ہمارے بھی ہیں افسران کیسے کیسے

 ہمارے بھی ہیں افسران کیسے کیسے

 کسی نے کہا تھابستی بسنا کھیل نہیں ہے بستے بستے بستی ہے، یہ سادہ سی بات ایک حقیقت ہے،بستی بسانے کیلئے جہاں افراد کی ضرورت ہوتی ہے وہیں ان افراد کو منظم،منضبط اور کسی ضابطے قاعدے کا پابند رکھنے کیلئے جہاں قوانین کی اشد ضرورت ہوتی ہے وہاں ان قوانین کو رو بہ عمل لانے کیلئے بہترین،دیانتدار ،اہل، مخلص،ایثار کیش،ان تھک قیادت بھی ناگزیر ہوتی ہے،ملک بڑا ہو یا چھوٹا،غریب ہو یا امیر اس کا نظم و نسق ایک میکانزم کے تحت چلتا ہے جس کے کچھ لوازمات ہوتے ہیں ،معلوم دنیا میں یہ لوازم مقننہ،عدلیہ،انتظامیہ کی شکل میں رو بہ عمل ہیں ،اور جن ممالک میں یہ تینوں ادارے جو کسی بھی ریاست کے بنیادی ستون ہوتے ہیں اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے فرائض انجام دیتے ہیں وہاں عوام کو انصاف،روزگار،تحفظ سمیت ہر سہولت اور حقوق، استحقاق کی بنیاد پر حاصل ہوتے ہیں،عرصہ دراز کے بعد پنجاب کو ایک درو یش منش اور وضع دارحکمران عثمان بزدار کی صورت میں میسر آیاجو ابھی تک ہمیں ہضم نہیں ہو رہا ،عثمان بزدار کا ذاتی کوئی ایجنڈا ہے نہ مفاد، ان کا کوئی کاروبار ہے نہ وسیع پیمانے پر کھیتی باڑی،متوسط طبقہ سے تعلق اور متوسط طبقہ جیسی ہی ضروریات رکھتے ہیں جن کو پورا کرنے کیلئے کمیشن اور کک بیکس کی حاجت نہیں ،یہی وجہ ہے کہ سرکاری خزانے میں بڑے پیمانے پر اوپری سطح کی کرپشن ڈھونڈنے سے نہیں ملتی۔
عثمان بزدار ابتداء میں اپنی،وضعداری، سادگی اور شرافت کی وجہ سے ریاست کے بنیادی تین ستونوں کے درمیان توازن قائم کرنے کے لئے نرمی سے کام لیتے رہے مگر بیوروکریسی میں موجود سابق حکمرانوں کے کچھ منظور نظر بیورو کریٹس نے ان کی راہ میں روڑے اٹکائے،ان کے منصوبوں کو ناکامی سے دوچار کرنے کیلئے سازش کا حصہ بنے،لیکن عثمان بزدار کا رویہ ان کیساتھ بہت مشفقانہ رہا،انہوں نے بڑا بن کر صوبہ اور صوبہ کی انتظامیہ کو بہتر انداز سے چلانے کی کوشش کی مگر بیوروکریسی میں شامل چند کالی بھیڑوں نے اپنا رویہ نہ بدلا،نتیجہ یہ ہواکہ بیوروکریسی کی کالی بھیڑوں نے کھل کر محاذ آرائی کی،تاہم کچھ بیوروکریٹس وزیراعلیٰ کیساتھ مخلص ہو کر بہت دیانتداری سے فرائض انجام دیتے رہے،جس کے نتیجے میں عثمان بزدار کسی نہ کسی طرح سے صوبے کا نظام چلاتے رہے،مگر اب مینار پاکستان کے واقعہ کے بعد وزیر اعلیٰ نے وہ کیا جو ان کو آغاز میں ہی کرنا چاہئے تھا،ڈی آئی جی سمیت اعلیٰ پولیس افسروں کو معطل کر کے انہوں نے بیوروکریسی کو بتایا کہ انہیں بھی یہ سب کام آتے ہیں مگر اپنی وضعداری کی وجہ سے انہوں نے اگر نرم رویہ اپنایا ہے تو یہ اس ذاتی شرافت کی وجہ سے ہے جو دیہی علاقہ کے مکینوں کا شیوہ رہی ہے۔
وزیر اعلیٰ نے ماضی میں ہر افسر کی کوتاہی سے صر ف نظر کیا،ہر کسی کی غلطی کو معاف کیا اس امید پر کہ یہ نادانستگی میں ہواہو گا اور آئندہ سب ٹھیک ہو جائے گا مگر ایسا نہ ہو سکا اورعثمان بزدار کو دانستہ تنگ کرنے کی کوشش جاری رہی،مگر عثمان بزدار نے تحمل، وضع داری کا ثبوت دیا،اور دیدہ دانستہ سب کچھ برداشت کرتے رہے، مینار پاکستان پر رونما ہونے والے افسوسناک واقعہ کے بعد جب اعلیٰ پولیس افسر اپنے پیٹی بند وں کو بچانے کی کوشش کرنے میں مصروف دکھائی دئیے تب عثمان بزدار کو ادراک ہواکہ اب شرافت اور وضع داری سے کام چلنے والا نہیں اب کڑوی گولی دینا ناگزیر ہے۔ عثمان بزدار کی وضع داری،حسن سلوک،سب کو ساتھ لے کر چلنے کی پالیسی کو ان لوگوں نے ان کی کمزوری سمجھ لیا،مگر ان کو کسی نے یہ نہ بتایا کہ جس شاخ میں زیادہ لچک ہوتی ہے وہ زیادہ تیزی سے واپس مڑتی ہے ،جھکتی ہے مگر ٹوٹتی نہیں،اور وہی ہوا جو بہت پہلے ہو جانا چاہئے تھا اور نرم مزاج ، وضعدار عثمان بزدار کو ایکشن لینا پڑ گیا،اچھی حکمرانی کیلئے یہ سلسلہ جاری رہنا ضروری ہے۔اب تک صوبے میں پولیس کی کارکردگی کوئی بہتر نہیں۔آئی جی پولیس نے اگر اب بھی معاملات میں بہتری پر توجہ نہ دی تو حالات مزید بگڑ سکتے ہیں۔
وزیر اعلیٰ کے سابق پرنسپل سیکرٹری طاہر خورشید اپنی اننگز کھیل کر وفاق میں برا جمان ہو چکے ہیں ، ان کی جگہ ایک نہایت اچھے ،محنتی اور گو گیٹر افسر عامر جان نے لے لی ہے یہ ایسی اچھی چوائس ہے جس پر ہر کوارٹر خوش ہے امید ہے کہ یہ پرنسپل سیکرٹری اب حکومت کا عرصہ پورا ہونے تک وزیر اعلیٰ بزدار کے ساتھ چلیں گے۔اچھا جی اس بار کچھ اندر کی خبریں بھی آپ کے ساتھ شئیر کرنا ہیں،پنجاب کے ایک کمشنر پر ان دنوں سخت نظر رکھی جا رہی ہے،سنا ہے کہ وہ کمشنر صاحب ایک ایکٹر کی طرح صبح باقاعدہ میک اپ کر کے تیار ہوتے ہیں جس پر اچھا خاصا وقت لگایا جاتا ہے اور ان کا ایک افسر صرف اسی کام پر ڈی پیوٹ ہے ،انکی کوشش ہوتی ہے کہ وہ مختلف کاموں کا وزیر اعلیٰ کوکریڈٹ دینے کے بجائے خودلیں ، کام کرنے کی بجائے اس کی تشہیر پر زیادہ فوکس ہوتا ہے اور کہا جا رہاہے کہ بعض دوستوں کو وہ وزیر اعلیٰ پر تنقید کے پوا ئینٹ بھی دیتے ہیں،ان کی یہ بھی کوشش ہوتی ہے کہ کسی محکمے سے متعلقہ کام ہو تو وہاں وہ اس محکمے کے سیکرٹری کو بائی پاس کر کے خود سیکرٹری بننے کی کوشش کرتے ہیں ،ایک سیکرٹری نے انہیں اس پر کافی باتیں بھی سنائی تھیں اور کہا تھا کہ ان کے محکمے میں دخل اندازی نہ کریں،اسی طرح یہ کمشنرصاحب اپنے اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں کے کام میں بھی براہ راست مداخلت کرتے ہوئے خود ہی ڈپٹی کمشنر بن جاتے ہیں حالانکہ وہ ڈپٹی کمشنر نہیں سپروائزری افسر ہیں۔معلوم ہوتا ہے ان کے دل میں اب بھی سیکرٹری شپ یا ڈپٹی کمشنری کا شوق باقی ہے۔
ایک خبر یہ بھی ہے کہ وزیر اعلیٰ نے کچھ ہی عرصہ قبل تعینات ہونے والے ان ڈپٹی کمشنروں کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جن کے بارے میں یہ خبریں آئی تھیں کہ وہ پیسے کی طاقت سے لگے ہیں اور اس سلسلے میں رپورٹس وزیر اعلیٰ کو موصول ہو گئی ہیں،ان کی جگہ پر ایسے نیک نام اور محنتی افسر تعینات کئے جا رہے ہیں جن پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔ایک خبر یہ بھی ہے کہ وزیر اعلیٰ ایل ڈی اے کے ڈی جی احمد عزیز تارڑ اورچیف انجینئر مظہر علی خان کی کارکردگی سے بہت خوش ہیںکہ وہ لاہو ر میں وزیر اعلیٰ کے میگامنصوبوں پر بہترین رفتار سے کام کر رہے ہیں،منگل کے روز جب وزیر اعلیٰ شاہ کام چوک فلائی اوورکا سنگ بنیاد رکھ رہے تھے توان کی خوشی دیدنی تھی،اس اجتماع میںواسا کے وائس چیئر مین شیخ امتیاز کی تقریر اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کی نعرہ بازی نے ماحول کو گرمانے میں اہم کردار ادا کیا اورعرصہ بعد لاہور میں پی ٹی آئی کو متحرک دیکھا گیا۔