خوف کی لہر

خوف کی لہر

پاکستان کو اس وقت معاشی اور سیاسی بحران کا سامنا تو ہے ہی مگر دوسری جانب دیکھیں تو ملک سکیورٹی بحران کا بھی شکار ہوتا چلا جا رہا ہے پچھلے چند ماہ سے پہلے دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہیں دہشت گردی کے واقعات بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے نکل کر ملک کے بیشتر علاقوں سمیت پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں بھی پہنچ گئے ہیں گزشتہ دنوں اسلام آباد کے علاقے آئی 10 میں دہشت گردوں نے حملہ کر کے ایک پولیس اہلکار شہید اور چار کو زخمی کر دیا اور دو راہگیر بھی شدید زخمی ہو گئے پولیس کے مطابق اہلکاروں نے ایک مشکوک گاڑی کو تلاشی کے لیے روکا جس میں ڈرائیور کے ساتھ ایک اور شخص بھی موجود تھا اور روکنے پر گاڑی سوار خودکش حملہ آور نے دھماکہ کر دیا پولیس نے بتایا کہ دھماکے میں 18 کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا واقعے کی جگہ سے ایک موبائل فون بھی ملا جس سے قبضے میں لے لیا گیا اور خدشات کے عین مطابق دہشت گردی کے اس واقعے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کر لی ہے اس سارے معاملے پر وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ بارود سے بھری گاڑی اسلام آباد میں داخل ہوئی جس کا ٹارگٹ ہائی لیول تھا مگر پولیس کی کارروائی نے اسے چھوٹے نقصان میں تبدیل کر دیا مگر سوال یہ آتا ہے کہ اگر اس واقعے میں کوئی ہائی لیول بندہ مارا جاتا ہے تو وہ کیا ہائی لیول نقصان ہوتا مگر اس میں ایک جوان جو ہے اس نے جام شہادت نوش کیا تو اس وجہ سے یہ کیا کم لیول کا ہے سمجھ سے بالاتر ہے اپنے سیاستدانوں کے ایسے بیانات۔
اس واقعے سے پہلے ایسا دہشت گردی کا واقعہ سات سال پہلے ہوا تھا 2015 میں راولپنڈی میں کے علاقے شکریال روڈ پر امام بارگاہ کے باہر دھماکہ ہوا تھا جس میں تین افراد شہید جبکہ 2 زخمی ہوگئے تھے مگر سمجھ سے بالاتر ایک اور چیز ہے کہ وزیرداخلہ کہتے ہیں کہ اس طرح کے واقعات کی اطلاعات آرہی تھی کہ ایسا واقعہ اسلام آباد میں پیش آ سکتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ تو آپ لوگوں نے ہائی سکیورٹی 
کے انتظامات کیوں نہیں کیے انتظار کس چیز کا تھا؟ ابھی تک یہ جو دہشت گردی کی نئی لہر آئی ہے اگر دیکھا جائے تو کے پی کے میں 952 حملے رجسٹرڈ ہوچکے ہیں اس کے بعد انٹیلی جنس ایجنسی نے الرٹ جاری کیا تھا کہ اسلام آباد کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے اس میں بڑا نقصان سے بچت صرف اس لیے ہوئی کہ اس آباد پولیس کے ایک جوان عدیل نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر کتنے لوگوں کی جان بچائی کتنے معصوموں کو یتیمی سے بچایا مگر ملک میں اب بھی جو لہر آئی ہے دشت گردی کی اس میں خطرناک اضافہ ہوا ہے مگر سوال آتا ہے کہ دارالحکومت کی سکیورٹی کو بہتر بنانے کے لیے کیا کیا جا رہا ہے؟سیف سٹی تو پہلے ہی موجود تھا مگر ایک ادارہ ہوتا تھا نیکٹا اس کے بارے میں کوئی اہم خبر نہیں سن رہے یہ صرف ایک شہر کی سکیورٹی کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے پاکستان کا مسئلہ ہے دیکھا جائے تو پاکستان اس وقت لمیٹڈ وار میں چلا گیا ہے ہم اس وقت کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ وار کی سی کیفیت میں ہے جس کی جڑیں افغانستان سے ملتی ہیں سی ٹی ڈی نے بھی خدشات ظاہر کیے تھے کے افغانستان میں جو معاملات ہوئے ہیں اس کے اثرات آئیں گے سوال یہ تھا کہ کس کو کنٹرول کیوں نہیں کیا گیا؟ دہشت گردی کے واقعات تشویش ناک حد تک بڑھ گئے ہیں سب سے زیادہ متاثرہ کے پی کے کا صوبہ ہے جہاں واضح طور پر سکیورٹی فورسز کے دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں پولیس کے مطابق صرف اس سال کے پی کے میں دو سو بیس سے زائد حملوں میں ایک سو اٹھارہ پولیس اہلکار شہید جبکہ 115 زخمی ہوئے 28 نومبر کو ایک اعلامیہ کے ذریعے کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ حکومت کے مذاکرات ہوئے اور جب طرفہ جنگ بندی ختم کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی جس کے بعد سکیورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ دیکھا گیا دسمبر میں ہونے والے بڑے دہشت گردی کے واقعات میں 12 اہلکار شہید ہوئے گزشتہ دنوں دہشت گردوں نے بنوں سی ٹی ڈی کے دفتر پر حملہ کر کے اہلکاروں سے اسلحہ چھین کر انہیں یرغمال بنا لیا ہے جن کے خلاف آپریشن میں 3 اہلکار شہید ہوئے 18 دسمبر کو لکی مروت میں تھانے پر حملہ کر کے 14 اہلکار شہید کر دیے چھ دسمبر کو بنوں میں ایف سی کے سپاہی کو سر قلم کر کے شہید کر دیا گیا تین دسمبر کو نوشہرہ میں فائرنگ کرکے 3 پولیس اہلکاروں کو شہید کردیا گیا یہی سارے معاملات دیکھیں تو بڑا ہی افسوس ہو رہا ہے کہ ملک جا کے اس طرف رہا ہے ہم لوگوں کا اس ملک کی عوام کا کیا بنے گا؟اور ہمارے جوان شہید ہوگئے ہیں جن کے خون کا قرض ہم نہیں ادا کر سکتے دکھ ہوتا ہے کہ سیاستدان اپنی کرسی کی جنگ میں مصروف ہیں اور عوام اور سکیورٹی اہلکار اپنی جان کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں 
کرب و بلا شدید ہے سچ مگر یہی آیا
شہید کی جو موت ہے قوم کی حیات ہے