شعیب شاہین صاحب آپ نے ریلیف کیلئے کوئی درخواست دائر نہیں کی لیکن پھر بھی عدالت نےآرڈر لکھوا دیا کہ پر امن احتجاج کرنے والوں کیخلاف کارروائی نہ کی جائے: چیف جسٹس کا پی ٹی آئی وکیل سے مکالمہ

شعیب شاہین صاحب آپ نے ریلیف کیلئے کوئی درخواست دائر نہیں کی لیکن پھر بھی عدالت نےآرڈر لکھوا دیا کہ پر امن احتجاج کرنے والوں کیخلاف کارروائی نہ کی جائے: چیف جسٹس کا پی ٹی آئی وکیل سے مکالمہ
سورس: file

اسلام آباد:  سپریم کورٹ میں لاپتہ افراد اور جبری کمشدگیوں کیخلاف کیس کی سماعت 9 جنوری تک ملتوی کر دی گئی۔

سپریم کورٹ میں لاپتہ افراد اور جبری گمشدگیوں کے خلاف کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بینچ میں شامل ہیں۔ اعتزاز احسن کی جانب سے عدالت میں اُن کے وکیل شعیب شاہین، آمنہ مسعود جنجوعہ عدالت میں پیش ہوئے۔  

 سماعت کے آغاز میں شعیب شاہین نے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ نے خود ایجنسیوں کے کردار پر فیض آباد دھرنا فیصلے میں لکھ رکھا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے شعیب شاہین کو ہدایت کی کہ فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کا پیرا گراف 53 پڑھیں، فیض آباد دھرنا کیس فیصلے کا وہ حصہ بتائیں جو بلوچ دھرنے کے شرکاء پر لاگو ہوتا ہے۔

شعیب شاہین نے کہا کہ فیض آباد دھرنا فیصلے میں قرار دیا گیا کہ پُرامن احتجاج ہر شہری کا حق ہے، فیصلے میں ہے کہ جو شہری راستے روکے یا تشدد کرے ان کے خلاف کارروائی ہو۔ چیف جسٹس نے شعیب شاہین سے کہا کہ حیران ہوں کہ آپ فیض آباد دھرنا فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں۔

شعیب شاہین نے جواب دیا کہ میں ہمیشہ سے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کا حوالہ دیتا رہا ہوں، اگر فیض آباد دھرنا فیصلے پر عمل ہوتا تو آج یہ حالات نہ ہوتے، نہ ہمیں عدالت آنا پڑتا۔

چیف جسٹس نے شیعب شاہین سےمکالمہ کرتے ہوئے کہ کہ میں نے آپ سے کہا تھا کہ بلوچ مظاہرین کے ریلیف کیلئے درخواست دائر کرائیں کیا وہ آپ نے کروائی، جس پر شعیب شاہین نے کہا کہ میں نے درخواست دائر نہیں کرائی، چیف جسٹس نے کہا کہ آپنے درخواست دائر نہیں کرائی اس کے باوجود عدالت نے حکمنامہ جاری کر دیا کہ پر امن احتجاج کرنا ہر شہری کا حق ہے۔ مظاہرین میں کسی کو بھی گرفتار نہیں کیا جئے جب تک کہ وہ قانون کے راست میں نہ آئے۔ 


شعیب شاہین نے صحافی مطیع اللّٰہ جان کیس کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کا حوالہ بھی دیا تو  چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کل تو آپ مطیع اللّٰہ جان کا نام نہیں لے رہے تھے، آج ان کا حوالہ دے رہے ہیں، اُس وقت جس کی حکومت تھی کیا اس نے ذمے داری لی؟

شعیب شاہین نے کہا کہ اُس وقت کی حکومت کی مداخلت سے ہی مطیع اللّٰہ پہلے دن رہا ہو گئے، ورنہ عمران ریاض 4 ماہ لاپتہ رہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ نہیں ایسا بالکل نہیں ہوا تھا، یہ غلط فہمی ہو سکتی ہے آپ کی، مطیع اللّٰہ جان واقعے کی ویڈیو ریکارڈ ہو گئی تھی جس کی وجہ سے انہیں رہا کرنا پڑا، مطیع اللّٰہ جان کیس ایک ریکارڈڈ دستاویزی کیس تھا۔

وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ عمران ریاض والے واقعے کی بھی مکمل سی سی ٹی وی فوٹیج موجود تھی۔ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل شعیب شاہین سے کہا کہ رک جائیں مجھے اب بات کرنے دیں، اگر اُس وقت آپ لوگ سامنا کرتے تو آج والے واقعات نہ ہوتے، اگر مطیع اللّٰہ جان کی رہائی میں آپ کی کوئی مداخلت تھی تو ریکارڈ پر لائیں۔


وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ عمران ریاض کی کل مجھے کال آئی، عمران ریاض کا پیغام ہے کہ اگر عدالت انہیں سیکیورٹی دے تو وہ آ کر سب بتانے کو تیار ہیں۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ پھر اس فورم کا سیاسی استعمال کر رہے ہیں، ایک واقعہ ابصار عالم کا بھی ہوا تھا، ہم نے کہا کہ میڈیا پر بات کرنے کی بجائے عدالت آ کر بولیں، اس کیس سے پہلے ایک اور کیس تھا، ابصار عالم میڈیا پر بات کر رہے تھے، انہوں نے ہمت پکڑی، عدالت میں آ کر بات کی۔

شعیب شاہین نے کہا کہ عمران ریاض کو عدالت بلائے تو وہ تیار ہیں، عدالت پروٹیکشن دے۔ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا ہم کسی کے لیے ریڈ کارپٹ بچھائیں گے؟ اگر کسی کو خدشات ہیں تو ایف آئی آر درج کرائے، ہمارے پاس کوئی فوج کھڑی ہے جو پروٹیکشن دیں گے؟ عدالت کو سیاسی اکھاڑا نہ بنائیں۔

چیف جسٹس نے شعیب شاہین سے سوال کیا کہ شیخ رشید نے آپ کو کیا کہا؟ دھرنا کیس اور الیکشن کیس میں شیخ رشید عدالت آ سکتے ہیں تو اس میں کیوں نہیں؟ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جو اپنے لیے بات نہیں کر سکتے تو وہ کسی کے لیے کیا بات کریں گے، پریس کانفرنس کر کے بتا کیوں نہیں دیتے کہ کس نے اٹھایا تھا؟

دورانِ سماعت چیف جسٹس نے آمنہ مسعود جنجوعہ کو روسٹرم پر بلا لیا، جس پر اُن کا کہنا تھا کہ میرے شوہر کو 2005 میں جبری طور پر گمشدہ کیا گیا تھا، اس وقت چیف جٹس افتخار چوہدری نے نوٹس لیا تھا۔ آمنہ مسعود نے مزید کہا کہ مشرف کی حکومت میں میرے بزنس مین شوہر کو اٹھایا گیا۔

 چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ کے کارباری شوہر کا حکومت یا ریاست سے کیا تعلق تھا؟ ریاست کس وجہ سے آپ کے شوہر کو اٹھائے گی؟ پہلے وجہ سمجھ آئے کہ حکومت نے کیوں آپ کے شوہر کو اٹھایا ہوگا، کیا آپ کے شوہر مجاہدین کے حامی تھے یا کسی تنظیم کے رکن تھے؟ جس پر آمنہ جنجوعہ نے کہا کہ لاپتہ افراد کمیشن نے میرے شوہر کو 2013 میں مردہ قرار دیدیا تھا، میرے شوہر دوست سے ملنے پشاور کیلئے نکلے لیکن پہنچے نہیں۔

 جسٹس مسرت ہلالی نے آمنہ جنجوعہ سے سوال کیا کہ آپ کو کس پر شک ہے؟ غیر ریاستی عناصر بھی ہیں اور ایجنسیاں بھی۔جس پر آمنہ مسعود نے جواب دیا کہ سال 2007 میں معلوم ہوا کہ میرے شوہرفوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کی تحویل میں ہیں۔

آمنہ مسعود جنجوعہ نے چیف جسٹس سے استدعا کی کہ آرمی چیف سے پوچھیں کہ میرے شوہر کہاں ہیں؟ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ماضی میں ہونے والے واقعات کی ذمہ داری آج والوں پر نہیں ڈالی جاسکتی۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلا کر ان سے سوال کیا کہ کون سے وزارت ذمے دار ہو گی جس سے جواب مانگیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وزارتِ داخلہ متعلقہ وزارت ہو سکتی ہے۔


چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ان کا الزام مشرف پر ہے تو متعلقہ وزارت وزارتِ دفاع بنتی ہے، اٹارنی جنرل کیا آپ حلفیہ بیان دیں گے کہ آج سے ریاست کسی کو لاپتہ نہیں کرے گی؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میں بیان دینے کو تیار ہوں کیونکہ قانون یہی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ یہ بھاری ذمے داری ہو گی، اگر آپ کے بیان کے بعد کل کوئی لا پتہ ہوا تو اس کے نتائج ہوں گے۔


دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے شمالی وزیرستان میں 6 حجاموں کے قتل کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا قتل کرنے والے کو خدا کا خوف نہیں ہوتا؟ 6 حجام قتل کر دیے گئے، لوگوں کو خوف ہی نہیں ہے، قتل کرنے والے یہاں سزا سے بچ سکتے ہیں، آخرت میں تو جواب دینا ہو گا، بلوچستان میں 46 زائرین کو مار دیا جاتا ہے، عدالت کا کام نہیں، حکومت کی ذمے داری ہے کہ لوگوں کی سوچ کو بدلے۔

سپریم کورٹ میں لاپتہ افراد کمیشن کے کام اور کارکردگی سے متعلق بھی گفتگو ہوئی۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ لاپتہ افراد کمیشن کے سربراہ کون ہیں؟ ان کی عمر کتنی ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کمیشن کے سربراہ ہیں، ان کی عمر 77سال ہو گی۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے رجسٹرار لاپتہ افراد کمیشن سےکہا کہ کیا آپ صرف تنخواہ ہی لے رہے ہیں؟ جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کتنی مرتبہ کمیشن کا اجلاس ہوتا ہے؟ کتنی ریکوری ہوئی ہے؟

رجسٹرار لاپتہ افراد کمیشن نے جواب دیا کہ اس ماہ 46 لوگ بازیاب ہوئے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہمیں کسی سیکشن افسر کا بیان نہیں چاہیے، ہمیں حکومتِ پاکستان تحریر دے کہ مزید کسی کو غیر قانونی لا پتہ نہیں کیا جائے گا، اس ملک کو اپنوں نے ہی فریکچر کیا ہے، ریاست کو اپنا مائنڈ سیٹ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، صرف عدالتی فیصلوں سے کچھ نہیں ہو گا۔


سپریم کورٹ میں لاپتہ افراد کیس کی سماعت کے دوران اعتزاز احسن روسٹرم پر آ ئے جنہوں نے کہا کہ یہ سنجیدہ مسئلہ ہے اور ریٹائرڈ جج کو کوئی سیریئس نہیں لیتا، لاپتہ افراد کمیشن میں حاضر سروس جج کو ہونا چاہیے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے رجسٹرار لاپتہ افراد کمیشن سے سوالات کیے کہ آج کل لوگ لاپتہ ہو رہے ہیں یا نہیں؟ آپ کے پاس کیسز آ رہے ہیں؟

رجسٹرار لاپتہ افراد کمیشن نے جواب دیا کہ جی کمیشن کے پاس کیسز آ رہے ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیسز آنے کے بعد کمیشن کیا کرتا ہے؟ رجسٹرار لاپتہ افراد کمیشن نے جواب دیا کہ کیسز آنے کے بعد کمیشن جے آئی ٹی بناتا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ اعتزاز احسن صاحب! آپ مطمئن ہیں اس کمیشن سے یا نہیں؟ اعتزازاحسن نے جواب دیا کہ میں بالکل مطمئن نہیں ہوں۔


چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہاں اعتزاز احسن سمیت کوئی بھی لاپتہ افراد کمیشن سے مطمئن نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے اعتزاز احسن سے کہا کہ آپ صرف باتیں نہیں کریں بلکہ کاغذ کا ٹکڑا لے کے عدالت میں آئیں۔ 

بعد ازاں سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کیس کی سماعت 9 جنوری تک ملتوی کر دی۔

گزشتہ سماعت پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ لاپتہ افراد کا کیس سنجیدہ نوعیت کا ہے، کیس کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے نہیں دیں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ عدالت کا مزاق بنانے کی اجازت نہیں دیں گے، کسی کے بھی ساتھ زیادتی ہو تو اُس کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے، ہمارے لیے ہر شہری محترم ہے چاہے وہ کسی بھی پارٹی کا ہو۔

درخواست گزار خوشدل خان نے عدالت سے جبری گمشدہ افراد سے متعلق قانون سازی کا حکم دینے کی استدعا کی، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے عدالت کیسے پارلیمنٹ کو حکم دے سکتی ہے کہ وہ فلاں معاملے سے متعلق قانون سازی کرے؟

چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ آئین کی کون سی شق عدالت کواجازت دیتی ہے کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حکم دے۔درخواست گزار اعتزازاحسن کے وکیل شعیب شاہین نے مؤقف اختیار کیا کہ لاپتہ افراد کمیشن اپنا کام نہیں کر سکا اور نہ کرسکتا ہے۔

گذشتہ سماعت کے دوران غائب ہونے والے بل اور چیئرمین سینیٹ انتخابات میں گمشدہ ووٹ کا بھی تذکرہ ہوا تھا۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے، پاکستان ہم سب کا ہے ملک ہے اور چیزیں ٹھیک کرنا ہوں گی ایک دوسرے پرانگلیاں اٹھانے سے نفرتیں کم نہیں ہوتیں اور ہم لاپتہ افراد کے مسئلے کو ہمیشہ کیلئے حل کرنا چاہتے ہیں۔

 واضح رہے کہ اعتزاز احسن سمیت متعدد افراد نے جبری گمشدگیوں کے خلاف درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔

مصنف کے بارے میں