اوآئی سی کانفرنس اور اعلامیہ

اوآئی سی کانفرنس اور اعلامیہ

اسلامی تعاون تنظیم(او آئی سی)وزرائے خارجہ کونسل کا دوروزہ اجلاس اسلام آباد میں مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے کے بعد اختتام پذیر ہو گیا ہے اِس اجلاس کی خاص بات یہ ہے کہ وزرائے خارجہ کانفرنس کے اکثر شرکا نے نہ صرف یومِ پاکستان کی تقریب میں شرکت کی بلکہ پریڈ اور ہتھیاروں کی نمائش بھی دیکھی اتنی بڑی تعداد میں برادر مسلم ممالک کی یومِ پاکستان کی تقریب میں شرکت منفرد واقعہ ہے اِس سے پاکستان کی مسلم ممالک میں اہمیت اُجاگر ہوئی دوسرا نہایت اہم پہلو چینی وزیرِ خارجہ وانگ ژی کی بطورخاص مہمان شمولیت ہے یہ چین کے کسی وزیرِ خارجہ کی پہلی شرکت ہے جسے ماہرین مسلم ممالک میں بڑھتے چینی کردار کا عکاس قرار دیتے ہیںمیزبان عمران خان کا چینی مہمان کو دائیں طرف جگہ دینا پاکستان کے چین کی طرف جھکائو کو ظاہر کرتا ہے حالیہ اوآئی سی کانفرنس سے پاکستان کی فعالیت تو ظاہر ہوئی مگر کیا اسلامی دنیا کے مسائل حل کرنے میں بھی سُرعت کا مظاہرہ ہوگا؟ اِس بارے وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ستاون مسلم ممالک پر مشتمل او آئی سی کا ماضی مسلم امہ کو درپیش مسائل کے حل کے حوالے سے کچھ زیادہ تابناک نہیں اقوامِ متحدہ کے بعد دنیا کی سب سے بڑی تنظیم کا اعزاز ہونے کے باوجودغیر فعالیت اور عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا گیاجس سے عالمی طاقتوں کی طرفدار یا زیلی تنظیم ہو نے کا تاثر بنا اسی لیے اِس کے فیصلوں کو وہ اہمیت یا پذیرائی نہیں ملتی جو یورپی یا افریقی تنظیموں کے فیصلوں کو عالمی سطح پر دی جاتی ہے۔
 مسلمانوںکو اِس وقت کشمیر،فلسطین،میانمار میں منظم نسل کشی کا سامنا ہے بوسنیا میں اقوامِ متحدہ کی فوج کی موجودگی میں مسلمان بچے ،بوڑھے اور نوجوانوں کا قتلِ عام اور خواتین کی اجتماعی آبروریزی کی گئی مگرآج بھی او آئی سی آئندہ ایسے جرائم کو روکنے کے لیے کسی لائحہ عمل پر اتفاق نہیں کر سکی حالانکہ ڈیڑھ ارب آبادی پر مشتمل مسلمان اگر متحد ہو جائیں تو نظر انداز کرنے کے بجائے ہر طاقت کی مجبوری بن سکتے ہیں مگر اتحاد و اتفاق کی فضا بنانے میں تفرقہ بازی اور عالمی طاقتوں کے مفادات رکاوٹ ہیں غیر مسلم ممالک میں بڑھتااسلاموفوبیا سے مسلمانوں کی زندگی الگ اجیرن ہے نیوزی لینڈ کی مسجد میں ہونے والا سانحہ اسی کا شاخسانہ ہے مسلمانوں کومساجد اور عوامی مقامات پر نشانہ بنایا جاتا ہے فرانس سے لیکر ہنگری تو ایسی جماعتوں کو مقبولیت ملنے لگی ہے جن کی شناخت مسلم مخالف پالیسیاں ہیں بھارت جیسا ملک جو بظاہر مذہبی ریاست کے بجائے سیکرلرازم کا علمبردار ہے کوئی مسلم طالبہ حجاب تک نہیں لے سکتی گوشت رکھنے کا بہانہ بنا کر مسلمانوں کو تشددسے قتل کر دیا جاتا ہے کشمیر میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مسلم آبادی کاتشخص اور اکثریت ختم کرنے پر کام جاری ہے لیکن اِ ن مظالم کے باوجود او آئی سی لاتعلق نظر آتی ہے۔
مسجدِ اقصٰی پر21اگست 1969کو ہونے والے حملے اور نذرِ آتش کرنے کا سانحہ اسلامی ممالک کی تنظیم بنانے کی وجہ بنامراکش کے شہر رباط میں25 ستمبر 1969کو اسلامی تعاون تنظیم کا وجود عمل میں آیا جس میں اُس وقت کے سعودی فرمانروا شاہ فیصل کا کلیدی کردارہے اِ س تنظیم کا دوسرا 
سربراہی اجلاس 1973کے ماہ فروری کی تاریخوں بائیس اور چوبیس کو ہواسعودی شاہ فیصل اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی بلاک بنانے کی کوشش کی اسی پاداش میں دونوں ہی غیر طبعی موت کا شکار ہوئے اب عمران خان دوبارہ اسلامی بلاک بنانے کی باتیں کرنے اور مسلم ممالک کو اتفاقِ رائے سے چلنے کی تجویز دے رہے ہیں حالانکہ عملی طور پر ایسا ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ایک وجہ تو سعودیہ و ایران مناقشہ ہے دوسرا کچھ اسلامی ممالک کے حکمران سرمایہ کاری کرتے ہوئے مخصوص سوچ پر کاربندہیں مثال کے طور پربھارت میں متحدہ عرب امارات ستراب ریال کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کے معاہدے کر چکا علاوہ ازیں مقبوضہ کشمیر جو پاک بھارت تنازعات کی بنیا د ہے حالیہ اڑتالیسویں وزرائے خارجہ کانفرنس کے مشترکہ اعلامیے میںفلسطین کے ساتھ کشمیر کا مسلہ کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرنے کے ساتھ پانچ اگست 2019 کا یکطرفہ اقدام واپس لینے کا مطالبہ کیا گیاہے لیکن ایسی باتیں منصہ شہود پر آچکی ہیں کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں بھاری سرمایہ کاری کے کئی معاہدے طے پا چکے ہیںاِس لیے اسلامی بلاک کی باتیں کرتے ہوئے یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ سعودیہ اور یواے ای ایسے کسی مجوزہ منصوبے کا حصہ نہیں بن سکتے اور مذکورہ دونوں ممالک مستقبل میں اپنی معیشت کو تیل آمدن کے متبادل بنانے کے لیے پُرعزم ہیں اسی لیے عالمی اور دفاعی حوالے سے اپنی حکمتِ عملی بدل چکے تو پھر کیونکریہ دونوں امیر ملک اسلامی بلاک کی تشکیل میں کردار ادا کرسکتے ہیں؟۔
وزرائے خارجہ اجلاس میں 46 ممالک نے شرکت کی جبکہ بقیہ ممالک کی نمائندگی اعلیٰ حکام نے کی اجلاس میں آٹھ سو کے لگ بھگ مندوبین بھی شریک ہوئے بظاہر اوآئی سی کا حالیہ اجلاس بڑا بھرپوررہا مگر ظلم وناانصافیوں، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اورغاصبانہ قبضوںکے خلاف اتفاقِ رائے کی صورتحال بنتی نظر نہیں آتی آپس کی ناچاقی سے مسلم دنیا کو بدترین حالات کا سامنا ہے مقبوضہ کشمیر سے متعلق اوآئی سی کے رابطہ گروپ کے اراکین نے ملاقاتیں جاری رکھتے ہوئے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو مانیٹر کرنے کا فیصلہ کیا ہے مگر دوامیر اسلامی ملکوں کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں سرمایہ کاری کی بنا پر رابطہ گروپ کاکسی نتیجہ خیز کارروائی پر اتفاق محل نظر ہے منگل کے روز جب پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میںاسلامی ممالک  کے وزرائے خارجہ کا اجلاس جاری تھا تو عین اُنھی لمحات میں اہم عرب ملک مصر کے بحرہ احمر کے کنارے آباد سیاحتی شہر شرم الشیخ میں تین ملکوں کا اجلاس ہورہا تھا جس میں مصر کے فوجی حکمران الفتاح السیسی ،اسرائیلی وزیرِ اعظم نفتالی بینٹ اور ابوظہبی کے ولی عہد محمد بن زید النیہان نے شرکت کی میزبان کو درمیان میں بٹھا کر دائیں ابوظہبی کے ولی عہد اور بائیں طرف والی نشست اسرائیلی وزیرِ اعظم نے سنبھالی ایسے حالات میں ظاہر ہے اوآئی سی کا کسی فیصلے پرکامل اتفاق ممکن نہیں۔  
مشترکہ علامیے میں کشمیر، فلسطین سمیت مالی، افغانستان، صومالیہ، سوڈان، جیبوتی، بوسنیا، قبرص، مشرقی افریقی ملک کوموروس، مغربی افریقی جمہوریہ کوٹ ڈیوائرکے عوام سے یکجہتی کا اعادہ ضرور کیا گیا ہے مگر قبرص کا ایک فریق یونان نہ صرف یورپی یونین کا حصہ ہے بلکہ نیٹو کا بھی رکن ہے اِس لیے کوشش کے باوجود اسلامی تعاون تنظیم مداخلت کرنے کی پوزیشن میں نہیںاس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یورپی یونین معاشی اور دفاعی دونوں حوالے سے دنیا کی ایک طاقتور تنظیم ہے جس سے مقابلہ اسلامی تعاون تنظیم کے بس کی بات نہیں البتہ بھارت پر دبائو ڈال کر کشمیرکا مسئلہ حل اور ہندوجنونیت سے مسلمانوں کو بچایا جا سکتا ہے لیکن محدود مفادات کے لیے سعودیہ اور یو اے ای کی سرمایہ کاری نے یہ آپشن بھی ضائع کردیا ہے غیر مسلم ممالک میں مسلم اقلیت کا تحفظ تبھی ممکن ہے جب مسلم ممالک معاشی ،دفاعی اور تجارتی حوالے سے مستحکم اور درپیش مسائل کے حوالے سے یک زبان ہوں آپس کی نا اتفاقی دراصل اغیارکو سازشیںپروان چڑھانے کا موقع دیتی ہے ایک تو یو این او میں کسی اسلامی ملک کے پاس ویٹو پاور نہیں مگریہ بڑی بات نہیں دلیل سے موقف منوایا جا سکتا ہے اگر امیر مسلم ممالک اپنی دولت بینکوں میں رکھنے کے بجائے رُخ غریب اسلامی ممالک کی طرف موڑیں اقتصادی ،سائنسی اور تکنیکی ترقی کی طرف دھیان دیں جب تک اجلاس محض ملنے ،بیٹھنے اور تبادلہ خیال تک محدود رہیں گے اسلامی دنیا کی اہمیت و حیثیت نہیں بن سکتی اِس وقت عالمی حالات خاصے غیر معمولی ہیں اِن حالات کا سامنا غیر معمولی فیصلوں سے ہی ممکن ہے او آئی سی نے اگر نئی توانائی حاصل کرنی ہے تو اعلامیے کی صورت میں کیے جانے والے فیصلوں پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ہو گا۔

مصنف کے بارے میں