عمران خان کا سیاسی دھوبی پھٹکا۔۔۔

عمران خان کا سیاسی دھوبی پھٹکا۔۔۔

عمران خان نے صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کر کے موجودہ گلے سڑے نظام کو آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ایک شاندار سیاسی و آئینی دھوبی پٹکا مارا ہے۔ اس موضوع پر قلم اٹھانے سے پہلے میں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو مبارکباد دیتا ہوں کہ وہ ایک اور قاتلانہ حملے کی دھمکی کے باوجود راولپنڈی سے خیر خیریت سے واپس آگئے۔ وگرنہ لیاقت علی خان، ذولفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے حوالے سے اس شہرکا ریکارڈ بہت براہے۔اللہ عمران خان کو لمبی زندگی دے۔ آمین
اب آتے ہیں عمران خان کے دھوبی پٹکے کی طرف راولپنڈی میں عمران خان نے تمام صوبائی اسمبلیوں سے بھی مستعفی ہو کر ترپ کا پتہ کھیل دیا ہے اب دیکھتے ہیں حکمران اتحاد کی اس پر حکمت عملی کیا ہوتی ہے۔ اس حوالے سے عمران خان نے اپنی جماعت اور اتحادیوں سے مشاورت کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ زمان پارک میں ہونے والے ایک اجلاس کے حوالے سے ذرایع نے بتایا ہے کہ کے پی کے، پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی پارلیمانی قیادت نے عمران خان کے فیصلے پر لبیک کہہ دی ہے۔ اب انتظار ہے اتحادی مسلم لیگ ق کے فیصلے کا۔ گو کہ مونس الٰہی نے ٹویٹ کے ذریعے عمران خان کے اسمبلی توڑنے کے فیصلہ کی تائید کی ہے لیکن ابھی ق لیگ کی پارلیمانی پارٹی کا فیصلہ آنا باقی ہے اور چوہدری پرویز الٰہی نے خود بھی اس پر لب کشائی نہیں کی۔ شنید ہے کہ اس حوالے سے مسلم لیگ ق کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بھی جلد متوقع ہے۔ 
یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ صوبائی اسمبلیوں سے استعفے یا پنجاب اور کے پی کے اسمبلیاں تحلیل کرنیکا فیصلہ اتحادی حکومت کے لیے غیر متوقع تھا اور یہ سب شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ کیا کیا جائے۔ اتحادی حکومت اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے دیگر آپشنز کے علاوہ گورنر راج لگانے کا بھی سوچ رہی ہے۔ اس حوالے سے آئندہ لائحہ عمل کے لیے متحدہ حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کا ایک اہم اجلاس جلد متوقع ہے۔
اس اجلاس سے قبل مسلم لیگ ن کی ایک اہم بیٹھک وزیراعظم شہباز شریف کی صدارت میں لاہور ماڈل ٹاؤن میں بلائی گئی تھی لیکن بتایا گیا ہے کہ یہ اجلاس وزیر اعظم کی ذاتی مصروفیت کی بنا پر ملتوی کر دیا گیا۔ میری اطلاعات کے مطابق یہ اجلاس نواز شریف کی ہدایت پر ملتوی کیا گیا ہے۔ فیصلہ کیا گیا ہے کہ پہلے مسلم لیگ ن کے بڑے اس پر مشورہ کریں گے جس کے بعد آصف زرداری اور 
مولانا فضل الرحمان کو اعتماد میں لیا جاے گا۔ اس سارے عمل کے بعد مسلم لیگ ن کی مرکزی و صوبائی قیادت کو اعتماد میں لیا جاے گا تا کہ پی ڈی ایم کے اجلاس میں یک سوئی کے ساتھ جایا جا سکے۔ دوسری طرف خیبر پختون خواہ کی اسمبلی کو تحلیل سے بچانے کے لیے متحدہ اپوزیشن کی اجلاس بھی بلایا گیا ہے۔ اسحاق ڈار اور آصف زرداری کی ملاقات بھی ہو چکی ہے جس میں اطلاعات کیمطابق نواز شریف بھی شریک ہوئے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ درمیانی رستہ نکالنے کے لیے بیک ڈور رابطے بھی جاری ہیں۔ دیکھتے ہیں اونٹ کس طرف بیٹھتا ہے۔
عمران خان کی اس سیاسی چال کے بعد آئین و قانون کے مطابق ملک بھر میں دو تہائی سے زائد یعنی 567 نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوں گے اور ایسے وقت میں جبکہ عام انتخابات کو 8 ماہ رہ گئے ہوں کوئی بھی ذی شعور ملک میں 75فیصد نشستوں پر ضمنی انتخابات کرانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اگر کوئی ضد پر اتر آئے تو اس کی بات دوسری ہے لیکن اس ہٹ دھرمی کی بھاری قیمت پاکستان کو ادا کرنی ہوگی۔ لیکن اس سارے کھیل میں الیکشن کمیشن کا کردار اہم ہو گا کیونکہ حکومتی جماعتوں کے فارن فنڈنگ کے فیصلوں سے لے کر اس کے تمام فیصلے پاکستان تحریک انصاف کے خلاف اور حکومت کے حق میں ہی ہیں۔ انتخابات کا انعقاد بھی الیکشن کمیشن کی صوابدید ہے اور وہ حکومتی اتحاد سے مل کر کوئی بھی چال چل سکتا ہے۔ 
یہ بھی حقیقت ہے کہ وطن عزیز میں مسلم لیگ ن اور آصف زرداری ممبران کی ہارس ٹریڈنگ کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ مویشی منڈی کے ان پیشہ ور بپاریوں کے پاس تجربہ بھی ہے، پیسہ بھی اور یقیناً بکنے کو اکا دکا مال بھی ہو گا۔ حال ہی میں آصف زرداری اور مسلم لیگ ن کی حکومت نے اسلام آباد میں سندھ ہاؤس کو استعمال کر کے پی ٹی آئی کے ممبران کو خرید کر جو گھناؤنا کھیل کھیلا ہے وہ سب پر روزن روشن کی طرح عیاں ہے۔ لیکن ممبران کی اس خرید و فروخت پر کسی ادارے نے سو موٹو نہ لیا جس سے ”ہارس ٹریڈرز“ کو مزید تقویت ملی۔ماضی میں مسلم لیگ ن یہی کھیل پیپلز پارٹی کے پنجاب اور مرکز میں ممبران پارلیمنٹ کو خرید کر اپنی حکومت کو دوام بخشتی رہی ہے۔ صادق سنجرانی کے بطور چیئرمین سینیٹ کے انتخابات میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو بھی اسی ہارس ٹریڈگ کا سامنا کرنا پڑا اور اکثریت کے باوجود ان کا امیدوار یوسف رضا گیلانی ہار گیا۔ جبکہ 2019 میں مسلم لیگ ن کے امیدوار حاصل بزنجو بھی صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد میں اکثریت کے باوجود ناکام ہوئے۔ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ دونوں جماعتیں اسی سوراخ سے بار بار ڈسی جاچکی ہیں اسے برا کہتے ہوئے اس راہ پر پھر سے گامزن ہیں۔ ان سے قبل جنرل مشرف نے پیپلز پارٹی میں ایک پیٹریاٹ گروپ تشکیل دیا اوراپنی حکومت کو ایک ووٹ کی برتری دلا نے میں کامیاب ہو گیا۔دیکھا جاے تو ماضی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن بھی ہارس ٹریڈنگ کا شکار رہی ہیں لیکن یہ دونوں جماعتیں ماضی سے سبق سیکھنے کی بجائے اسی طرف گامزن ہیں۔ اب ہارس ٹریڈنگ کے تاجر ایک بار پھر خرید و فروخت کا یہی کھیل پاکستان تحریک انصاف کے ممبران کے ساتھ کھیلنے کی لیے صف بندی کر رہے ہیں کہ کسی طرح عمران خان کے استعفوں کی چال کو ناکام بنایا جاے۔ عمران خان کے راولپنڈی جلسے میں صوبائی اسمبلیوں سے استعفوں کے اعلان کے فوری بعد رانا ثنااللہ ایک ٹی وی شو میں کہہ بھی چکے ہیں کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھیں گے اور پی ٹی آئی کے تمام اراکین مستعفی نہ ہوں گے۔ یعنی حکومت لالچ، دھونس، دھاندلی اور ہر ہتھکنڈہ آزمائیں گے۔ 
سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کے ٹویٹ کے مطابق پاکستان میں کل 859 نشستوں پر براہ راست انتخابات ہوتے ہیں۔ تحریک انصاف کے استعفوں کے نتیجے میں قومی اسمبلی کی 123 نشستوں، پنجاب اسمبلی کی 297نشستوں، خیبر پختونخواہ کی 115 نشستوں، سندھ اسمبلی کی 26 اور بلوچستان کی 7 نشستوں یعنی کل 567 نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوں گے۔ لیکن دوسری طرف حکومت بھی اپنے کارڈ کھیلے گی اور ممکن طور پر عمران خان کے پلان کو ناکام بنانے کی کوشش کرے گی جس کیلیے بیٹھکوں کا آغاز ہو گیا۔ 
خیال تھا کہ فوج میں کمانڈ کی تبدیلی کے بعد سیاست میں کچھ مثبت پیش رفت ہو گی لیکن اس کے آثار نظر نہیں آتے۔ محسن داوڑ کا نام کابینہ نے ای سی ایل سے ہٹایا گیا لیکن اسلام آباد ائیرپورٹ پر ایف آئی اے نے انہیں روک لیا۔ اعظم سواتی کو ایک بار پھر گرفتار کر کے ریمانڈ پر ایف آئی کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ رانا ثنااللہ ایک بار پھر زہر اگل رہے ہیں۔ یقیناسیاست ڈائیلاگ کا نام ہے اور اپوزیشن کے علاوہ حکومتی اتحاد کا بھی فرض ہے کہ وہ معاملات کو مذاکرات کی طرف لے جائیں۔ اب جب کہ عام انتخابات میں محض 8 ماہ رہ گئے ہیں دونوں فریقین کو درمیانی رستہ نکالنا چاہیے ورنہ دیوار سے ٹکر تو کبھی بھی ماری جا سکتی ہے۔ اللہ پاکستان کی حفاظت کرے۔ آمین
اس کالم بارے اپنی رائے اس وٹس ایپ نمبر 0300 4741474 پر دیجیے۔