قانون کا جنازہ

Naveed Ch, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

یہ وحشت ناک منظر تھا- سیکڑوں افراد ایک نوجوان لڑکی کے گرد جمع تھے۔ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ سب مل کر ٹوٹ پڑے ہوں۔ اسی ہجوم میں سے چند ایک نے آگے بڑھ کر لڑکی کو بچانے کی کوشش کی۔ مگر اس وقت تک نہ صرف اس لڑکی کے کپڑے پھاڑے جا چکے تھے بلکہ اوباشوں نے جسم کو چھو کر اس قدر نازیبا حرکات کیں کہ بعد میں کرائی جانی میڈیکل رپورٹ میں جگہ جگہ زخموں کے نشانات پائے گئے۔ درندگی کا یہ کھیل کہیں اور نہیں بلکہ لاہور جیسے شہر میں مینار پاکستان کے سائے تلے کھیلا گیا۔ مقام افسوس کہ دن بھی 14 اگست تھا۔ ایسا نہیں کہ متاثرہ لڑکی یا اسکے ساتھیوں نے پولیس سے مدد طلب نہیں کی بلکہ اس موقع پر وہاں موجود بعض افراد نے بھی پولیس ہیلپ لائن 15 پر کال کی مگر کوئی شنوائی نہ ہو سکی۔ بہر حال وہ لڑکی کسی بھی طرح اپنی جان بچانے میں کامیاب ہو گئی اور اپنے گھر کی راہ لی۔ سارا معاملہ شاید ایسے ہی دب جاتا مگر وقوعہ کی ویڈیو وائرل ہو گئی۔ عوام کی طرف سے شدید ردعمل آیا تو حکومت کو کارروائی کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ پھر پتہ چلا کہ عائشہ اکرم نامی نرس یوم آزادی پر وہاں ٹک ٹاک ویڈیو بنانے آئی تھی۔ ٹک ٹاک کو پسند کرنے والے حلقوں میں اس کا نام جانا پہچانا ہے۔ پولیس نے روایتی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے یہ کوشش کی کہ کسی طرح سارا ملبہ خود ٹک ٹاکر لڑکی پر ہی ڈال کر جان چھڑا لی جائے۔ مگر بات اس حد تک آگے جا چکی تھی کہ معاشرے کے مختلف طبقات اور میڈیا میں اپنے ٹاؤٹ استعمال کرنے کے باوجود یہ ترکیب کامیاب نہ ہو سکی۔ پھر اس کے بعد ڈی آئی جی آپریشنز سے لے کر نیچے تک کے افسر و اہلکار ہٹانا پڑ گئے۔ اس سارے واقعہ کا سب سے اہم اور تشویشناک  پہلو یہ ہے کہ متاثرہ لڑکی نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی پر خود پولیس رجوع ہی نہیں کیا۔ جیسے اس کو پورا یقین تھا کہ کوئی کارروائی تو ہونی نہیں الٹا یہ کہ وہ اپنی فریاد لے کر پولیس کے پاس گئی تو پہلے سے بڑی افتاد میں پھنس جائے گی۔ اس لڑکی کا یہ عدم اعتماد صرف مقامی پولیس پر نہیں بلکہ پورے سسٹم پر ہے۔ ظاہر ہے وہ تھانے میں جاتی تو اس سے طرح طرح کے سوالات کئے جاتے۔ پولیس کی یہی کوشش ہوتی کہ مقدمہ درج کرنے کی نوبت ہی نہ آئے۔ زمینی حقائق سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ اگر یہ معاملہ سوشل میڈیا کے ذریعے  وائرل ہو کر مقامی میڈیا اور پھر بین الاقوامی میڈیا میں نہ جاتا تو سارا کیس کھلنے سے پہلے ہی بند ہو جانا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ حملہ آور ہجوم جو کچھ کر رہا تھا وہ اسی اعتماد  کے پیش نظر کر رہا تھا کہ کسی  کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو گی۔ حکومت اور پولیس کے اعلیٰ حکام کو سب سے زیادہ اسی نکتے پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ جب کسی ادارے کی ساکھ ختم ہو جائے تو اس کے وجود کے بارے میں سوالات از خود کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ معاملہ صرف اس ایک واقعہ تک محدود نہیں۔ چند ماہ قبل میرے ایک دوست نے جو شہر کے ممتاز ڈاکٹر ہیں میرے ساتھ کہیں جانا تھا۔ طے پایا کہ وہ میرے دفتر کے قریب آ کر مجھے فون کریں گے میں باہر آ جاؤں گا اور ہم ایک ہی گاڑی میں جائیں گے۔ ڈاکٹر صاحب نے مقررہ وقت سے کچھ پہلے فون کیا اور کہنے لگے کہ آپ کے دفتر کے قریب ٹریفک پھنس گئی ہے لیکن آپ تیار رہیں، میں بلڈنگ کے نیچے پہنچ کر پھر فون کروں گا۔ کافی وقت گزرنے کے باوجود ان کی کال نہیں آئی  تو میں نے نمبر ملایا فون بند ملا۔ حیرانی ہوئی پھر ڈائل کیا مگر فون بند تھا۔ کچھ دیر انتظار کے بعد دفتر کے نیچے آ کر دیکھا تو ٹریفک بھی رواں دواں ہو چکی تھی۔ مگر ڈاکٹر صاحب آئے نہ ہی ان کا فون آیا۔ شش و پنج میں واپس اپنے دفتر چلا گیا۔ تقریباً چار گھنٹے کے بعد موبائل کی سکرین پر ڈاکٹر صاحب کا نام نمودار ہوا۔ کال ملتے ہی گلہ کیا کہ آپ کہاں رہ گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے جواب میں اپنی بپتا سناتے ہوئے بتایا کہ وہ جیسے ہی مجھے فون کر کے فارغ ہوئے ایک نوجوان نے آ کر گاڑی کے شیشے پر پستول ٹکا دیا۔ ٹریفک جام کے دوران سب کے 
سامنے میرا موبائل لے فرار ہو گیا۔ میں نے کہا آپ آئے کیوں نہیں، بالکل ساتھ ہی تھانہ ہے؟ ہم اسی وقت جا کر شکایت درج کراتے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا اس سے سوائے وقت ضائع کرنے کے اور کیا حاصل ہونا تھا؟ اسی لئے واپس مڑ کر گلبرگ گیا۔ نیا موبائل خریدا۔ دوستوں کے نمبر ڈھونڈے اور اب رابطے کر رہا ہوں۔ یہ ہے معاشرے کے انتہائی قابل پڑھے لکھے اور قابل افراد کی پولیس کے بارے میں رائے۔ اور یہ غلط بھی نہیں۔ آج کل عالم یہ ہے اوّل تو ایف آئی آر ہی درج نہیں ہوتی اور اگر ہو جائے تو اہلکار اس وقت تک کارروائی پر تیار نہیں ہوتے جب تک ان کی مٹھی گرم نہ کر دی جائے۔ ان دنوں تو حالات پہلے سے کہیں زیادہ خراب ہیں۔ اب تو رشوت مانگنے والے یہ بھی نہیں دیکھتے کہ سامنے کون ہے۔ دو ہی کام رہ گئے ہیں رشوت ستانی اور جعلی پولیس مقابلے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ سب کچھ اس دور حکومت میں ہو رہا ہے جسے تبدیلی کے نام پر مسلط کیا گیا ہے۔ پولیس اصلاحات کے ڈھول کا پول اسی وقت کھل گیا تھا جب اس حکومت نے آتے ہی قواعد کے مطابق اپنی ڈیوٹی کرنے والے ڈی پی او پاکپتن کو نہایت بھونڈے طریقے سے ہٹایا۔ اس کے بعد سے اب تک تمام شعبوں سے تعلق  رکھنے والے سرکاری افسروں کو اسی طرح سے رگڑا لگایا جا رہا ہے۔ مینار پاکستان پر ٹک ٹاکر لڑکی سے پیش آنے والے واقعہ کے بارے میں ایک تاثر یہ بھی ہے کہ حکومت بعض اہم قومی مسائل پر عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے اسے بہت زیادہ اچھال رہی ہے۔ اس بات میں بھی وزن ہے کیونکہ ٹریک ریکارڈ بتاتا ہے سانحات کو کارنامے بنا کر پیش کرنا اس حکومت کی پالیسی ہے۔ اسی لئے اب حکومت کا ہر چھوٹا، بڑا اس واقعہ کا نوٹس لیتا پھر رہا ہے۔ یہاں تک کے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھی یہ واردات زیر بحث آئی۔ اس حوالے سے احمقانہ تجاویز بھی پیش کی جا رہی ہیں۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ پارکوں میں ٹک ٹاکرز کے داخلے پر پابندی لگائی جائے، کہیں سے یہ آواز آتی ہے مینار پاکستان کی سکیورٹی ہی رینجرز کے حوالے کر کے وہاں مستقل چوکی بنا دی جائے۔ اور صرف فیملیوں کو داخلے اجازت ہو۔ ان سب باتوں کا ایک ہی جواب ہے کہ آپ پہلے سے موجود قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنا دیں مسئلہ ہی حل ہو جائے گا۔ اوپر سے نیچے تک پاکستان کا اصل مسئلہ ہی یہی ہے کہ چند طبقات پر کوئی قانون لاگو ہی نہیں ہوتا۔ ان کو دیکھ کر پھر ہر کسی کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ بھی یا تو ان طبقات کا حصہ بن جائے یا پھر ان کے لئے ایسی خدمات سرانجام دے کہ اسے بھی قانون کو روندنے کی کھلی چھٹی مل جائے۔ اسی طبقے کا ایک کیس پچھلے کئی دنوں سے میڈیا کی توجہ کا مرکز ہے۔ ایک بے حد مالدار اور ماڈرن خاندان کے نوجوان نے اپنے ہی گھر میں اپنی دوست کا بہیمانہ قتل کر ڈالا، مقتولہ نور مقدم بھی کسی معمولی خاندان سے نہیں تھی۔ اسکے والد سفیر رہے اور اعلیٰ حلقوں میں رسائی رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود اکثر لوگوں کو شک ہے کہ قاتل کو قرار واقعی سزا نہیں ملے گی۔ قاتل نے مقتولہ کو زیادتی کا نشانہ بنایا اور پھر قتل کرنے کے بعد سر تن سے جدا کر دیا۔ اس لرزہ خیز واردات کو بعض بااثر حلقے دوسرا رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک مخصوص لابی  کے لئے کام کرنے والے اینکر نے کوشش کی کہ مقتولہ کے کردار پر گرد اڑا کر کیس کا رخ تبدیل کر دیا جائے۔ اس سے پہلے یہ بھی سنا گیا تھا کہ قاتل کا ارب پتی باپ فیصلہ ساز حلقوں میں گہرے اثر و رسوخ کا حامل ہے۔ مینار پاکستان میں ہجوم کا نشانہ بننے والی ٹک ٹاکر لڑکی ہو یا پھر اپنے دوست کے ہاتھوں قتل ہونے والی نور مقدم، دونوں کے کردار پر بات کرنے سے پہلے اس امر کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ جو کچھ ان کے ساتھ ہوا قانون میں اس کی سزا کیا ہے؟ ہمارے ہاں تو یہ حال ہے کہ شراب کے ڈرم کے نام سے جانے والے دانشور ٹی وی پر بیٹھ کر دوسروں کو اخلاقیات کا درس دے رہے ہوتے ہیں۔ گھریلو ملازمین اور ماتحت عملے کو غلیظ گالیاں بکنے والے معاشرے کو تہذیب سکھا رہے ہوتے ہیں۔ حرام کمانے، دوسروں کا حق مارنے اور قبضہ گروپوں سے تعلقات رکھنے والے عوام کو حب الوطنی کا سبق پڑھا رہے ہوتے ہیں۔ بیمار ذہنیت کے ایسے لوگوں نے جھوٹ پھیلا پھیلا کر معاشرے کو تقسیم کر رکھاہے۔ یقینا یہ بھی ان طبقات کے لئے کام کرتے ہیں جن پر کسی قاعدے، قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ یہ کہہ دینا کہ ہمیں تو کوئی کچھ نہیں کہتا سو کسی دوسرے کے ساتھ ایسا ویسا کیوں ہو گیا۔ دماغ میں بھوسہ نہیں بلکہ غلاظت اور خباثت بھرے ہونے کی نشانی ہے۔ لاہور میں ٹک ٹاکر لڑکی سے زیادتی ہوئی اسلام آباد میں نور مقدم کا سر کاٹ کر  قتل، رائج الوقت قانون میں دونوں وارداتوں کی سزائیں موجود ہیں۔ پہلے مقدمات چلا کر سزاؤں پر عمل درآمد کر لیں پھر خرابی کے اسباب کا جائزہ بھی لے لیں گے۔ ذرا تصور کریں ٹک ٹاکر لڑکی یورپ یا کسی خلیجی ملک میں ہوتی تو کیا کسی قسم کا ہجوم اس پر حملے کی جرأت کرتا۔ نور مقدم دبئی یا امریکا میں ہوتی تو اس کے قاتل کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا۔ ساری افراتفری اور بربادی اسی لئے ہے کہ ہمارے ملک میں طاقتور کے لئے کوئی قانون نہیں اور چند طبقات نے ایسا ماحول بنا رکھا ہے کہ وہ جو کچھ کہیں وہی قانون کہلاتا ہے۔ اس کا استعمال کسی مشہور شخصیت کے خلاف ہو رہا ہو تو عام لوگ بھی سمجھ جاتے ہیں کہ اسے کسی بات پر ذاتی انتقام یا پھر سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سب سے زیادہ احتساب ان ٹاؤٹوں کا ہونا چاہئے جو اپنے آقاؤں کے اشارے پر کسی بھی معاملے کو غلط رنگ دینے کے لئے جھوٹ پر جھوٹ بکنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسے عناصر میڈیا، تاجر تنظمیوں، نام نہاد سماجی تنظیموں اور جرائم پیشہ افراد بھی بکثرت پائے جاتے ہیں۔ معاشرے سے ٹاؤٹ ازم ختم ہو جائے تو قانون کے نام پر قانون سے کھلواڑ کرنے والوں کو کٹہرے میں لانا آسان ہو جائے گا۔