ایک مختلف آرمی چیف۔۔

ایک مختلف آرمی چیف۔۔

نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے بارے میں ہر طرف سے اچھی خبریں آ رہی ہیں،آج میں پڑھ رہا تھا مقبوضہ کشمیر میں اْن کی تصاویر کے پوسٹرز لگ گئے ہیں،حْریت کانفرنس نے اْن کی تقرری کا خیر مقدم کیا ہے،دْنیا کے مختلف ممالک کی جانب سے بھی اْن کی تقرری کو خصوصاًاْن کی سنیارٹی اور میرٹ کے حوالے سے سراہا جا رہا ہے، اْنہیں مبارکبادیں مل رہی ہیں،ابھی تک کی اطلاعات اور معلومات کے مطابق اْن کی شخصیت اور کردار پر کوئی ایسا داغ دکھائی نہیں دیا جس پر ہمیں یہ کہنے پر مجبور کر دیا جائے“داغ تو اچھے ہوتے ہیں ”کسی کمپنی کی مشہوری کے لئے داغ ممکن ہے اچھے ہوتے ہوں مگر پاکستان کی عزت آبرو کو جس قاتلانہ انداز میں داغ دار کیا گیا یہ سوچنا بدترین گناہ ہے“داغ تو اچھے ہوتے ہیں ”، عام لباس پر لگے داغوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا، یہ داغ اگر وردی پر لگ جائیں اْن کا ازالہ نہیں ہو سکتا، اللہ کرے نئے آرمی چیف کی تقرری ماضی میں لگے سارے داغ دھونے میں ایسا مضبوط اور مؤثر کردار ادا کریں داغ لگنے کا سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے، اس کے لئے نئے آرمی چیف کو نئی حکمت عملی اپنانا پڑے گی، جنرل باجوہ جاتے جاتے کہہ گئے“ہم نے اس سال فروری میں فیصلہ کیا آئندہ سیاست میں مداخلت نہیں کریں گے”، اْس کے بعد بھی سیاست میں مداخلت اگر ہوتی رہی اْس کا جوابدہ کہیں نہ کہیں اْنہیں ضرور ہونا پڑے گا، مداخلت صرف سیاست سے ہی ختم نہیں ہونی چاہئے، دیگر سول محکموں میں تقرریوں تبادلوں میں جو مداخلت یں ہوتی ہیں اْن کا خاتمہ بھی ضروری ہے، جس طرح سول محکموں کو یہ اختیار نہیں وہ دوسرے کے چھابے میں چھاپہ مار سکیں اْسی طرح دوسرے کو بھی یہ اختیار نہیں ہونا چاہئے وہ سول محکموں میں مداخلت کرے، اس کا ایک نقصان یہ ہو رہا ہے سول محکموں میں اندھا دْھند بدانتظامیوں کا ذمہ دار بھی اْنہیں ہی ٹھہرایا جاتا ہے، معجزہ واقعی اگر ہوگیا مجھے یقین ہے مْلک خود بخود بہتریوں کی طرف گامزن ہو جائے گا، اور اگر یہ معاملہ صرف زبانی کلامی رہا تباہی کا ایک آدھ دروازہ جو بند ہے وہ بھی کْھل جائے گا، کہنے کو تو بہت مْدت سے کہا جارہا ہے“ہم سیاست میں مداخلت نہیں کرتے”، یہ ہمارے سامنے ہمیشہ ایک سچ بنا کے رکھا گیا اور ہمیں دبایا گیا ہم آنکھیں بند کر کے اس پر یقین کر لیں اب عملی طور پر اْسے سچ ثابت ہونا چاہئے، اسی میں سب کی بقاء ہے، اس سے سیاستدانوں کو بھی خود احتسابی کا موقع ملے گا اور اْن کا گند کسی اور کے کھاتے میں نہیں پڑے گا، البتہ اس عمل میں اتنی“ترمیم”ضروری ہے جیسا کہ افواج پاکستان کا اصل کام پاکستان کا دفاع کرنا اور پاکستان کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے تو کوئی سیاسی حکمران پاکستان کے مفاد کے برعکس کوئی کام کرے جیسا کہ لْوٹ مار کرنا بھی پاکستان کے مفاد کے برعکس ہے تو بجائے اس کے اس عمل کو برداشت کیا جاتا رہے تاکہ بوقت ضرورت اپنے مفادات کے مطابق اْسے کیش کروایا جاسکے، فوری طور پر اْس کے راستے میں دیوار کھڑی کی جائے، یہ صرف اْسی صورت میں ممکن ہے پہلے احتساب اور دیانت کا عمل خود سے شروع کیا جائے، یعنی پہلے اپنی منجھی تھلے ڈانگ پھیری جائے، یہ کام جنرل عاصم منیر کر سکتے ہیں، بطور آرمی چیف اْن کی تقرری کا جب اعلان ہوا اْس کا خیر مقدم کرتے ہوئے میں نے اْن کی خدمت میں عرض کیا تھا“آپ ایک انتہائی نیک نام جنرل ہیں آپ پاکستان کی تاریخ کے عظیم ترین آرمی چیف ہو سکتے ہیں اگر عہدہ سنبھالتے ہی اپنے اثاثے عوام کے سامنے رکھ دیں اور جب رخصت ہوں آپ کے اثاثوں میں رتی بھر اضافہ نہ ہوا ہو، ممکن ہے اْس کے بعد اس نئی اور خوبصورت روایت پر سیاسی حکمران بھی عمل کرنا شروع کر دیں اور آہستہ آہستہ یہ عمل اعلی سرکاری افسروں تک بھی وسیع ہوجائے”۔۔ یہ عمل پاکستان کی ترقی خوشحالی اور بقاء کے لئے اب ناگزیر ہے، پاکستان کو ماضی اور حال میں جس نے جتنا چْونا لگانا تھا لگا لیا، اس کی بنیادوں کو جس نے جتنا کھوکھلا کرنا تھا کر لیا، اس کا لہو جس نے جتنا چْوسنا تھا چْوس لیا، یہ سلسلہ اب ختم ہونا چاہئے، میں نئے آرمی چیف کو دو شعر سْنانا چاہتا ہوں
پھر نئے عزم سے پرچم اْلفت سنبھالئے
ماضی میں بات جو بھی ہوئی خاک ڈالئے
ہم بعد میں کہیں گے مسافتوں کی داستان
پہلے ہمارے پاؤں سے کانٹے نکالئے
جو گْلاب ہم سے رْوٹھ گئے ہیں، جو خوشبوئیں ہم سے جْدا ہو گئی ہیں اْنہیں واپس لایا جائے، جو کانٹے ہمارے دامن سے بْری طرح اْلجھے ہیں ہمارا دامن اْن سے چْھڑوایا جائے،۔۔ گو کہ نئے آرمی چیف سے بھی اس پس منظر میں کچھ زیادہ توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہئیں کہ پاکستان میں اعلیٰ عہدیداروں کی تقرریوں پر ہم نے جب بھی پھولوں کی آرزو کی ہماری آنکھ میں مْوتیا ہی اْترا، مگر جنرل عاصم منیر کی جو شہرت ہے جو اْن کا فیملی بیک گراؤنڈ ہے جس فطرت و مزاج کے بظاہر وہ دکھائی دیتے ہیں میرے خیال میں اْن سے کچھ توقعات وابستہ کر لینے میں کوئی حرج بھی نہیں، سب سے زیادہ اہم کام افواج پاکستان کی عزت آبرو میں اضافے کا ہے اْس کی ساکھ کی بحالی کا ہے، یہ کام صرف وہی جرنیل یا آرمی چیف کرسکتا ہے جس کی اپنی ساکھ راکھ میں ملی ہوئی نہ ہو،“فرقہ عمرانی“ کے کچھ ”پیروکاروں“ نے جنرل عاصم منیر کے بارے میں ہلکا سا گند اْچھالنے کی ناکام کوشش کی کہ وہ جب کور کمانڈر گوجرانوالہ تھے اْنہوں نے ایک صنعت کار سے نوے کروڑ بھتہ مانگا تھا، اْس صنعت کار نے اْس کی پْرزور تردید کر دی تھی، کچھ لوگوں کا خیال تھا اْس صنعت کار نے یہ تردید ممکن ہے کسی دباؤ میں آ کے کی ہوگی، کچھ عرصے بعد اْس صنعت کار سے ایک شادی میں میری ملاقات ہوئی میں نے اْن سے پوچھا وہ کہنے لگے“یہ جْھوٹا الزام جنرل عاصم منیر ہی کے نہیں خود ہمارے خلاف بھی ایک سازش تھی”۔۔ سازشی عناصر اب بھی سرگرم ہیں، اْن کی دْم پر پاؤں نہ رکھا گیا، اْن کا سر سختی سے کْچلا نہ گیا وہ نئے کھیل کھیلیں گے، ویسے کچھ“کھلاڑی”خود میدان چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں، کچھ قبل ازوقت ریٹائرمنٹ لے رہے ہیں، جہاں تک جنرل عاصم منیر کا تعلق ہے وہ اس حوالے سے بھی خود کو منفرد اور مختلف ثابت کر سکتے ہیں وہ اپنی ریٹائرمنٹ کی مقررہ مْدت کو ایکسٹینشن کی غلاظت سے دْور رکھیں گے۔