رقم کرتے رہیں گے

رقم کرتے رہیں گے

دنیا میں 780 ملین (78  کروڑ) انسان شدید ترین غربت کا شکار ہیں۔ اس کا لقمہ تر عورتیں، بچے اور نوجوان بنتے ہیں۔ ایک کروڑ چالیس لاکھ بچے شدید بھوک اور کم خوراکی کا شکار ہیں جن میں سے ہر سال 20 لاکھ بھوک کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ تاہم دنیا برق رفتار ترقی کی منزلیں طے کیے چلی جا رہی ہے بھلے یہ بھوکے پکارتے رہ جائیں: ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں! 
دھماکا خیز ترقی کی تازہ ترین خبر یہ ہے کہ صدی کا سب سے بڑا سائنسی منصوبہ، تاریخ کی طاقتور ترین خلائی دوربین مشن پر روانہ کرکے شروع ہوگیا۔ 3 دہائی اور 10 ارب ڈالر کے اخراجات سے، یورپ، امریکا، کینیڈا کا یہ مشترک منصوبہ خلا میں ان ستاروں کو ڈھونڈے گا جو ساڑھے 13 ارب سال پہلے کائنات میں سب سے پہلے روشن ہوئے… یعنی ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا… جو شعر میں اقبال نے پرویا تھا، آج بھی ستارے ہی ڈھونڈتا پھر رہا ہے! اور ہمارے والوں کو انہوں نے فلمی ستارے ڈھونڈنے، ورنہ خود ستارے بن کھڑے ہونے پر مامور کر رکھا ہے اور اسی کو ترقی کا نام دیتے ہیں۔ یہ تو یونہی جملۂ معترضہ آن ٹپکا۔ اصلاً تو یہ اڑان ابتدائے کائنات کا راز جاننے کے لیے بھری ہے۔ اس میں ساڑھے 6 میٹر قطر کا آئینہ نصب ہے۔ دیکھیے انہیں اس میں کیا کیا نظر آتا ہے۔ اس سے پہلے ہبل ٹیلی اسکوپ کو ناسا نے خلا میں بھیجا تھا۔ (ہبل قریش مکہ کا بڑا بت بھی تو تھا!) یہ دوربین ماضی میں جھانک کر ابتدائے کائنات کی اولین کہکشاں کو دیکھ سکے گی۔ تاہم اس خبر کے حوالے سے ہم آئینہ دکھائیں تو برا مان جائیںگے۔ 
یورپ، امریکا، کینیڈا کی سائنس افغانستان کے پہاڑوں سے سر پھوڑ چکی، ناکام مشن سے جو بچے تھے سنگ سمیٹ کر لوٹے۔ دھیان بٹانے، دل بہلانے کو خلا میں ابتدائے کائنات کے راز جاننے میں جو 10 ارب ڈالر پھونک ڈالے، افغانوں کا کم وبیش اتنا ہی پیسہ دبائے بیٹھے ہیں، انہیں لوٹا دیں۔ اس کے بدلے زمین پر بیٹھے بیٹھے طالبان آپ کو ابتدائے کائنات کا راز اور ستاروں کی خبر دے دیںگے کہ وہ ہیں محرم ِراز ِدرون مے خانہ! دن میں تارے تو وہ دکھا ہی چکے ہیں۔ دور کیا جانا اسے تو ان کے اپنے نوبل انعام یافتگان جارج والڈ (م۔1997ء) اور آئن اسٹائن (م۔1955ء) بیان کرچکے۔ سائنسی مخمصوں سے ماوراء وہ ساری تھیوریاں رد کرکے دونوں ہی کہتے ہیں کہ کائنات اور زندگی کا آغاز مافوق الفطرت طریقے سے خدا کے تخلیقی عمل سے ہوا۔ دونوں ہی کھلا اقرار کرتے ہیں کہ اس کے باوجود ہم کیونکہ خدا پر ایمان نہیں لانا چاہتے، اس لیے اسے قبول نہیں کریںگے (شواہد کی موجودی کے باوجود) انہی سے اللہ سوال کرتا ہے: ’کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ ان کے دل سمجھنے والے ہوتے اور ان کے کان سننے والے ہوتے؟ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔‘ (الحج۔ 46) ستم ظریفی یہ ہے کہ جارج والڈ کو نوبل انعام آنکھ کی بینائی کی اہم تحقیق پر ملا تھا۔
خوردبینوں سے کورونا دیکھ لیا اور اس بے وجود جرثومے کی کارفرمائی سے پوری دنیا زیر وزبر ہوتی دیکھ لی دو سالوں میں۔ ہوش کے ناخن نہ لیے۔ اتنی ہی غیرمتوقع، غیرمرئی طالبان کی قوت ثابت ہوئی جس نے سارے اندازے، تخمینے، حقائق کے پانسے پلٹ کر رکھ دیے مگر وہی میں نہ مانوں کی رٹ! دوربین والوں کی نزدیک کی نظر کمزور ہے! عبرت کی نگاہ سے محروم ہیں۔ ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی! نفس پرستی اور ہوس پرستی کے ہاتھوں گھپ اندھیروں میں اتر چکے۔ نور السموٰت والارض کا انکار کرکے وہ ایسے ہوگئے: ’اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک گہرے سمندر میں اندھیرا کہ اوپر ایک موج چھائی ہوئی ہے، اس پر ایک اور موج اور اس کے اوپر بادل، تاریکی پر تاریکی مسلط ہے۔ آدمی اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی نہ دیکھنے پائے۔ جسے اللہ نور نہ بخشے اس کے لیے پھر کوئی نور نہیں۔‘ (النور۔ 40) یہی وجہ ہے (یہ اپنے ہاتھوں آئن اسٹائن جارج والڈ کی طرح اپنی روشنیاں خود گل کرچکے) کہ ساری دنیا کے علوم وفنون کے تہلکے مچا کر بھی، ہر شعبے میں مہارتوں کے جھنڈے گاڑکر بھی سادہ لوح نہتے افغانوں کے ہاتھوں امریکی، یورپی سارے جھنڈے لپیٹ کر شکست خوردہ نکلنے پر مجبور ہوئے۔ معرفت حق سے بہرہ مند طالب نے امریکی سفارت خانے پر کلمہ طیبہ کا جھنڈا لہرا دیا۔ امریکی ہیلی کاپٹر عملے اور سفیر لیے اڑنے پر مجبور ٹھہرا۔ باقی رہے نام اللہ کا! 20 سالہ ٹیکنالوجی میں کام صرف ہیلی کاپٹر اور C-17 جہاز آیا جس سے یہ بھاگ لیے!
 یہ خلائی مشن علمِ غیرنافع ہے جو برسر زمین اربوں ڈالر سے زیادہ قیمتی جانوں کی بنیادی انسانی ضروریات سے منہ موڑکر فرنچ گیانا سے اڑان بھرے۔ فرنچ گیانا پر فرانس قابض ہے۔ وہ باقی کرۂ ارض پر مغربی طاقتوں کے مقبوضات میں سے ایک ہے۔ وہاں کے باشندے 2017ء سے فرانس کے خلاف شدید مظاہرے کرتے آرہے ہیں، معاشی ابتری اور جرائم کے ستائے ہوئے۔ ان کا منہ چڑاتے یہ خلا میں ستارے ڈھونڈنے چل دیے۔ یاد رہے کہ 1852-1939ء تک فرانس نے 70 ہزار سے زیادہ مجرم (اپنے ملک کو صاف رکھنے کی خاطر) فرنچ گیانا لے جاکر آباد کردیے! مغرب کی اسی خلائی ترقی پر حسرتوں سے مر مر جانے والے سیکولر حضرات وخواتین ہم جیسے (ان کے مطابق) ’ترقی دشمنوں‘ کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں۔ ان کی مثال دیکھ لیجیے:’ ایک شخص ایک بزرگ عالم ِدین کے پاس پہنچا اور انہیں صحیح بخاری پڑھاتے دیکھا تو بولا: اہل مغرب چاند تک پہنچ گئے اور آپ بیٹھے بخاری کا درس دے رہے ہیں۔ عالم ِدین نے جواب دیا: اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟ وہ مخلوق تک پہنچے اور ہم خالق تک پہنچنا چاہتے ہیں لیکن تم یہ نہیں جانتے کہ ہمارے اور اہل مغرب کے درمیان تم ہی اکیلے مفلس اور نکمے ہو، نہ تو ان کے ساتھ چاند پر پہنچ سکے اور نہ ہی ہمارے ساتھ بخاری پڑھ سکے۔‘ اب تو برسر زمین ہم بخاری پڑھنے والوں کو چاند پر جا چڑھنے والوں کا بھوسا نکالتے دیکھ چکے ہیں۔
 ہمارے وزیر اطلاعات اب بھی سینہ کوبی اور واویلا کر رہے ہیں۔ پکڑو، روکو! طالبان عورتوں کی آزادی سلب کرکے انہیں کپڑوں پر کپڑے اوڑھائے جا رہے ہیں۔ اس پر کہتے ہیں (طالبان کے تازہ ترین احکام سے) ’پاکستان خطرات میں گھر گیا ہے۔‘ وجوہات ملاحظہ ہوں: افغان عورت اکیلی سفر نہیں کرے گی مرد محرم درکار ہوگا! ڈرامے اور اوپرا نہیں ہوگا۔ یہ اردو کا اوپرا نہیں، انگریزی کا سوپ اوپرا (Soap Opera) یعنی صابن سے دھلا دھلایا رقص ہے جو پابندی کا شکار ہوگیا۔ نیز (خطرہ یہ بھی کہ) ٹی وی پر صحافی خواتین کو حجاب پہننے کو کہہ دیا گیا ہے۔ وزیر صاحب سے کوئی پوچھے کہ پاکستان کی عورت پر تو سبھی راہیں کشادہ ہیں آپ کو کیا غم ہے؟ ترقی کا عالم یہ ہے کہ ہفتہ بھر میڈیا پر (سیاسی گھرانے کی) شادی کے سارے منظر سبھی کے لیے سامنے تھے۔ علاوہ ازیں ہمارے تمام بڑے شہروں میں بھرپور موسیقی میلے، فیشن شوز، رقص وسرود بھرے اکٹھ جاری وساری رہتے ہیں۔ ملک کا منظرنامہ علم وتعلم، فکر ونظر کی آبیاری، سنجیدگی بردباری سے کلیتاً عاری ہے۔ قومی شناخت پر حیا سوز انتہاپسندی اور اخلاقی گراوٹ کے دہشت گردانہ حملے سے مشابہ ہے پورا ماحول۔ ہمہ وقت اقلیتوں کے حقوق کی آڑ میں غیرمسلم تہوار منانے کا سرکاری سطح پر اہتمام جاری رہتا ہے۔ اسرائیل میں کرسمس نہ منانے کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ چونکہ عیسائی آبادی صرف 2.5  فیصد ہے اس لیے اس کا اہتمام نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی چھٹی دی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں کرسمس سرکاری سطح پر جس حد تک منایا گیا ہے۔ (باوجودیکہ ان کی آبادی صرف 1.27  فیصد ہے) یہاں عید کا گمان ہو رہا تھا۔ ان کے جان ومال کا تحفظ ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔ مگر پورے ملک کا اپنی شناخت بھلاکر (عیاذاً باللہ) عیسائیوں کو خدا کے ہاں بیٹا پیدا ہونے کی مبارک باد، سڑکوں، بازاروں پر کرسمس ٹری اور سجاوٹیں، کراچی ایئرپورٹ پر کرسمس کے مذہبی گیت بجانا؟ اسے قومی تہوار کی شکل دے کر قومی ایئرلائن میں ’سینٹاکلاز‘ کا تحائف بانٹنا؟ مسافروں کو کھانے پینے تک کی سہولیات سے جان چھڑانے والی پی آئی اے نے یکایک حاتم طائی کی قبر پر لات مار دی؟ مغربی دنیا تو یوں بھی حضرت عیسیٰؑ کے تقدس کو بھلاکر، کرسمس اور نیا سال رقص وسرود، شراب لنڈھاتے تعلیماتِ مسیحؑ کے پرزے اڑاکر یہ شب وروز مناتے ہیں۔ ہم اپنی معاشی بدحالی، سیاسی ابتری، تعلیمی انتشار وزوال سے بے غم روشن خیالی کے نام پر پھیلائے فلسفوں کی آڑ میں ہاؤ ہو میں وقت اور صلاحیتیں تباہ کر رہے ہیں۔ ایسے حالات میں وزیراعظم صاحب نے جنگلی حیات کے تحفظ اور برفانی چیتوں کی افزائش نسل پر اپنی حکومت کو زبردست داد وتحسین فرمائی ہے! بلاشبہ ملک میں چیتے ہی چیتے ہیں خان صاحب کے۔ کراچی میں کیک پر کرسمس کی مبارک باد (ایمانی وجوہات مذکورہ کی بنا پر) لکھنے سے انکار کرنے والوں پر یہ چیتے سوشل میڈیا پر چڑھ دوڑے! شہری حیات کے تحفظ کی طرف دیکھیے کب لوٹتے ہیں۔ تاہم تا حکم ثانی آپ نے گھبرانا نہیں ہے!
ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے

مصنف کے بارے میں