پاکستان کو افغانستان میں بڑھتے ہوئے بھارتی اثر و رسوخ پر تشویش

پاکستان کو افغانستان میں بڑھتے ہوئے بھارتی اثر و رسوخ پر تشویش

واشنگٹن: امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی نے پاکستانی تشویش کا اعتراف کرتے ہوئے کانگریس کو آگاہ کیا ہے کہ پاکستان افغانستان میں بھارتی اثرورسوخ میں اضافہ نہیں چاہتا اور اپنی مغربی سرحد پر نئی دہلی کے بڑھتے ہوئے جھکاو سے نمٹنے کے لیے چین کی مدد طلب کرسکتا ہے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق افغانستان میں پاکستانی دلچسپی کے حوالے سے ہونے والا یہ مباحثہ افغان جنگ پر ہونے والی کانگریس کی سماعت کا حصہ تھا۔
گذشتہ ہفتے کے دوران بھی امریکی کانگریس کے رکن ایڈم کنزنگر نے مشورہ دیا تھا کہ پاکستان میں مبینہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں کا آغاز کیا جائے جس پر واشنگٹن کے مبصرین نے کہا کہ اگر دہشت گرد افغانستان میں امریکی فوجی اہلکاروں اور تنصیبات کو نشانہ بناتے ہیں تو ٹرمپ انتظامیہ اس مشورے پر عمل کرسکتی ہے۔
امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی میں ہونے والی ایک حالیہ سماعت کے دوران بھی امریکی خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان نے جنگ سے متاثرہ افغان سرزمین کی صورتحال پر اپنا تجزیہ پیش کیا تھا جس کے چند روز قبل جاری ہونے والے متن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس بحث کا بیشتر حصہ پاکستان کے حوالے سے تھا۔
سی آئی اے اور ایف بی آئی سمیت درجنوں خفیہ ایجنسیز کی ٹیموں کی سربراہی کرنے والے نیشنل انٹیلی جنس ڈائریکٹر ڈین کوٹس کے مطابق پاکستان بین الاقوامی تنہائی کے حوالے سے تشویش کا شکار ہے اور بھارت کی بین الاقوامی اہمیت کے اضافے کے تناظر میں اپنی پوزیشن کو دیکھتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو بھارت کے بڑھتے ہوئے غیرملکی اثرورسوخ اور امریکا سے مضبوط ہوتے تعلقات پر بھی تشویش ہے اور اپنی تنہائی سے چھٹکارے کےلئے چین سے رجوع کرسکتا ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل کا کہنا تھا کہ پاکستان تمام چیلنجز کو بھارت کی جانب سے لاحق خدشات کی نظر سے دیکھتا ہے لہذا وہ دہشت گرد تنظیموں کو اپنے پاس محفوظ رکھے ہوئے ہے تاکہ اگر افغانستان کا جھکاو بھارت کی جانب بڑھتا ہے تو وہ پاکستانی مفاد کےلئے ناموافق، مستحکم اور محفوظ افغانستان کی حامی نہیں رہیں گے۔ڈائریکٹر ڈین کوٹس نے سینیٹ کمیٹی کو بتایا کہ دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے کی جانے والی فوجی کوششوں کے باجود بھی طالبان عسکریت پسند دیہی علاقوں میں پھلنے پھولنے میں مصروف ہیں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ طالبان کی طے شدہ کارروائیوں سے افغان سیکیورٹی فورسز کی کارکردگی متاثر ہوسکتی ہے۔اس موقع پر سینیٹر جونی کے ارنسٹ نے انٹیلی جنس سربراہ سے سوال کیا کہ وہ ایسے اقدامات سے آگاہ کریں جو افغانستان کے ہمسایہ ممالک خطے کے استحکام کو یقینی بنانے کےلئے اٹھا سکیں۔
انہوںنے کہاکہ ہمیں پاکستان کو اس بات پر قائل کرنا ہوگا کہ اگر وہ حقانی نیٹ ورک کے کسی بھی رکن کو پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کررہے ہیں تو ایسا کرنا ان کے مفاد میں نہیں۔جنرل اسٹیورٹ کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کو افغانستان کے ہمسایوں کے ساتھ مل کر ان 20 دہشت گردوں تنظیموں کے خلاف کام کرنا ہوگا جو خطے میں فعال ہیں۔
انہوں نے حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائیوں کے لیے پاکستان پر مزید دباو ڈالنے اور امریکی پالیسی سازوں پر طالبان کو پختونوں سے علیحدہ رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ پاکستان اب بھی طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

نیو نیوز کی براہ راست نشریات، پروگرامز اور تازہ ترین اپ ڈیٹس کیلئے ہماری ایپ ڈاؤن لوڈ کریں