یہ انتشار کی سیاست ہے

یہ انتشار کی سیاست ہے

 پاکستان کی سیاست میں کس قدر منافقت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے دوغلے رویوں کی وجہ سے ہی ہمارے معاشرے میں کمزور کو پہلوان ، اندھے کو حافظ اور درزی اور موٹر مکینک کو ماسٹر کہا جاتا ہے ۔ کچھ ایسا ہی حال ہماری سیاست کا ہے عمران خان حکومت پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ عوام پر خوف مسلط کرتی ہے لیکن یہ نہیں بتاتے کہ اپنی ہر تقریر میں وہ جوآئی جی سے لے کر ایڈیشنل سیشن جج تک کو دھمکیاںدیتے ہیںیہ کیا خوف کی سیاست نہیں ہے ۔ جس کی ساری زندگی پلے بوائے کے طور پر گذری ہے کچھ لوگ بضد ہیں کہ موصوف کو عالم اسلام کا لیڈر تسلیم کیا جائے ۔ بس اصرار یہی ہے کہ جو ہم کہتے ہیں وہ مان لو اور اسی میں سب کی بھلائی ہے ورنہ جو ہمارے خلاف جائے گا چاہے وہ کتنا بڑا سرکاری عہدیدار ہی کیوں نہ ہو اس کی ایسی تیسی کر دی جائے گی لیکن پھر بھی سادہ لوح عوام میں جے جے کار انھی دوغلے معیار رکھنے والوں کی ہوتی ہے ۔خان صاحب موجودہ حکومت کو امپورٹڈ حکومت کہتے ہیں لیکن جب سے یہ حکومت آئی ہے اس وقت سے آئی ایم ایف ، امریکہ اور امریکہ کے حلیف برادر اسلامی ممالک تک نے اس بیچاری نام نہاد امپورٹڈ حکومت کو لفٹ نہیں کرائی۔ آئی ایم ایف اگر نرم شرائط پر قرض دے دیتا تو اس حکومت کو کیا پڑی تھی کہ وہ پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کر کے اپنی سیاسی مقبولیت کا خود ہی جنازہ نکالتی ۔ آئی ایم ایف سمیت عالمی قوتیں جس حد تک اس حکومت کو خوار کر رہی ہیں اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ موجودہ حکومت کس حد تک امپورٹڈ ہے اور بین الاقوامی سازش کا آلہ کار کون ہے اور کن کے خلاف عالمی سازش ہوئی ہے ۔
جھوٹ اور انتشار کی سیاست سے ملک میں جس طرح انارکی پھیلانے کا کام کیا جا رہا ہے یہ کوئی اتفاق نہیں ہے بلکہ سب کچھ سوچی سمجھی سازش کے تحت ہو رہا ہے ۔ عمران خان جس طرح کے بیانات دے رہے ہیں اول تو اس طرح کے بیانات بھی مناسب نہیں ہیں لیکن پھر بھی بات اگر بیانات تک ہی محدود رہتی تو کہہ سکتے تھے کہ خان صاحب یہ سب جذبات میں کہہ دیتے ہیں ورنہ ان کا مقصد یہ نہیں تھا لیکن 25مئی کے واقعات کو لے کر جس طرح 
پنجاب میں 41افسران کو ملازمت سے فارغ کر دیا گیا ہے تو ان اقدامات سے پتا چلتا ہے کہ ملک کو انتشار سے دو چار کرنے کا کام پوری طاقت کے ساتھ جاری ہے ۔ اس کے بعد اسلام آباد جلسہ میں سرکاری اہل کاروں اور خاص طور پر ایک ایڈیشنل خاتون جج کو دھمکیاں دینا واضح کرتا ہے کہ ملک کو کس سمت لے جایا جا رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ اگرکسی پولیس کانسٹیبل کو بھی کوئی کچھ کہتا تھاتو پولیس والے اسے چھوڑتے نہیں تھے اس لئے کہ ان کا موقف تھا کہ کانسٹیبل بھی اسی طرح ایک سرکاری عہدیدار ہے جیسا کہ آئی جی پولیس ہے۔ بات درست ہے کہ سرکاری اہل کار چاہے ان کا تعلق کسی بھی محکمہ سے ہو ان کے تحفظ کی ذمہ دار ریاست ہوتی ہے اور اگر ہر کوئی اٹھ کر ریاستی عہدیداروں کو دھمکیاں دینے لگے اور ریاست اس کا سدباب بھی نہ کرے تو اول تو ان کی اہمیت ہی ختم ہو جائے گی دوسرا جب سرکاری ملازم کے سر سے ریاستی تحفظ کی چھتری ہٹا لی جائے گی تو پھر وہ کام ہی نہیں کر پائے گا ۔ آپ کو یاد ہو گا کہ تحریک انصاف 2018میں جب بر سر اقتدار آئی تو احتساب کے کھوکھلے نعرے میں وزن پیدا کرنے کے لئے نیب کو سرکاری افسران کی کرپشن کو بے نقاب کرنے کا ٹاسک دے کر ان کے پیچھے لگا دیا گیا تھا اور چند ہفتوں کے اندر ہی سول بیوروکریسی کے اندر خوف کا یہ عالم تھا کہ انھوں نے عملی طور پر کام کرنے سے انکار کر دیا تھا اور ریاستی مشینری ٹھپ ہو کر رہ گئی تھی۔ اس پر جب بہت زیادہ شور ہوا تو تب کہیں جا کر نیب سے اختیارات واپس لئے گئے ۔
 اس وقت تو تحریک انصاف کی اپنی حکومت تھی اور سارا الزام خان صاحب پر آ رہا تھا اس لئے مجبوری کے عالم میں نیب کو دیئے گئے اختیارات واپس لینا پڑے لیکن اب تو خان صاحب وفاق میں حزب اختلاف میں ہیں لہٰذا اب وہ جو بھی کر لیں اسے مقبول عوامی بیانیہ کا جامہ پہنا کر عوام کے سامنے پیش کر دیا جاتا ہے لیکن جس طرح ایک ایڈیشنل جج کو اور آئی جی اور ڈی آئی جی اسلام آباد کو دھمکیاں دی گئیں اور پنجاب میں جس طرح سول بیوروکریسی کو تباہ کیا جا رہا ہے اس طرح کے اقدامات سے ملک کو تباہی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے ۔ اگر ایسا سلوک کیا گیا اور خاص طور پر پولیس کے محکمہ کے ساتھ تو مستقبل میں پولیس امن و امان قائم رکھنے کے لئے کسی حکومت کے احکامات پر عمل نہیں کرے گی بلکہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر تماشا دیکھتی رہے گی لیکن امن و امان کو تباہ کرنے والے شر پسندوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرے گی اس لئے کہ سرکاری اہل کار اگر بے دھڑک کود پڑتے ہیں تو اس کے پیچھے بہت بڑی وجہ ریاستی تحفظ ہوتا ہے لیکن اگر ریاست ہی ان کے تحفظ میں ناکام ہو جائے تو پھر باقی کیا بچتا ہے ایسا لگتا ہے کہ خان صاحب نے جس طرح میڈیا میں ہم خیال صحافیوں کا گروپ بنایا ہوا ہے وہ چاہتے ہیں کہ ریاستی اداروں میں بھی ان کا ایک ہم خیال گروپ ہو اور جو ہم خیال نہ ہو اسے مجبور کیا جائے یا پھر ملازمت سے نکال دیا جائے ۔عرض صرف یہ کرنی ہے کہ ریاستی ادارے سیاسی جماعتیں نہیں ہیں یہ ملک کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں مان لیا کہ ان میں بہت سے کرپٹ ہوتے ہیں لیکن بہت سوں سے زیادہ خلوص نیت اور ایمانداری سے اپنا فرض ادا کرتے ہیں ۔ جس طرح خان صاحب کر رہے ہیں اور جو ان کا طرز عمل ہے اس سے ملک و قوم کا انتشار میں مبتلا ہونا ایک یقینی امر ہو گا اس لئے خان صاحب سے گذارش ہے کہ سیاست کریں یہ آپ کا آئینی حق لیکن خدارا اس ملک پر اس قوم پر رحم کھائیں معیشت پہلے ہی وینٹی لیٹر پر سانس لے رہی ہے اور جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا اس وقت تک معیشت سنبھل نہیں پائے گیاس لئے ملک قوم کا کچھ خیال کریں اور منفی سیاست کو چھوڑ کر مثبت سیاست کریں ۔ خان صاحب نے اپنے اقتدار کے دوران اپنے تمام سیاسی مخالفین کو جیلوں میں رکھا اس لئے اب اقتدار سے دوری ان سے برداشت نہیں ہو رہی اور وہ چاہتے ہیں کہ چاہے پوری دنیا کو جلا کر راکھ کر دیا جائے لیکن انھیں وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بٹھا دیا جائے ۔لوگ سیلاب سے مر رہے ہیں گھر سے بے گھر ہو رہے ہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ جو ہونا ہے ہو جائے لیکن میرے جلسوں میں لوگ ضرور آنے چاہئیں۔ میرے فن خطابت کی تسکین ضروری ہے کاش خان صاحب انتقامی سیاست کے بجائے مثبت سیاست کرتے تو ملک کے مسائل مزید الجھنے کے بجائے سلجھنے شروع ہو جاتے لیکن خان صاحب نے اپنے دور حکومت میںجو کیا ہے در حقیقت وہ اس سے خوف زدہ ہیں کہ اگر کھاتے کھلنا شروع ہو گئے تو تمام عمر کی نیک نامی چند دنوں میں بدنامی کے اندھیروں میں گم ہو جائے گی۔