6 رکنی نیا بینچ تشکیل، فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر دوبارہ سماعت شروع

6 رکنی نیا بینچ تشکیل، فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر دوبارہ سماعت شروع
سورس: File

اسلام آباد:فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر  وقفےکے بعد چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر  بینچ نے کیس کی دوبارہ  سماعت شروع کر دی۔  جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بینچ کا حصہ ہیں۔

سماعت  کے آغاز میں عمران خان کے وکیل حامد خان نے کہا کہ  ہماری ایک درخواست پر نمبر نہیں لگا، ہم نے فوجی عدالتوں کو  چیلنج کیا تھا۔ چیف جسٹس نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ  حامد خان صاحب،آپ کو بعد میں سنیں گے، جو صبح سیٹ بیک ہوا اس سے ری کور  ہو رہے ہیں، آئینی بحث کے بجائے دیگر حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔

درخواست گزار جنید رزاق کے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل کا آغاز کیا تو جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ پہلے دن کے سوال پر واپس جاؤں گی، آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 ڈی کا اطلاق کس پر ہوتا ہے؟ جسٹس منیب نے سوال کیا کہ کیا افواج کے اراکین کا بھی ملٹری کورٹس میں کورٹ مارشل نہیں ہوسکتا؟

وکیل سلمان اکرم کا کہنا تھا کہ برطانیہ اور  امریکا میں بھی مخصوص حالات میں فوجی افسران کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوتے ہیں۔

جسٹس منیب نے استفسار  کیا کہ فوجی عدالتوں کے خلاف ہائی کورٹ میں آئینی درخواست کیوں دائر نہیں کی جاسکتی تھی؟ سلمان اکرم کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ فوجی عدالتوں کی حیثیت کا تعین نہیں کرسکتی۔  جسٹس منیب کا کہنا تھا کہ  دہشت گردی کے ملزمان کے لیے انسداد دہشت گردی عدالت ہی فورم ہے۔ جس پر  وکیل سلمان اکرم نے کہا  کہ کسی عدالت میں ٹرائل ہو، شہری کو بنیادی  حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ آپ کی دلیل فورم سے متعلق ہے یا بنیادی حقوق کے معاملے پر؟

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ مفروضےکی بات کر رہے ہیں کہ جب ٹرائل ہوگا  تو یہ ہونا چاہیے  وہ ہونا چاہیے، ابھی تو ٹرائل شروع ہی نہیں ہوا،کارروائی کا آغاز ہی نہیں ہوا تو آپ کیوں ٹرائل میں  شہری کے حقوق کی بات کر رہے ہیں؟

وکیل سلمان اکرم راجہ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ  میرے موکل کے بیٹےکا معاملہ ملٹری کورٹس میں ہے، ٹرائل آرٹیکل175 کے تحت تعینات کیا گیا جج کرسکتا ہے، ایف پی ایل ای کیس کا جب فیصلہ ہوا تب اختیارات کی تقسیم کا اصول واضح نہیں تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کسی بڑے تنازع میں نہ پڑیں، دلائل کو سادہ رکھیں تاکہ ہم کیس ختم کرسکیں، یہ بنیادی انسانی حقوق کا کیس ہے، آرمی ایکٹ کا سیکشن 2  ڈی سویلین کو بنیادی حقوق سے  محروم نہیں کرسکتا، آرمی ایکٹ کا سیکشن 2 ڈی آئین سے تجاوز  نہیں کرسکتا۔

جسٹس عائشہ ملک نےریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بہتر نہ ہوگا کہ پہلے دیکھا جائے کہ  سویلین  پر آرمی ایکٹ سیکشن 2  ڈی کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں؟ اگر آپ بات پر آمادہ ہیں کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق سویلین پر ہوتا ہے تو پھرکیس کیا ہے؟ جس پر وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں سویلین میں ریٹائرڈ  آرمی افسران بھی آتے ہیں۔جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ  آپ آرمی ایکٹ کو چیلنج کر رہے ہیں  اور سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی مخالفت نہیں کر رہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ  کیا کورٹ  مارشل کا لفظ  آرمی ایکٹ کے  علاوہ  کہیں استعمال ہوا؟ ملٹری کورٹس کے  بارے میں بہت سے فیصلے ہیں، وہ دیکھنا چاہتے ہیں، جو کیس ملٹری افسران کے بارے میں نہیں اس میں انہیں کیوں لا رہے ہیں؟

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میرا فوکس صرف سویلین پر ہے۔ جسٹس منیب نےریمارکس دیئے کہ  آرٹیکل199 کا اطلاق کورٹ مارشل پر نہیں ہوتا، آرٹیکل199 آرمی ایکٹ کے تحت سزاؤں پر لاگو  ہوتا ہے  پرکورٹ مارشل پر نہیں، جو افراد  آرمی ایکٹ کے  تحت ڈسپلن کی خلاف ورزی کرتے ہیں ان پر بنیادی حقوق کا اطلاق نہیں ہوتا؟  آپ کے دلائل کا مقصد سمجھنا چاہ رہے ہیں۔

سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ الزام کی بنیاد پر فوجی افسران یا سویلین پر آرمی ایکٹ 2 ڈی کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان، وزیراعظم شہباز شریف کے وکیل فروغ نسیم اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے  وکیل بھی مقدمے میں دلائل دیں گے۔

واضح رہے کہ  اعتزاز  احسن کے وکیل لطیف کھوسہ کے دلائل مکمل ہوچکے ہیں، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل احمد حسین اور سول سوسائٹی کے  وکیل فیصل صدیقی نے بھی دلائل مکمل کرلیے ہیں۔


عدالت عظمیٰ نے چاروں صوبوں سمیت اسلام آباد سے گرفتار افراد کی تفصیلات طلب کی تھیں۔

مصنف کے بارے میں