افسوس !صد افسوس!

افسوس !صد افسوس!

تکبیرات اور لبیک سے معمور فضائیں دو عالمی مذاہب اور الدین اسلام کے باپ ابراہیم علیہ السلام کے خانوادے کی موحدانہ خود سپردگی کی داستانِ عظیم کو تازہ کرتی رہیں۔ مادی اور روحانی آلودگی کے ہمہ نوع مظاہر کے بیچ ذی الحج کی پاکیزگی، شفافیت، سکینت کی عطر بیز ہوائیں سرشاری کا انوکھا سماں باندھ دیتی ہیں۔ کورونا کی آزمائش سے نکل کر دنیا ایک مرتبہ پھر وہی منظر دیکھ رہی ہے۔ پورے گلوب کے کونے کونے سے کھنچ کر وارفتگی سے اللہ سے عشق ومحبت کی لازوال داستان دہرانے کو قلبِ دنیا کی طرف پروانے لپکے چلے آرہے ہیں۔ گزشتہ بیس سالوں میں کیا کچھ نہ ہوا! توہینِ رسالت، قرآن جلانے کے جاہلانہ جھلاہٹ کے کف آلود کفریہ مظاہرے۔ مسلم نوجوانوں کی گمراہی کے بے حد وحساب سامان۔ سبحان اللہ، مگر اب وہی لپک لپک کر بیت اللہ کی طرف ہجوم کرتے 25,30لاکھ کے قافلے! وہی سنتِ ابراہیمی کو زندہ کرنے میں ریوڑ در ریوڑ جانوروں کی خریداریاں۔ امت ابھی زندہ ہے! اللہ کی پہچان روئے زمین کے ہر انسان کے ہر قطرہ¿ خون، ڈین این اے (جینیاتی شناخت) اس کے ہر خلیے کے مایہ حیات (Cytoplasm) میں موجود ہے۔ وعدہ¿ الست جھٹلانا، بھلانا بہت مشکل ہے۔ ہر انسان کی شخصیت میں موجود جوہرِ حیات ہے، رب تعالیٰ کی پھونک ہے جو اس کے پیکرِ خاکی کو بے قرار رکھتی ہے تآنکہ وہ خالق کی پہچان پاکر سجدہ ریز ہو جائے۔ چارج ہوکر اس کے سگنل پورے ہو جائیں۔ پکار سمجھ آنے لگے۔ پہلے حی علی الصلوٰة کی پکار، رکوع وسجود کامیابی کی شاہراہ کی دعوت اور پھر سالانہ حج کا اذنِ عام: واذن فی الناس بالحج.... دور دور سے قافلے چل دیں روحانی زندگی کے مرکز ’البیت العتیق‘ کی جانب، ’یہ جان کر کہ تمہارا خدا (الٰہ.... خالق مالک حاکم معبودِ حقیقی!) ایک ہی خدا ہے، اسی کے مطیعِ فرمان بنو!‘ دنیا بھر میں تربیت کے مراکز، سیمینار، ورکشاپس، نیز شیطانی اغوا کے تحت ڈرامے فلمیں قصے کہانیاں افسانے بھرے ہیں! مگر یہ ایمانی روحانی سیاحت ہے، عبادت کے ساتھ تربیت تذکیر، کردار سازی کا بے مثل اہتمام ہے۔ عالم اسلام کا سیمینار بھی ہے۔ تربیتی ورکشاپ بھی۔ رنگ ونسل سے ماورا اخوت اور عالمی بھائی چارے اور حقیقی انسانیت کا شاندار مظاہرہ بھی! ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے، نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر! اقوام متحدہ بہ اندازِ دگر! جس میں مفاداتی گروہ بندی اور سیاسی کھینچاجاتی، ہیرا پھیری کی بجائے محبت اخوت کے زمزمے فضائیں معمور رکھتے ہیں۔ گندہ خون ساری گناہوں کی آلودگیوں سے پاک ہوکر واپس ایمان کی آکسیجن سے لیس دنیا کے کونے کونے تک تازگی لیے لوٹ جاتا ہے۔
خاندان کی تربیت کا سامان! مثالی ماں، بیوی، باپ بیٹے کا کردار۔ باپ کے لیے نمونہ ہے ابراہیم علیہ السلام کی سیرت۔ اماں حوا بہترین وفا شعار، اطاعت گزار بیوی، دنیا کو اسماعیل جیسا بیٹا عطا کرنے والی ماں اور لازوال آدابِ بندگی وفرزندگی سے مالامال اسماعیل! ڈارون، فرائڈ نہیں، یہی نمونہ عمل ہے ہمارا۔ مارچنی عورت، دیوث مرد اور نافرمان خودپرست بیٹا نہیں۔ بھیڑ چال والے ریوڑوں کی طرح ہر حماقت کے پیچھے چل دینے والے نہیں۔
ایک ناچا تو سب ناچنے لگےں، ایک کو بحر مردار سوجھی تو بحر مرداریوں کے جوہڑ ہر ملک کو متعفن کر گئے۔ ایک گﺅموترا میں ہولی کے رنگ بھگوکر چھڑکنے اٹھا تو سبھی فرزانگی اور شناخت کھو بیٹھے۔ ہمارے ہاں بھیڑیں ریوڑ در ریوڑ، رب کی رضا پانے کو قربان کی جاتی ہیں۔میمنے بن کر آنکھیں بند کیے ممیاتے ہوئے، چارہ کھاتے ہر جا ہری ہری گھاس پر مر مٹنے اور سر ہلاتے بے راہ رویوں پر نہ چل پڑنا۔ کامیاب وکامران اصحاب المیمنہ بننے کے عزائم اور عزیمتیں پروان چڑھانے کے اسباق ہیں حرص وہوس کے دجالی دور میں دنیا کی رہنمائی کے منصب پر پورا اترنے کی تربیت (پے درپے، رمضان، ذی الحج اور محرم) سے فیض یاب ہوتے ہیں: غریب وسادہ ورنگین ہے داستانِ حرم، نہایت اس کی حسینؓ ابتداءہے اسماعیل۔
ہمارا رہنما سوشل میڈیا پر چلتی بے راہ رو انگلیوں سے امڈتا رطب ویابس نہیں۔ تشخص سے محروم دنیا بھر کے تہذیبی گھاٹوں سے حظ اٹھانے والے۔ کہیں گدلا پانی، کہیں گﺅموتر آبِ حیات جان کر پینے والوں کا سا ذوق رکھنے والے نت نئی بحثیں چھیڑکر خالی الذہن نسل کے دماغ میں بین الاقوامیت کا بھوسا بھر رہے ہیں۔ اسی کا شاخسانہ ہے کہ ذی الحج کے متبرک بافضیلت، حرمت والے ماہ مبارک میں سفید پروانوں کا طواف فدائیت کا سماں باندھتا رہا۔ ادھر ثقافتی کچرا اکٹھا کرنے والا گروہ، ہولی مناکر بے وقت کی راگنی سے ملکی فضاو¿ں میں تعفن بھرتا رہا۔
حضرت ابراہیمؑ کی بے مثل داستان لاریب کتاب میں 25سورتوں میں 74مرتبہ ’وہ ابراہیم جس نے وفا کا حق ادا کر دیا‘ الشکور رب سنائے چلے جا رہا ہے۔ اس کے بیچ (مارچ میں ہونے والے) ہندو ہولی کے تہوار جون کے اواخر میں اچانک بہت بڑے پیمانے میں اعلیٰ تعلیمی مرکز میں مناکر ایک تنازع کھڑا کردیا گیا۔ بہت کچھ سوال طلب ہے۔ قائداعظم کے نام پر بنایا گیا یہ ادارہ تعلیمی میدان میں سرتوڑ محنت اور لگن کے ساتھ ملک وقوم کی ترقی کے مقاصد کا حامل ہے یا ناپاک، عیاش، نفس پرستانہ رقص وسرود، اختلاط اور شہوانیت پھیلانے کا مرکز ہے؟
والدین اور قوم کا قیمتی سرمایہ کھپانے گنوانے کو بنا ہے؟ مغربی اقوام کی نقالی کے شائقین یہ جان لیں کہ مغربی یونیورسٹیاں تعلیم کے سوا کوئی سرگرمی گوارا نہیں کرتیں۔ ان کے ہاں عشق عاشقی، راگ رنگ، شراب وشباب سب تعلیمی مراکز سے بالکل الگ تھلگ کلبوں میں ہوتے ہیں۔ تعلیمی ادارے صرف تعلیمی سرگرمیوں کے لیے ہی مختص ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں کالجوں یونیورسٹیوں میں اختلاط کے مواقع میسر آتے ہیں، وہاں سے ہٹ کر والدین اجازت نہیں دیتے۔ سو لگے ہاتھوں تعلیم کم اور خرافات زیادہ، آئے دن ہمیں بڑی بڑی نامور یونیورسٹیوں میں ہنگامے کھڑی کرتی ملتی ہےں۔ لمز، آئی بی اے، کامسیٹ، بلوچستان، اقرا یونیورسٹی کے تذکرے زبان زد عام ہیں۔ قائداعظم یونیورسٹی میں جوانوں کی بھاری تعداد تکبیرات اور لبیک کے تقدس کو میلا کرتی دیوانہ وار فحش موسیقی پر رقصاں رہی۔ لڑکیوں کے سر کے بالوں میں (وڈیو میں) لڑکے رنگ ملتے دیکھے گئے۔ رنگ آلود بھوت بھتنیاں نما اس منظر نے نور مقدم کی اذیت ناک کہانی تازہ کر دی۔ ظاہر جعفر نے اسی طرح سر کے بالوں سے پکڑ کر (دوستی، پارٹنر عیش وطرب کے) آخری منظر میں اس کا سر دیوار پر دے مارا اور اس کے خون سے ہولی کھیلی تھی۔ جابجا اس کے خون کے چھینٹے تھے۔ بعدازاں سہیلیوں دوستوں نے صرف موم بتیاں جلاتے احتجاج کیے۔ موم بتی کی مانند گھل گھل کر کتنی ہی لڑکیاں سچی رفاقت، عزت کی طلب میں ایسے رقصیدہ ماحولوں سے درندگی کے جنگلوں میں بھٹکتی مر جاتی ہیں۔ یہ وہ تحفظ ہے جس کی فراہمی کے لیے افغان حکومت عالمی بھیڑ چال سے جدا خواتین کو آزادی اور حقوق کے نام پر بھیڑیوں کے درمیان چھوڑنے پر راضی نہیں۔ ملاہبت اللہ کا کہنا ہے کہ ہم خواتین کو آرام دہ خوشحال زندگی اور شرعی حقوق کا تحفظ دینے کے لیے کوشاں ہیں۔ ذی الحج سیدہ ہاجرہؑ کی پاکیزہ زندگی، مامتا کی عظمت اور تربیتِ اولاد کو بصورت سعی، سلامی دلواتا اور آج کی عورت سے پوچھتا ہے: ہاجرہ بنوگی یا ہالی ووڈ کی ’می ٹو‘....؟ یا پھر خدانخواستہ نورمقدم یا سارہ انعام؟ والدین کے لیے بھی لمحہ¿ فکریہ ہے کھلی چھٹی دینے پر کہ جب دوستیوں پر قدغن اوروالدین کی شادی میں شرکت نہیں ہوتی تو بھاری المیہ یہ بنتا ہے کہ جنازے اٹھانے پڑتے ہیں۔ حکومت ملک کے نظریاتی تحفظ کی ذمہ دار ہے، مگر تہواروں پر پابندی کا خط سوشل میڈیا دباو¿ اور حکومت کے حکم پر ایچ ای سی نے واپس لے لیا!
یہ نچئے دین، ایمان، نظریہ ہی نہیں سادہ پاکستانیت سے بھی فارغ ہیں۔ بھارت اور کشمیر میں مسلمانوں کا حشر انہیں کیا دکھ دیتا ہے، بائیڈن اور مودی کی پاکستان دشمنی سے بھی انہیں تکلیف نہیں۔ وزیر کبیر بھی گھگھیائے معذرت خواہ ہوئے پڑے ہیں! افسوس! صد افسوس!