اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

ہجری کیلنڈر کا آغاز رسولِ خدا حضرت محمد مصطفیﷺ کی ہجرت کے سال سے ہوتا ہے اور اسلامی سال کا پہلا قمری مہینہ بھی محرم کو قرار دیا گیا۔ ہجرتِ مکہ وہ عظیم الشان واقعہ ہے، جس سے دینِ اسلام کو سر بلندی اور اقبال نصیب ہوا۔ مکہ میں مسلمان مظلوم اور مغلوب تھے، اسلامی اصولوں پر آزادانہ طور پرعمل نہیں کر سکتے تھے۔ مگر مکہ مکرمہ کی طرف کی جانے والی ہجرت کے بعد صورتحال بدل گئی۔ اس مہینے کے محترم اور قابلِ شرف ہونے کی بنا پر اسے محرم الحرام کہا جاتا ہے۔ محرم الحرام کی بزرگی اور برتری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سرکارِ دو عالم حضرت محمد مصطفیﷺ نے ارشاد فرمایا: نماز کے بعد سب سے افضل تہجد کی نماز ہے اور رمضان کے بعد سب مہینوں سے افضل محرم الحرام کے روزے ہیں۔ یقیناً محرم الحرام کا مہینہ عظمت والا اور بابرکت ہے۔ یہ ان حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جن کے بارے میںاللہ رب العزت کا فرمان ہے۔
یقینا اللہ کے ہاں مہینوں کی تعداد بارہ ہے اور اسی دن سے ہے جب آسمان و زمین کو اس نے پیدا فرمایا تھا، ان میں سے چار حرمت و ادب والے مہینے ہیں، یہی درست اور صحیح دین ہے، تم ان میں اپنی جانوں پر ظلم و ستم نا کرو، اور تم مشرکوں سے جہاد کرو جیسے کہ وہ تم سب سے لڑتے ہیں، اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ متقیوں کے ساتھ ہے (سورۃ توبہ)۔ بلاشبہ ربِ دو جہاں نے اپنی مخلوق میں سے کچھ کو اختیار کر کے چن لیا ہے۔ فرشتوں میں بھی پیغمبر چنے اور انسانوں میں سے بھی رسول بنائے، اور کلام سے اپنا ذکر چنا اور زمین سے مساجد کو اختیار کیا، اور مہینوں میں سے رمضان المبارک اور حرمت والے مہینے چنے اور ایام میں سے جمعہ کا دن اختیار کیا، اور راتوں میں سے لیلتہ القدر کو چنا، لہٰذا جسے اللہ رب العزت 
نے تعظیم دی تم بھی اس کی تعظیم کرو۔ محرم الحرام کی اہمیت کا اندازہ دینِ حق کی تاریخ کے ان بے شمار واقعات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اس ماہ میں رب ِ دو جہاں نے کائنات کو تخلیق کیا۔ ربِ باری تعالیٰ کے اولین پیغمبر، ابو البشر (انسانوں کا باپ) اور صفی اللہ کا لقب پانے والے حضرت آدم علیہ السلام کو بھی اسی ماہ میں پیدا کیا گیا۔ اسی ماہ میں آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی، اسی ماہ میں حضرت آدم علیہ السلام کو خلافت کا تاج پہنایا گیا۔ حضرت ادریس علیہ السلام کو درجات ِ عالیہ عطا ہوئے، اس ماہ میں ہی حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی وادی جودی پہ ٹھہرا دی گئی، حضرت ابراہیم علیہ السلام کو منصب و مقام ِخلیل سے سرفراز فرمایا گیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو جیل سے رہائی ملی۔ اسی ماہ میں حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی واپس لوٹائی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے رہائی عطا فرمائی۔ اسی ماہ میں فرعون غرقِ نیل ہوا اور موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے کامیابی عطا فرمائی۔ اسی مہینے میں اللہ رب العزت نے عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا۔ رسولِ خدا حضرت محمد مصطفیﷺ کی ولادت سے چند سال قبل ابرہہ بیت اللہ پر حملے کی نیت سے نکلا تو خالقِ کائنات نے ابابیلوں کا لشکر بھیج کر اسی ماہ میں اسے تباہ و برباد کر دیا، اسی ماہ میں ہی قیامت آئے گی۔ اسی مہینے میں رسول خداﷺ کے نواسے، خاتونِ جنت سیدہ فاطمہ زہراؓ کے لختِ جگر حسین ابنِ علیؓ اور ان کے کنبے کو شہید کیا گیا۔
’’شاہ است حسینؓ، بادشاہ است حسینؓ
دین است حسینؓ، دین پناہ است حسینؓ
سر داد، نہ داد دست درِ دست یزید
حقا کہ بنائے لا الہ است حسینؓ‘‘
آپؓ کی فضیلت کے لیے یہ ہی کافی ہے کہ رسولِ خداﷺ نے آپؓ کو دنیا میں نہ صرف جنتی ہونے کی بشارت دی بلکہ نوجوان جنتیوں کا سردار بھی قرار دیا۔ اور ان کی محبت کو ایمان کا حصہ بتاتے ہوئے فرمایا کہ: اے خدا میں حسین سے محبت رکھتا ہوں تو بھی ان سے محبت فرما اور جو کوئی حسنؓ و حسین ؓسے محبت رکھے ان سے بھی محبت فرما۔
بے شک تمام مسلمان آلِ رسولﷺ سے بے حساب محبت اور عقیدت رکھتے ہیں اسی لیے ہر نماز میں درود شریف میں نبی کریمﷺ کے ساتھ ساتھ ان کی آل و اولاد پر بھی درود بھیجتے ہیں۔ یہ ایک ناقابلِ فراموش حقیقت ہے کہ حضرت حسین ؓ نے اپنے عمل سے یہ ثابت کر کے دکھایا کہ کس طرح باطل کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہوا جاتا ہے، راہِ حق میں جان کا نذرانہ پیش کرنے سے انسان مٹتا نہیں بلکہ حیاتِ جاویداں پاتا ہے۔ ایک اٹل حقیقت ہے کہ تاریخِ انسانی کی دو قربانیاں پوری تاریخ میں منفرد مقام اور نہایت عظمت و اہمیت کی حامل ہیں ایک نبی کریمﷺ کے جدِ اعلیٰ حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہ السلام کی قربانی اور دوسری نواسۂ رسول، جگر گوشہ علی و بتول شہید ِ کربلا حضرت امام حسینؓ کی قربانی۔ دونوں قربانیوں کا پسِ منظر غیبی اشارہ اور ایک خواب تھا۔ دونوں نے خالق کے آگے سر تسلیمِ خم کیا اور یوں خواب کی تعبیر میں عظیم قربانی وجود میں آئی۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام سے جس سنت کی ابتدا ہوئی تھی، حضرت حسین ؓ پر اس کی انتہا ہوئی۔ نواسۂ رسول حضرت امام حسین ؓ کی یہی وہ عظیم قربانی اور کعبۃ اللہ کی عظمت و حرمت کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دینے کا عظیم جذبہ اور داستانِ حرم ہے جس کے بارے میں شاعر فرماتے ہیں۔
ہر ابتدا سے پہلے ہر انتہا کے بعد
ذاتِ نبی ؐ بلند ہے ذاتِ خدا کے بعد
دنیا میں احترام کے قابل ہیں جتنے لوگ
میں سب کو مانتا ہوں مگر مصطفی ؐ کے بعد
قتلِ حسین اصل میں مرگ ِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

مصنف کے بارے میں