قومی منافقت کا آئینہ دار

قومی منافقت کا آئینہ دار

آئین پاکستان کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور شہریوں کو ان کے حقوق اور ذمہ داریوں سے آگاہ کرنے کے لیے 1973 کے آئین کی گولڈن جوبلی منانے کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس 10 اپریل کو منعقد کیا جا رہا ہے۔ آئین وہ واحد دستاویز ہے جو قوم کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے۔ پچاس برس قبل 10 اپریل 1973 کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں آئین منظور کیا تھا۔ صدر مملکت نے 12 اپریل 1973 کو اس کی توثیق کی اور یہ عملی طور پر نافذ ہو گیا۔ آئینی معاہدے پر 20 اکتوبر 1972 کو پارلیمنٹ کے تجربہ کار اراکین نے دستخط کیے تھے۔ برسوں بعد آئین میں کی جانے والی اٹھارویں آئینی ترمیم اور میثاق جمہوریت کو پیپلز پارٹی کی تاریخی کامیابیاں تصور کیا جاتا ہے۔ 1956 کے آئین کی طرح لیکن 1962 کے آئین کے برعکس، 1973 کا آئین، پاکستان کو پارلیمانی طرز حکومت فراہم کرتا ہے۔ 1973 کے آئین میں ترمیم کے لیے پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت درکار ہے۔ آئین پاکستان کے شہریوں کو بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ آئین کے مطابق ریاست کا انتظامی اختیار وزیر اعظم کے پاس ہے جبکہ صدر مملکت جمہوریہ کے آئینی سربراہ ہیں۔ 1947 سے 1973 تک ملک میں مقننہ کا یک ایوانی نظام تھا۔ قائداعظم کی رحلت کے بعد 1956 کا پہلا آئین بنایا گیا جس پر آزادی پسندوں اور تحریک پاکستان کے رہنماؤں نے دستخط کیے تھے۔ بعد ازاں عنان حکومت سنبھالتے ہوئے طالع آزما سابق آمر ایوب خان نے اس محترم و مقدس آئین کو منسوخ کر دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالنے کے بعد مزدوروں، خواتین، صحافیوں، ادیبوں اور کسانوں سمیت زندگی کے تمام شعبوں کے لوگوں کو اکٹھا کیا۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو ہی تھے جنہوں نے متفقہ آئین دیا۔ دنیا بھر سے پارلیمنٹ کے سپیکرز کو تقریبات میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ حکومت نے گولڈن جوبلی منانے کے لیے صوبائی اور قومی سطح پر مختلف پروگرام ترتیب دیے ہیں۔ جمہوریت کے محافظوں کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے یہ تقریبات ”وال آف ڈیموکریسی“ سے شروع ہوئی ہیں۔ یہ دیوار پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران بنائی گئی تھی لیکن بعد کے ادوار حکومت میں اسے محدود علاقہ قرار دیا گیا۔ آئین پاکستان کی سال بھر جاری رہنے والی گولڈن جوبلی تقریبات کا آغاز پارلیمنٹ ہاؤس کی گرین بیلٹ پر نصب گمنام ہیروز کی یادگار ”وال آف ڈیموکریسی“ کے قریب ایک سادہ تقریب کے انعقاد سے ہوا۔ پارلیمنٹ ہاؤس میں ہونے والی افتتاحی تقریب کے مہمان خصوصی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری تھے۔ یادگار کی تعمیر ان گمنام ہیروز کو شاندار خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے کی گئی جنہوں نے ملک میں جمہوریت کے فروغ اور اسے برقرار رکھنے کے لیے بے مثال قربانیاں دیں۔ کیا یہ قربانیاں مفلس پاکستانیوں کو تحفظ و طمانیت بخش سکیں؟جس ریاست کا آئین لاچار
پاکستانیوں کو آٹے کا ایک تھیلا تکریم کے ساتھ پہنچانے کی سکت نہ رکھتا ہو وہاں آئین کی فخریہ گولڈن جوبلی تقریبات کا انعقاد چہ معنی دارد۔ کیا آج مملکت خداداد میں آتش شکم گل کرنے کے لیے مفلوک الحال پاکستانی طویل لائنوں میں آٹے کے حصول کی حسرت لیے اپنی جانیں نہیں گنوا رہے؟ کیا ریاست ان ہلاک شدگان کو بعد از مرگ کسی تمغے، توصیفی سند اور انعام سے نوازنے کا ارادہ رکھتی ہے؟ اگر نہیں تو یہ تمغوں سے سجی تقریبات چہ معنی دارد؟ گولڈن جوبلی کی تقریبات کا مقصد نوجوانوں کو آئین پاکستان کی اہمیت سے آگاہ کرنا ہے۔ آئین بنے پانچ دہائیاں گزر چکیں۔ اب قوم کے سامنے حقائق لانا ناگزیر ہے۔ کیمروں کے سامنے آئین کی گولڈن جوبلی کو احسن طریقے سے منانے کے لیے تقریبات کا ایک جامع سلسلہ ترتیب دیا گیا ہے لیکن اسی آئین کے مجاور بے کس پاکستانیوں کی دہلیز پر آٹے کا تھیلا پہنچانے کا نظام وضع نہ کر سکے۔ تقریبات کا نعرہ ہے ”میرا آئین، میری آزادی کی ضمانت“۔ میرا آئین میری جان، مال، عزت، آبرو، باعزت روٹی اور آزادی کی ضمانت کیوں نہیں دیتا جبکہ میرا یہی آئین صرف طاقتور کے حقوق اور آزادی کی ضمانت کیوں دیتا ہے؟ اس آئین نے محض بھٹو، زرداری، شریف، نیازی، چودھری، قریشی، مخدوم اور اس قبیل کے دیگروں کے حقوق کا ہی تحفظ کیوں کیا؟ یہ آئین لاڑکانہ، نوڈیرو، چاغی، وزیرستان کے محب وطن باسیوں کے حقوق کا تحفظ کیوں نہ کر سکا؟
سوچنا یہ ہے کہ کیا واقعی حقیقی جمہوریت کے محافظ وطن عزیز کی آئینی و جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں؟ کیا اس آئین تلے آج پاکستان حقیقت میں ایک ترقی یافتہ جمہوری ملک بن چکا ہے؟ کیا اس سرزمین پر بسنے والوں کو آئینی تحفظ حاصل ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ انصاف فراہم کرنے والے انہی عدالتوں میں موجود اپنے ساتھیوں کو انصاف سے محروم کر رہے ہیں۔ کیا یہ سچ نہیں کہ انصاف کے حصول کیلئے جب منصف انہی عدالتوں کے کٹہروں میں جھونکے گئے تو انہیں انصاف نہ مل سکا۔ کیا اسلام آباد ہائی کورٹ کے انتہائی نیک نام جسٹس جناب شوکت صدیقی کے ساتھ روا رکھا جانے والا ظلم آج ہمارے آئینی دیوالیہ پن کا مظہر نہیں؟ کیا آج سپریم کورٹ کے جسٹس جناب فائز عیسیٰ اپنے ساتھیوں کی غیر قانونی و غیر آئینی چیرہ دستیوں کا شکار نہیں؟ کیا یہ سچ نہیں کہ آج بلوائیوں اور جتھوں کی مدد سے منصفوں اور عدالتوں پر یلغار کی جاتی ہے۔ کیا آج ہماری عدالتوں میں فرائض منصبی سرانجام دینے والے جج خواتین و حضرات خوفزدہ نہیں؟ جس ملک کا آئین جج و جسٹس خواتین و حضرات کو تحفظ دینے سے قاصر ہو وہاں یہ تقریبات چہ معنی دارد۔ ملک میں جاری موجودہ سیاسی، معاشی، معاشرتی، سفارتی، اخلاقی انحطاط اور بحرانوں پر قابو پانے کا واحد راستہ صرف اور صرف آئین پر عملدرآمد کا ہے۔ چاہے کوئی بھی ہو اورکسی بھی اعلیٰ منصب پر فائز اور عہدہ جلیلہ پر متمکن ہی کیوں نہ ہو، کو تمام پاکستانیوں سمیت اپنی آئینی حدود میں رہنے کی ضرورت ہے۔ ریاست اور آئین سے وفاداری ہر پاکستانی شہری کا بنیادی فریضہ ہے۔ لازم ہے کہ پاکستان کے اندر شہری جہاں کہیں بھی ہوں ریاستی رٹ کے قیام اور ریاست کے استحکام کے لیے پُر عزم اور با عمل رہیں۔ اور یہ ارفع مقصد آئین کی پاسداری سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ ملک کے آئین کو چیلنج کرنے والوں اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا حقیقی ریاست پاکستان کے آب و تاب کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ حکمران طبقہ بشمول سیاستدان، سرمایہ دار، جاگیردار، پیر، گدی نشین، تاجر، سول جوڈیشل اور ملٹری بیوروکریسی ملک میں قانون اور آئین کی حکمرانی قائم نہیں کرنا چاہتے کیونکہ اس سے ان کی طاقت اور حکمرانی میں کمی آتی ہے۔ آئین کی حکمرانی دراصل قانون کی بالادستی ہے۔ قانون اور آئین کی حکمرانی کے تحت فیصلے معلوم اصولوں یا آئین کے اطلاق میں صوابدید کی مداخلت کے بغیر کیے جانے چاہئیں۔ پاکستان کا آئین پاکستانی عوام کا آئین ہے اور وہ اس کے لیے بات کرنے کے لیے بہترین انتخاب ہیں۔ پارلیمان عوام کا نمائندہ فورم ہے۔ یہ دستاویز عوام کی ملکیت ہے اور وہ اس کی حفاظت کے لیے بہترین ہیں۔ ہمیں امید اور یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کی الہامی رہنمائی میں پاکستان کے عوام اپنے آئین کے تحفظ کے لیے بولیں گے اور آنے والے ہر دور کے لیے اس کی حفاظت کریں گے۔ آئین کی حکمرانی کو صحیح طریقے سے قائم کرنے کے لیے قانون میں شفافیت، قانون کے تحت برابری، آزاد عدلیہ اور قانون تک سہل رسائی ہونی چاہیے۔ یہ ایک سادہ سی سچائی ہے کہ ایک مستحکم، خوشحال، جمہوری اور مساوی ریاست قانون اور آئین کی حکمرانی اور اس پر عمل کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی۔ قانون منطق کے بغیر ادھوری دلیل کی طرح ہے۔ قانون اور آئین کا احترام غیر مشروط طور پر ہر فرد کے لیے لازم ہے۔ ایک فلسفیانہ اور قانونی تصور ہونے کی وجہ سے مختلف ادوار میں ادیبوں، فلسفیوں اور فقہا نے قانون کی حکمرانی اور آئین کے تصور کو مختلف طریقوں سے بیان کیا ہے۔ آئین پر سختی سے عمل کرنے سے ہی ہماری قوم ترقی کر سکتی ہے۔ صرف آئین ہی ہمارے وطن کو مربوط رکھ سکتا ہے اور صرف آئین کی حکمرانی ہی ہمارے خوبصورت قومی وجود کی ضمانت دے سکتی ہے۔ کیا یہی آئین کی گولڈن جوبلی تقریبات کی اصل روح بھی ہے؟ ایک جانب اس آئین کو بے تکریم و بے توقیر کرنے والوں نے دھماچوکڑی مچا رکھی ہے اور دوسری جانب سرکار کی طرف سے آئین کی پُروقار تقریبات منائے جانے کا غلغلہ ہے۔ وہ آئین جس نے ہماری درست سمت متعین کرنا تھی کہیں سرراہ اُچک لیا گیا ہے۔ ہمارے آئینی اداروں میں آج وہ تفریق اور نا انصافی دیکھنے کو مل رہی ہے جس کی نظیر بھارت سمیت دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ آئین سے سراسر انحراف اور روگردانی اور سرکاری سطح پر پچاس سالہ تقریبات ہماری قومی منافقت کا آئینہ دار نہیں تو اور کیا ہے۔