں گے، صوبہ خوشحال نہیں ہوگا تو پاکستان میں بھی خوشحالی نہیں آئے گی۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے اتحاد کا مقصد سندھ کی ترقی ہے، ہم سب مل کر صوبائی حکومت بنائیں گے۔


بشیر میمن نے کہا  پیپلز پارٹی کرپشن اور سسٹم چلانے کے باوجود کہتی ہے ہمارا کوئی متبادل نہیں۔ ہم آج یہاں متبادل کے طور پر موجود ہیں، سندھ میں شہباز سپیڈ لانے کےلیے مل کر کام کریں گے۔سندھ کے لوگ ہمیں دیکھ لیں اور ہمارے ساتھ کھڑے ہوں۔ ن لیگی رہنما نے یہ بھی کہا کہ ہم سندھ اور کراچی کےلیے بہترین متبادل ہیں، نگران وزیر اعلیٰ سندھ ہمیں لیول پلیئنگ فیلڈ دیں۔


بشیر میمن کا کہنا تھا کہ کراچی ترقی کرے گا تو سندھ ترقی کرے گا، صوبہ آگے بڑھے گا تو پاکستان کی ترقی ہوگی۔انہوں نے کہا کہ سندھ میں سکول بند کیے جارہے ہیں، صوبے کے عوام کو پریشانیوں سے نجات دلائیں گے، ہم بہترین متبادل ہیں۔
اس موقع پر شاہی سید نے کہا کہ سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا چاہتی ہیں، ہم سندھ میں بھتہ خوری کے سسٹم کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔جی ڈے اے رہنما راشد شاہ نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے خلاف جہاد اکبر کا اعلان کرتے ہیں، پاکستان میں کرپشن کے خلاف جدوجہد سندھ سے شروع ہو گی۔

سیاسی رہنماؤں کا یہ بھی کہنا  جس جس حلقے میں جس کی پوزیشن مضبوط ہوگی وہاں دوسری جماعتیں اس کی حمایت کریں گی۔

مصنف کے بارے میں