مسئلہ کشمیر کا اصل مجرم کون؟

مسئلہ کشمیر کا اصل مجرم کون؟

جب تک مسئلہ کشمیر سے متاثرہ اکائیاں ان زمینی حقائق کا ادراک نہیں کر پائیں گی کہ مسئلہ کشمیرحکومت برطانیہ و شاہی خاندان کا پیدا کردہ ہے۔ اس وقت تک کشمیری مسلمانوں کی امنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیرکبھی حل نہیں ہو گا۔کشمیر کے معصوم بچے، عزت مآب مسلم مائیں، بہنیں، بیٹیاں  اور باریش بزرگ بھارتی فورسز کے ظلم وستم اور جبرواستبداد کے سائے میں گذشتہ 76 سال سے جس طرح زندگی گزار رہے ہیں یہ ان ہی کا حوصلہ ہے۔جہاں ایک جانب بھارتی فوج کی وحشیانہ درندگی تو دوسری جانب لارڈ مؤنٹ بیٹن اورر یڈکلف کی ملی بھگت کے نتیجے میں سو لاکھ نہتے اور بے گناہ کشمیری شہید ہو چکے ہیں۔  8 جولائی 1947 کو برطانوی بادشاہ جارج ششم کا  وکیل سیرل  Cyril Radcliffe  ریڈکلف باؤنڈری کمیشن کے سربراہ کی حیثیت سے آیا۔ حیران کن طور پر اپنے سابقہ کالج فیلو اور جارج ششم کے کزن  وائسرائے ہند لوئس المعروف  لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ مل کر سیاسی و تاریخی جغرافیائی تقسیم کی بدترین بددیانتی کے مرتکب ہوئے۔  اس انتہائی نازک موڑ پر مسلمانوں کے مؤقف کو سنے بغیر جارج ششم نے فوری طور پر دستخط کر کے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ریڈکلف کے سیکرٹری Christopher Beaunmont کے بیٹے Barney White-Spunner اپنی کتاب  Partition: The Story of Indian Independence and the Creation of Pakistan in 1947 میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی بددیانتی کا پردہ چاک کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ریڈ کلف نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے دباؤ پر پنجاب کی سرحدیں آخری لمحات میں تبدیل کر کے تحصیل،گرداسپور، بٹالہ اور پٹھان کوٹ بھارت کو دے دی۔ یہ ایک تلخ سچ ہے کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن 
اپنے پرائیویٹ سیکرٹری Lionel Ismay کے ذریعے سرحدوں میں ردوبدل کے لیے اپنے آقاؤں سے پہلے ہی منظوری لے چکا تھا۔ معروف مصنف Alastair Lamb نے  اپنی تصنیف  Incomplete partitionمیں بھارتی قیادت اور ماؤنٹ بیٹن کی چالاکی اور کذب بیانی کو پوری طرح بے نقاب کرتے ہوئے ناقابل تردید شواہد سے ثابت کیا ہے۔ کہ 26اکتوبر کو وی۔ پی مینن جموں گیا ہی نہیں تھا، اس لیے اس روز الحاق کی دستاویز پر دستخط کی پوری کہانی جھوٹ پر مبنی ہے۔ بددیانتی پر مبنی مندرجہ بالا تمام واقعات حکومت برطانیہ و شاہی خاندان کی سیاسی تاریخ کا ایک سیاہ حصہ بن چکی ہے۔ 
 جس کا خمیازہ 5 لاکھ نہتے مسلمانوں کی قربانیوں کی صورت میں ادا کرنا پڑا، جن کو محض گیارہ ہفتوں کے دوران موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ بے گناہ مسلمانوں کی نسل کشی کا یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ اب بھی انتہائی بہیمانہ طریقے سے جاری ہے۔ جس کے نتیجے میں لاکھوں کشمیری مسلمانوں کوموت کی بھینٹ چڑھانے کے ساتھ ساتھ ان کے اربوں کے Infrastructure کو بھی تباہ وبرباد کر دیا گیا۔  تمام تر وحشیانہ تشدد کے باوجود  مظلوم کشمیریوں کو آج تک ان کا بنیادی حق آزادی نہیں مل سکا۔ اس کے علاوہ مسئلہ کشمیر پر اب تک پاکستان اور بھارت کے درمیان چار خوفناک جنگیں ہو چکی ہیں، جبکہ پانچویں ایٹمی جنگ کے امکان کو یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔تاریخی و زمینی حقائق کے تناظر میں یہ تینوں ہی خطے کی تاریخ کے سب سے بڑے مجرم ہونے کی حیثیت سے نظر آتے ہیں۔ حکومت برطانیہ و شاہی خاندان یہ کہہ کر اب راہ فرار حاصل نہیں کر سکتے کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور ریڈ کلف کا یہ ذاتی فعل تھا۔ جہاں پر معمولی عوامی احتجاج پر حکومتیں لرز جاتی ہے۔کتنی حیرت کی بات ہے،وہاں پر  76 سال گزرنے اور شدید عوامی دباؤ  کے باوجود لارڈ ماؤنٹ کی ڈائری اور خفیہ دستاویزات کو ابھی تک پبلک نہیں کیا گیا۔ 
اسی طرح برطانوی شہزادے ہیری نے افغانستان میں قتل کرنے والے بے گناہ شہریوں کو شطرنج کے مہرے قرار دے کر اپنی نسل پرستانہ سوچ کی عکاسی کی ہے۔ جبکہ شہزادہ ہیری شاہی خاندان کا نمائندہ ہونے کے ساتھ ساتھ حکومت برطانیہ کا بھی نمائندہ تھا۔ بالکل اسی طرح جس طرح لارڈماؤنٹ بیٹن اور ریڈکلف 1947 میں حکومت برطانیہ و شاہی خاندان کے نمائندے تھے۔  مندرجہ بالا تمام المناک واقعات و تاریخی حقائق اسلام فوبیا کی طرف اشارہ کر رہے یا پھر صلیبی جنگوں میں ہونے والی عبرتناک شکستوں کے بدلے کی طرف۔ جس سے ثابت ہوا کہ تقسیم ہند کے وقت باؤنڈری لائن میں ردوبدل کے منصوبے کو پس پردہ حکومت برطانیہ وشاہی خاندان کی مکمل سپورٹ حاصل تھی۔ جس نے پاکستان وبھارت کو ا یٹمی جنگ کے دہانے پرلا کھڑا کیا ہے۔ 
 وقت آگیا ہے کہ کشمیر کی سیاسی، دینی اور دیگر قیادتوں کو ٹھوس لائحہ عمل تشکیل دے کر برطانوی و بین الاقوامی عدالت انصاف میں حکومت برطانیہ وشاہی خاندان کے خلاف پوری قوت کے ساتھ کیس دائر کر دینا چاہیے۔ پھر پورے عزم کے ساتھ اس کیس کی پیروی کرتے ہوئے اقوام متحدہ، یورپی یونین، سارک، او آئی سی، شنگھائی تعاون تنظیم اور ایکوواس جیسے بین الاقوامی فورمزپر غاصب بھارت اور برطانیہ کے سیاہ چہروں کو بھی بے نقاب کرتی رہیں۔کیونکہ بھارتی دہشت گردی اور برطانوی حکومت وشاہی خاندان کی بددیانتی  کے ڈسے ہوئے بعض حلقوں سے ایسی آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئی ہیں کہ کیوں نہ آزادی کے اس پرامن احتجاج کو برطانیہ کے گلی کوچوں، قصبوں اور شہروں میں لے جایا جائے۔