رحمت ا للعالمینؐ اتھارٹی اورریاست مدینہ کاقیام

 رحمت ا للعالمینؐ اتھارٹی اورریاست مدینہ کاقیام

 نیشنل رحمت للعالمینؐ اتھارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر اعجاز اکرم اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے اوران کی جگہ اتھارٹی کے رکن ڈاکٹر انیس کو تا حکم ثانی چیئر مین کا چارج دے دیا گیاہے۔وزیراعظم عمران خان نے جب سیرت النبی ؐاور مدینہ کی ریاست کے مختلف پہلوئوں پر تحقیق کے لئے اپنی سربراہی میں رحمت اللعالمینؐ اتھارٹی قائم کرنے کا اعلان کیا کہ اتھارٹی نہ صرف سکولزکے نصاب بلکہ سوشل میڈیا پر نازیبا مواد کی مانیٹرنگ کرے گی بلکہ بچوں کو اپنی ثقافت سے متعارف کرانے کے لئے کارٹون بھی سیریز بنائیں گے، تو امید کی اک کرن جاگی کہ اب موجودہ نظام تعلیم میں جوتربیت کااہم جزو نظرانداز چلا آرہا ہے اس کی بھرپورتلافی ہوسکے گی، لیکن لگ بھگ 3ماہ مدت گزر جانے کے باوجود عملاً کوئی تسلی بخش کارکردگی نہ ہونے کی وجہ سے یہ تبدیلی عمل میں آئی ہے۔
اتھارٹی کے ذمے نوجوانوں کی کردار سازی کے لیے سیرت النبیؐ اور احادیث پر تحقیق کرنا طے ہوااور اس کے علاوہ سیرت نبویؐ کو نصاب کا حصہ بنانے کے لیے اتھارٹی متعلقہ ماہرین سے مشاورت اوراسے دنیا کے سامنے اسلام کی وضاحت کا کام بھی سونپا گیا تھا۔نوجوان نسل انتہائی دباؤ کا شکار ہے، بیروزگاری اور جنسی جرائم میں اضافہ پاکستان کے نوجوانوں کا اہم بڑا مسئلہ بنتا جارہاہے، جس کی بڑی وجہ کردار سازی اورتربیت کا فقدان ہے۔مغربی کلچراپنانے سے ہمارامعاشرہ کیسے بچ سکتا ہے، جب مغربی ممالک کا اپنا خاندانی نظام تباہ ہوچکاہے۔ بچوں کودکھائے جانے والے کارٹون پروگرام ہماری ثقافت سے مطابقت نہیں رکھتے،اس سے بچوں کی تربیت پر اثر پڑ رہاہے ، موبائل فون نے پوری دنیا بدل دی ہے،اس میں ایسا مواد ملتا ہے جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی جوایک چیلنج ہے۔ قصور میں ہونے والے جنسی زیادتی کے واقعات پر رپورٹ بڑی خوفناک ہے،اسی طرح معاشرے میں طلاق کی شرح میں اضافہ تشویش ناک ہے۔ فحاشی اور منشیات کے اثرات خاندانی نظام پر پڑرہے ہیں، ہمیں اپنے نوجوانوں کواس کے معاشرتی اثرات سے بچانا ہے۔اگر ملک کو ترقی کے راستے پر گامزن کرناہے تو ہمیں نوجوانوں کی کردار سازی کرنے کیلئے قرآن کوسمجھنے کی ضرورت ہے اور ہمیں نبی ؐ کی اتباع کرنا ہوگی۔اگرحقیقی معنوں میں ہم مدینہ کی ریاست کے اصولوں پرچلیں گے تو ملک ترقی کرے گا۔
نبی کریمؐ پوری انسانیت کیلئے رحمت ہیں، قانون کی حکمرانی، فلاح وبہبود،علم کے حصول پر غیر متزلزل توجہ ہونی چاہیے۔مسلمان رسولؐ کی زندگی اور تعلیمات کو پوری طرح سمجھیں، اتھارٹی کا مقصد باہمی تحقیق کے ذریعے سنت، سیرت النبیؐ کو سمجھنا ہے اور نوجوانوں کو اسلامی تشخص،اقدار ،ثقافت سے متعلق آگاہی ضروری ہے۔اسی اعتبار سے اتھارٹی کا مقصد بھی ہمہ گیر اور ہمہ جہت ہونا چاہئے۔ اس اتھارٹی کے قیام کا مقصد محض نوجوانوں کی اصلاح، جنسی جرائم کی روک تھام، نصاب اور سیرت کے حوالے سے تعلیم و تعلم پر مبنی ایک لائبریری کے قیام تک محدود نہیں ہونا چاہئے بلکہ یہ اتھارٹی سیاسی،سماجی اورمعاشی اعتبارات سے بھی ان تمام سفارشات کا جائزہ لینے کی مجاز ہو جو عدل وقسط پر مبنی ایک صالح معاشرے کے قیام کیلئے سامنے لائی جائیں۔ رحمت اللعالمینؐ کی بعثت کا بنیادی مقصد بھی یہی تھا کہ وہ نظام عدل اجتماعی کوکل نظام زندگی پر اس طرح غالب کردیں کہ کوئی گوشہ زندگی اس سے مستثنیٰ نہ رہیں۔خواہ وہ انفرادی زندگی ہو جوعقائدوعبادات اور رسومات سے عبارت ہے یا اجتماعی زندگی ہو جو کسی معاشرے کے سیاسی، معاشی اور سماجی نظام کا احاطہ کرتی ہے۔ دنیا میں انقلاب فرانس میں سیاسی نظام کو تبدیل کیا گیا لیکن باقی نظام زندگی میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نظر نہیں آئی، اسی طرح انقلاب روس میں انسان کے بنائے ہوئے فلسفوں کے ذریعے معاشی نظام کو تبدیل کردیا گیا لیکن باقی نظام ہائے زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔یہی وجہ ہے کہ یہ نظام صرف سات دہائیوں تک ہی چل کر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا۔ حضورؐ نے تاریخ انسانی کا ایک ایسا عظیم اور ہمہ گیرانقلاب برپا کیا جس نے انسانی زندگی کے انفرادی اور اجتماعی زندگی کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔انہوں نے دنیا کو سکھایا کہ سیاست کیسے کی جاتی ہے،عدل وانصاف کیا ہوتا ہے اور ایک متوازن معاشی نظام کیسے قائم کیاجاسکتا ہے۔ افسوس ان زریں اصولوں کو چھوڑ کر ہم کبھی سوشلزم،کمیونزم اور کیپیٹلزم اور کبھی مغربی تہذیب کے لبادے اوڑھ کرسیاسی اور معاشی میدان میں کامیابی کو تلاش کر رہے ہیں۔
رحمت اللعالمین اتھارٹی کااہم مقصد یہ ہونا چاہیے کہ اسلاموفوبیا کے تدارک کیلئے دنیابھرکے اسکالرز سے رابطہ کرے اور دنیا کے سامنے اسلام کا حقیقی چہرہ پیش کیا جائے۔اتھارٹی مغربی تہذیب کے مسلم معاشرے پر اثرات اسکے نقصانات اور فوائد پر بھی تحقیق کرے،نوجوانوں پر سوشل و ڈیجیٹل میڈیا اثرات سے محفوظ بنانے کیلئے بھی کام کرے۔رحمت اللعالمین اتھارٹی کا کام ترجیحی بنیادوں پر سیرتِ طیبہ کے عملی زندگی پر اطلاق اور معاشرے میں موجود خلاء کی نشاندہی کرکے تحقیق سے مسائل کا حل ڈھونڈنے میں معاونت کرنا ہو۔اتھارٹی کو قلیل المدتی اور طویل المدتی لائحہ عمل بارے جامع پلاننگ دی جائے۔ اب تک کی پیش رفت اور سیرتِ طیبہ کے پہلوؤں کونصاب میں شامل کرنے پر بھی ٹائم فریم دیا جائے، تاکہ قومی وعالمی سطح پراسلام بارے غلط فہمیوں کو دورکرکے حضورؐ کی زندگی کے اہم اسباق کی تشہیر و تبلیغ بھی ہوسکے۔
وزیراعظم کا رحمت للعالمین اتھارٹی بنانے کا فیصلہ بڑاقدم ہے، قرآن، حدیث، درودوسلام اوراسوہ حسنہ پر عمل کرکے ہم دنیا کی طاقتور ترین قوم بن سکتے ہیں۔وزیر اعظم ہر جگہ ہمارے آقانبیؐ کی بات کرتے ہیں جو بات دل سے کی جائے وہ اثر کرتی ہے۔ رحمت للعالمین اتھارٹی کے قیام کے دور رس نتائج حاصل ہوں گے ،وزیراعظم عمران خان پاکستان کو ریاست مدینہ بنانا چاہتے ہیں اور یہ اتھارٹی اس وژن کی عکاس ثابت ہوسکتی ہے۔اس ضمن میں سول سوسائٹی اور علما کرام کا کردار انتہائی ناگزیر ہے تاکہ پاکستان کو فلاحی ریاست بنایا جا سکے۔ ریاست مدینہ محض ایک اتھارٹی کے قیام یا نوٹیفکیشنز جاری کرنے سے نہیں بنے گی، ہمیں اپنی سیاست،معیشت، عدالت، سماج اور تمدن کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا،اور اس کیلئے ہمیں رہنمائی مغرب زدہ آئین ودستور سے نہیں ملے گی بلکہ قرآن، حدیث اور درودوسلام پر عملدرآمد  کی برکت سے ملے گی۔ حکومت اور رحمت للعالمینؐ اتھارٹی کوریاست مدینہ کے قیام کیلئے قرآن وسنت اورسیرت طیبہ کی روشنی میں معاشرے میں موجود معاشی، قانونی وسیاسی ناہمواریوں کو دور کرکے ریاست مدینہ کے رہنما اصولوں پر حقیقی معنوں میں عملدرآمد کرنا ہو گا۔

مصنف کے بارے میں