ان پاکستانیوں کو دولے شاہ کے چوہے کیوں کہاجاتاہے اور کس وجہ سے ان کے سر ایسے ہوجاتے ہیں؟ جانئے وہ بات جسے جان کرہرپاکستانی افسردہ ہوجائے

: مزارات پر مذہب کے نام پر بہت کچھ ہورہاہے جن میں سے کچھ کام ایسے ہیں جنہیں آپ درست سمجھتے ہیں جبکہ کچھ ایسے ہیں کہ انہیں آپ باآسانی مستردکرسکتے ہیں

ان پاکستانیوں کو دولے شاہ کے چوہے کیوں کہاجاتاہے اور کس وجہ سے ان کے سر ایسے ہوجاتے ہیں؟ جانئے وہ بات جسے جان کرہرپاکستانی افسردہ ہوجائے

گجرات: مزارات پر مذہب کے نام پر بہت کچھ ہورہاہے جن میں سے کچھ کام ایسے ہیں جنہیں آپ درست سمجھتے ہیں جبکہ کچھ ایسے ہیں کہ انہیں آپ باآسانی مستردکرسکتے ہیں جبکہ پاکستان میں مذہب کے نام پر مختلف رسومات بھی پائی جاتی ہیں جن میں سے ایک گجرات کے شاہ دولے کا مقبرہ اور شاہ دولے کے چوہے بھی ہیں ۔ بچے اللہ تعالی کی سب سے زیادہ کمزور مخلوق ہیں اور انہیں ڈھالنا نہایت آسان ہوتاہے ، شاہ دولے کے مزار پر بھی کچھ ایسا ہی ہوتاہے جہاں صحت مند بچوں کو ایسے رنگ میں ڈھالا جاتاہے جنہیں بعد میں شاہ دولا کے چوہے کہاجاتاہے۔

نیوزویب سائٹ’پڑھ لو‘ کے مطابق مختلف پیروں فقیروں کے دربار پر جانا اور اپنی منتیں ماننے کارواج پاکستان میں عام ہے لیکن شاہ دولے اور اس کے چیلوں کے لیے ہمدردی کو فروغ دینے کے لیے ’چوہے ‘ بنائے جاتے ہیں ، جب بچے پیداہوتے ہیں تو یہاں ان کے سروں پر ایک لوہے کا کڑا پہنادیاجاتاہے جس کی وجہ سے ان کا دماغ، سر اور چہرہ بڑھوتری کے عمل سے نہیں گزرسکتاجبکہ دیگر جسم معمول کے مطابق بڑھتارہتاہے ۔

اس مزارکی روایت کے مطابق تمام ترکاوشوں یعنی علاج معالجے سمیت ہرطرف سے ناکامی کے بعد مایوس ہوکربے اولاد جوڑے یہاں آتے ہیں اور اولاد کیلئے دعا کرتے ہیں،اگر ان کے ہاں بچوں کی پیدائش ہوتی ہے تو پہلا بچہ مزار کی انتظامیہ کو ’عطیہ‘ کردیاجاتاہے ، ایسے بچوں کو بعد میں شاہ دولہ کے چوہوں میں تبدیل کردیاجاتاہے جو بعد میں شاہ دولہ کے مزارکے اطراف اور ملک بھر کے دیگر شہروں میں بھیک مانگنے نکل پڑتے ہیں۔ بھکاری مافیا کے زیراہتمام یہ بچے جو کچھ اکٹھاکرتے ہیں ، وہ مزار کی انتظامیہ کوجاتاہے ، سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ انسانی حقوق کی سریحاً خلاف ورزی مزار پر کئی عشروں سے جاری ہے لیکن حکومت یا متعلقہ اداروں نے تاحال چپ کا روزہ رکھا ہواہے ۔ بتایاگیاہے کہ لمبے سفید لباس، چھوٹے سر اور معمول کے جسم کے یہ افراد عوام میں ہمدردی کا عنصر جگانے گھومتے ہیں اور پھر رقم بٹورتے ہیں۔

آئین کے آرٹیکل 328کے مطابق والدین یا سرپرست کی طرف سے12سال سے کم عمر بچے کو ترک کرنا جرم ہے لیکن ایسے واقعات میں والدین اپنے نومولود بچوں کو مزار کی انتظامیہ کے سپرد کردیتے ہیں جہاں انہیں تکلیف دہ مراحل سے گزرنا پڑتاہے ،جبکہ سیکشن 332کے تحت کسی بھی شخص کے کسی عضو کو توڑنے ،مروڑنے ، غیرفعال کرنے ، اپنی جگہ سے ہٹانے سمیت اس قسم کے دیگر کام بھی جرم ہیں لیکن مزار پر یہ سلسلہ جاری و ساری ہے اور پولیس بھی خواب غفلت کی نیند میں ہے ۔