عوامی پاکستان

عوامی پاکستان

کچے گھروندے میں مقیم، جھونپڑی کے باسی کو کیا علم اس وقت اسکی ریاست کی سیاسی دنیا کس حال میں ہے،کون اپنی وفا داری فروخت کر رہا ہے،خریدار اسکی بھاری قیمت کیوں لگا رہا ہے، کروڑوں میں بکنے والی یہ کون سی مخلوق ہے، اسٹیبلشمنٹ کا سیاست میں کیا کردار ہوتا ہے، آئین میں اس پر کون کون سی قدغن عائد ہیں، آئین کس بلا کا نام ہے، اسکی پامالی کی کیا سزا ہے، ہر سول حکومت اپنی پارلیمانی مدت کیوں پوری نہیں کر پاتی، کون کون سی قوتیں جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی سازش میں مصروف ہوتی ہیں اس کاوش میں کس کا کتنا کردار ہوتا ہے،ان لوگوں کوتو یہ بھی معلوم نہیں دہشت گردی کی جنگ میں ہماری ریاست کو کیوں ملوث کیا گیا، عام لوگ کس طرح ڈرون حملوں کا ایندھن بنے،تحریک اعتماد اور عدم اعتماد کس چیز کو کہتے ہیں۔عالمی سازش کس بیماری کا نام ہے۔
ڈھیل اور ڈیل کی اصطلاح کس کے مفادات کے لئے ایجاد کی گئی ہے، بیک چینل ڈپلومیسی کاوجود کیوں لازم سمجھا جاتا ہے، ٹی وی چینل پر چلنے والی بریکنگ نیوز کے کیا فوائد ہیں یہ سب اس سے لا علم ہیں، ڈالر کی اونچی اڑان ،معاشی اعدادو شمار،سٹاک ایکسچینج کا اتار چڑھائو سے کس کا مفاد وابستہ ہے،انکو اس سے کوئی غرض نہیں،رئیل اسٹیٹ میں مندی کب اور کیسے ہوتی ہے وہ یہ بھی نہیں جانتے،میوزیکل نائٹ، عورت مارچ، لبرل سوسائٹی ان کے موضوعات ہے ہی نہیں،عالمی طاقتیں دوسرے ممالک میں کیوں مداخلت کرتی ہیں، حکمرانوں کو نیچا دکھانے کا کیا مطلب ہے، بین الاقوامی سازش کس لئے ناگزیر سمجھی جاتی ہے، خفیہ خط کے پیچھے کون سے محرکات ہوتے ہیں ،انکی اس میں بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔اس ریاست کے چار صوبے رہیں یا ان میں اضافہ ہو اس سے انھیں کیا لینا دینا۔
 ان میں مقیم خاندانوں کو جان کے لالے اس وقت پڑتے ہیں جب آسمان پر کالی گھٹائیں چھا جاتی ہیں،رات کی تاریکی یا دن کی روشنی میں بادل جم کر برستے ہیں، جل تھل ایک ہو جاتا ہے،تیز ہوا سے انکی جھونپڑی ہچکولے لیتی ہے دل کو دہلا دینے والی آسمانی بجلی کڑک دار آواز سے گرجتی ہے تو بچے سہم کر ماں کے سینے سے لگ جاتے ہیں،انکو تسلی دیتے ہوئے بے بسی تصویر بنی اپنے رب سے دعا کرتی ہے تو اسکی نگاہ غیر ارادی طور پر ان محلات کی 
طرف اٹھ جاتی ہے جن کے مابین کچے گھر اور جھونپڑی ہوتی ہے،بچوں کو سلانے کے بعد اسکی سانسیں بحال ہوتی ہیں۔
 دن میں آنے والی بارش میں پریشانی قدرے کم ہوتی ہے،جس وقت قوس قزاح کا منظر آسمان پر نمایاں ہوتا ہے، اہل خانہ مکان سے پانی نکالنے میں مصروف ہو جاتے ہیں تو کچھ من چلے ان کے جذبات سے کھیلنے مکانوں کی چھت پر پتنگ بازی کے لئے چلے آتے ہیں، بالکونی میں کھڑے بچے مٹی اور گارے سے اٹے بچوں کو جب بائے بائے کرتے ہیں تو والدین کا کلیجہ منہ کو آتا ہے، میل کچیل سے بھرے مگر باشعور بچوں کے ذہن میں یہ توآتا ہی ہے کہ انکے والدین کا کیا قصور ہے جسکی ان کو سزا مل رہی ہے،یا وہ قبائلی روایات کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں،ان کا جرم کیا ہے کہ اب تلک ریاست نے انھیں شہری تسلیم نہیں کیا ہے، کوڑا کرکٹ سے اپنا رزق تلاش کرنے پر مجبور بچے خود کلامی کرتے ہیں،انھیں اور انکے والدین کو اس سے کیا واسطہ کہ مملکت خداداد کی عدلیہ آزاد کام کررہی ہے یا نہیں، ریاست کا نظام جمہوری یاآمرانہ، سیاسی استحکام کے لئے صدارتی سسٹم بہتر ہے یا پارلیمانی، اسٹیبشلمنٹ غیر جانبدار رہتی ہے یا کسی مداخلت کی مرتکب ہوتی ہے،ملک میں آسان اقساط پر قرضہ ملتا ہے یا نہیں ،سودی نظام معیشت کے لئے زہر قاتل ہے یاسود سے پاک معیشت سود مندہے ، انھیں اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ پرانے پاکستان میں رہیں یا نئے کے باسی بن جائیں، اس قماش کے لوگ تو نسل در نسل سے ایسے ہی گمنام زندگی بسر کر کے قبروں میں اترجاتے ہیںانہیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ انکے نام پر بیرونی فنڈز لینے والی این جی اوز نے ٹھنڈے بند کمرے میں بیٹھ کر ان کے حقوق کے لئے کبھی صدا بلند کی بھی ہے یا نہیں،انکا شمار عوام میں کیوں نہیں ہوتا۔
انھوں نے تو اپنے بزرگوں سے یہ سن رکھا تھا کہ بانی پاکستان مسلمانوں کے لئے ایک ایسی مملکت بنانے کے خواہاں تھے جہاں تمام لوگ یکساں شہری تصور کئے جائیں گے، معاشی ترقی، انصاف کی فراہمی میں مساوات ہوگی، ہر فرد کو آزادی ہوگی ،اسکی صلاحیتوں کے مطابق اسکو زندگی میں آگے بڑھنے کے مواقع میسر ہوں ، میڈیا کی وساطت اور لوگوں سے انھوں نے جان رکھا ہے عسکری قیادت ملکی دفاع کی ذمہ داری پوری کرے گی، عدلیہ انصاف کرے گی، افسر شاہی عوام کو تحفظ فراہم کرے گی،حکمران رعایا کا ہر طرح کاخیال رکھے گا، ان کچے گھروندوں اور جھونپڑیوں میں مقیم شہری خود سے سوال کرتے ہیں آخر وہ ریاست کہاں ہے؟جہاں ان کے بچوں کو پختہ گھروں میں رہنا نصیب ہو گا، بارش میں وہ بھی امیر بچوں کی طرح لطف اندوز ہو سکیں ، انکے والدین کو گھر کی کچی دیوار گرنے کا ڈر نہ ہو گا، کوئی ماں رات آنکھوں میں اس لئے نہ کاٹے گی کہ کہیں تیز آندھی میں اس کا بچہ خستہ دیوار کے نیچے نہ آ جائے۔
وہ لوگ جو ایسے گھروں میں نہیں رہتے ان کے دکھ بھی زیادہ مختلف نہیں ہیں، بس سفید پوشی نے انکا بھرم رکھا ہوا ہے، ریاست کا ہر سیاسی بحران انکی سوچ کا زاویہ بدل دیتا ہے، وہ اس غم میں غلطاں ہو جاتے ہیں کہ نجانے ان کے کرب میں اضافہ ہو گا یا کچھ راحت کے لمحے میسر آئیں گے،سیاسی عدم استحکام سے ان کے دل کی دھڑکن اور بھی تیز ہو جاتی ہے،وہ سقوط ڈھاکہ کے تناظر میں جھانکنے لگتے ہیں،اپنی اپنی قیمت وصول کرنے والے اراکین اور فائلیں کھول کر ڈرانے والوں کے غم تو ذرا وکھری ٹائپ کے ہیں، وہ تو بڑے بنگلے، گاڑیوں، بیرون ملک بچوں کے بہترین مستقبل کے خواب دیکھتے ہیں،کبھی کبھی تو یوں دکھائی دیتا ہے کہ ریاست بنائی ہی ایسے لوگوں کے لئے ہے،جن کی ہر خواہش پلک جھپکتے پوری ہو جاتی ہے، دوسروں کو اپنے خوابوں کی تکمیل کے لئے زندگی بھر کا سفر کرنا پڑتا ہے۔
عوام کے مقدر سے کھیلنے والے تو اپنے اپنے دلائل رکھتے ہیں،ان وہ بھی شامل ہیں جنہوں نے اس قوم کو گنوار رکھا ہے،وہ بھی اس کا حصہ ہیں جو سماج میں اپنی ہی الگ کلاس اور شناخت رکھتے ہیں، وہ بھی جو ہر شہری کو چھت فراہم نہ کر سکے،ان کی بھی کوئی کمی نہیں جو عوام کے پیسے سے اپنی تجوریاں بھرتے رہے،وہ بھی شامل ہیں جن کے جانور تعلیمی اداروں بندھے رہے، اس کے باوجود یہ سب خود عوام دوست اور محب وطن کہتے ہیں۔
نجانے کب قائد کے پاکستان کی فیوض و برکات اس عوام کے نصیب میں ہوں گی، کب انکے فرمودات کو اولیت دی جائے گی، کب قانون کی حکمرانی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو گا،جس کی کوکھ سے ’’ عوامی پاکستان‘‘ جنم لے گا، جس میں کوئی مقدس گائے نہیں ہوگی ہر شہری آئین، قانون کی نظر میں برابر ہوگا، عوامی نمائندگان ہر طرح کے لالچ سے مبراء ہوں گے، کوئی ماں کچے گھروندے یا جھونپڑی میں مقیم نہ ہوگی اور سکون کی نیند سوئے گی، اپنے اپنے مفادات کے لئے اکھٹا ہونے والا اشرافیہ عوام کے مفاد کے لئے کب ایک پیج پر آئے گا؟

مصنف کے بارے میں