آپ کا خط حکومت مخالف خیالات کا حامل اور آئینی منصب کا آئینہ دار نہیں، وزیر اعظم کا صدر کو خط

آپ کا خط حکومت مخالف خیالات کا حامل اور آئینی منصب کا آئینہ دار نہیں، وزیر اعظم کا صدر کو خط

اسلام آباد :وزیراعظم شہبازشریف  نے  صدر مملکت کو 5 صفحات اور 7 نکات پر مشتمل جوابی خط  لکھ دیا ۔

وزیراعظم  کی جانب سے صدر مملکت کو  خط میں لکھا کہپ میں یہ    کہنے پر مجبور ہوں کہ آپ کا خط تحریک انصاف  کی  پریس ریلیز دکھائی دیتا ہے ،    خط یک طرفہ، حکومت مخالف خیالات کا حامل ہے جن کا آپ کھلم کھلا اظہار کرتے ہیں ،   خط صدر کے آئینی منصب کا آئینہ دار نہیں،  3 اپریل 2022 کو آپ نے قومی اسمبلی کی تحلیل کرکے سابق وزیراعظم کی غیرآئینی ہدایت پر عمل کیا۔


وزیراعظم شہباز شریف نے لکھا کہ قومی اسمبلی کی تحلیل کے آپ کے حکم کو سپریم کورٹ نے 7 اپریل کو غیرآئینی قرار دیا ،ارٹیکل 91کلاز5کےتحت بطوروزیراعظم میرےحلف کے معاملےمیں بھی آپ آئینی فرض نبھانےمیں ناکام ہوئے ہیں کئی مواقع پر آپ منتخب آئینی حکومت کیخلاف فعال انداز میں کام کرتے آرہے ہیں ، میں نے آپ کے ساتھ اچھا ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے کی پوری کوشش کی  لیکن آپ نے  اپنے خط میں  جو لب ولہجہ استعمال کیا  اس سے آپ کو جواب دینے پر مجبور ہوا ہوں ۔

انہوں نے مزید کہا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا آپ کا حوالہ ایک جماعت کے سیاستدانوں اور کارکنوں کے حوالے سے ہے، آئین کےآرٹیکل 10اےاور 4کےتحت آئین اورقانون کا مطلوبہ تحفظ ان تمام افراد کو دیاگیا ہے، قانون نافذکرنےوالےاداروں نےریاستی عمل داری کیلئے قانون اورمطلوبہ ضابطوں پرسختی سےعمل کیا،تمام افراد نے قانون کے مطابق دادرسی کے مطلوبہ فورمز سے رجوع کیا ہے۔

 وزیراعظم نے صدر کو  خط میں لکھا کہ   جماعتی وابستگی کےسبب آپ نےقانون نافذ کرنےوالے اداروں پرحملوں کویکسرفراموش کردیا،  آپ نے نجی وسرکاری املاک کی توڑپھوڑ، افراتفری پیداکرنے کی کوششوں کو نظر انداز کردیا ،آپ نے  پی ٹی آئی کی ملک کو معاشی ڈیفالٹ کے کنارے لانے کی کوششوں کو  نظرانداز کیا ہے  پی ٹی آئی کی وجہ سےآئین،انسانی حقوق اورجمہوریت کےمستقبل سےمتعلق پاکستان کی عالمی ساکھ خراب ہوئی، آپ نےبطورصدرایک باربھی عمران خان کی عدالتی حکم عدولی اورتعمیل کرانےوالوں پرحملوں کی مذمت نہیں کی ۔

 انہوں نے کہا آپ کی توجہ ہیومن رائٹس واچ کی سالانہ ورلڈ رپورٹ2022 کی طرف دلاتا ہوں،اس وقت پی ٹی آئی   اقتدار میں تھی ،   رپورٹ میں لکھاہےحکومت پاکستان میڈیاکوکنٹرول کرنے کی کوششیں تیز کرچکی ہے، رپورٹ میں لکھا ہے پی ٹی آئی کی حکومت اختلاف رائے کو کچل رہی ہے ،   صحافیوں، سول سوسائیٹی اور سیاسی مخالفین کو ہراساں کرنے، قید وبند اور نشانہ بنانے کی تمام تفصیل درج ہے ۔


وزیراعظم شہبازشریف نے خط میں لکھا کہ پی ٹی آئی حکومت کے دور میں انسانی حقوق کا قومی کمیشن معطل رہا ، قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی رپورٹ پی ٹی آئی حکومت پر فرد جرم ہے ، انسانی حقوق کےعالمی اداروں کی متعددرپورٹس میں پی ٹی آئی حکومت کی خلاف ورزیوں کاریکارڈموجودہے،رکن قومی اسمبلی راناثنااللہ پرمنشیات کاجھوٹامقدمہ بنایاگیاجس کی سزاموت ہے، 
  
وزیراعظم نے لکھا افسوس ہے کہ  بطورصدرمملکت آپ نےایک باربھی ان میں سے کسی بھی واقعہ پرآوازبلندنہ کی،    آپ کےخط کاجواب اسی لئےدےرہاہوں تاکہ آپ کےیک طرفہ رویئےکوریکارڈپر لا سکوں ، پی ٹی آئی کی طرف سےآپ نےعام،پنجاب اورخیبر پختونخوااسمبلیوں کےانتخاب کی تاریخ دی، آپ کایہ فیصلہ سپریم کورٹ نےیکم مارچ 2023 کے حکم سے مسترد کردیا، آپ نے 2 صوبوں میں بدنیتی پرمبنی اسمبلیوں کی تحلیل پر کسی قسم کی تشویش تک ظاہر نہ کی، یہ سب آپ نے عمران خان  کی انا اورتکبر کی تسکین کیلئے کیا  ،آپ کا یہ طرز عمل صدر کے آئینی کردار کے مطابق نہیں۔

 الیکشن کمیشن نے 8 اکتوبر2023 کو پنجاب میں انتخابات کرانے کی تاریخ دی ہے  ،تمام وفاقی اورصوبائی اداروں نےمتعلقہ اطلاعات الیکشن کمیشن کومہیاکی ہیں، الیکشن کرانے کی ذمہ داری آئین نے الیکشن کمیشن کو سونپی ہے  الیکشن کمیشن نےطےکرناہےشفاف وآزادانہ انتخاب کرانےکیلئےآرٹیکل 218تین کےتحت سازگارماحول موجود ہے۔
 
 
 آئین کےآرٹیکل 48 کلاز 1کےتحت صدرکابینہ یا وزیراعظم کی ایڈوائس کےمطابق کام کرنےکاپابندہے،صدرکومطلع رکھنےکی حدتک اس کااطلاق ہے،نہ زیادہ نہ اس سے کم ، وفاقی حکومت کےانتظامی اختیارکواستعمال کرنےمیں وزیراعظم صدرکی مشاورت کاپابندنہیں، 

وزیراعظم شہباز شریف نے لکھا کہ جناب صدر،میں اوروفاقی حکومت آئین کےتحت اپنی ذمہ داریوں سےپوری طرح آگاہ ہیں، آئین کی مکمل پاسداری،پاسبانی اوردفاع کےعہدپرکاربند ہیں، آئین میں درج ہرشہری کےبنیادی انسانی حقوق کےتحفظ پرکاربندہیں، حکومت پرعزم ہےکسی کوبھی قانون ہاتھ میں لینےکی اجازت نہ دی جائے۔   

واضح  رہے کہ صدر مملکت عارف علوی نے وزیراعظم شہبازشریف کو 24 مارچ کو خط لکھا تھا جسس کے  جواب میں وزیر اعظم نے   صدر مملکت کو 5 صفحات اور 7 نکات پر مشتمل جوابی خط  لکھ دیا  ہے ۔

مصنف کے بارے میں