دستک

دستک

میرے پہلے کالم کا عنوان ”انقلاب کی دستک“ تھا جس کے آخر پر لکھا تھا کہ وطن عزیز کے حکمران طبقے، اشرافیہ عام آدمی کی محرومیوں کا ازالہ کریں، دکھوں کا مداوا کریں ورنہ ان دیکھا ہاتھ دستک دیتے ہوئے انقلاب کو زیادہ دیر روک نہ پائے گا اور اگر لیڈرشپ نہ ہوئی تو یہ انقلاب کی دستک نہیں انارکی ہو گی۔ اگر نظریہ نہ ہوا تو غدر ہو گا۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
آج جو حالات ہوئے ہیں، جن انگاروں سے قوم گزر رہی ہے یہ ایک دن میں نہیں ہوا۔ اگر میں اپنی رائے دوں چاہے کوئی اختلاف کرے اس کا حق ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ صرف ایک پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کے لیے پورے نظام کا بیڑا غرق کر دیا گیا۔ اگلے روز کسی معزز جج صاحب کا بیان تھا کہ آئین دستک دے رہا ہے۔ پوچھنے کی بات ہے کہ آئین دستک دے رہا ہے یا عام آدمی نوحہ کناں ہے۔ مولوی تمیز الدین کیس، نصرت بھٹو کیس، جناب ذوالفقار علی بھٹو کیس، نوازشریف کیس اور اس سے پہلے بھی ایوب کے بعد یحییٰ، ضیا الحق، پرویز مشرف کے مارشل لا کو عدالتی چھتری فراہم کرتے ہوئے آئین کی دستک تو درکنار آئین کے بے گورو کفن تدفین کے بغیر پڑے لاشے کا تعفن تک محسوس نہیں ہوا۔ آئین موجود ہو تو سوالی دستک دیتا ہے کہ آئین میرے حق میں یہ کہہ رہا ہے۔ اگر جج کے ساتھ زیادتی ہو تو وہ بھی آئین کے در پر دستک دیتا ہے۔ یہ کیسے جج صاحبان ہیں جن کے در پر آئین دستک دینے آ گیا، دراصل آئین نہیں عمران دستک دے رہا ہے۔ ثاقب نثار نے کہا، قانون اندھا ہوتا ہے جج تو اندھا نہیں ہوتا۔ یہ کہہ کر قانون کا بین الاقوامی مقولہ برباد کر کے رکھ دیا اور اپنے وقت میں عدالتی مائنڈ سیٹ، ذہنیت اور سوچ بتا دی کہ قانون اندھا ہوتا ہے جج تو اندھا نہیں ہوتا۔ اس کو معلوم ہے کہ عام آدمی کون ہے اور خاص آدمی کون ہے۔ آج 90 دن میں انتخابات کا تذکرہ ہر گھر میں عام ہے جبکہ آرٹیکل 58 میں اس کے آگے پیچھے ہونے کی گنجائش موجود ہے۔ کیا پورے ملک میں کسی نے عمران نیازی سے پانچ سال کی مدت کے لیے چنی گئی اسمبلیاں توڑنے
کی وجہ پوچھی؟ کیا کسی جج صاحب نے پوچھا کہ ضمنی انتخابات میں 10 میں سے 8 سیٹوں پر کامیاب ہو کر حلف کیوں نہیں لیا۔ کیا کوئی گارنٹی کرے گا کہ عمران خان انتخابات ہار گئے تو یہ نتائج تسلیم کر لیں گے۔ ان کو ہر قیمت پر وزیراعظم بننا ہے مگر یہ لکھے دے رہا ہوں کہ سب تجزیہ کار نہ جانے کس زعم میں کہہ رہے ہیں کہ عمران کی مقبولیت حالانکہ عمران اپنی سیاسی زندگی میں 2013 میں سب سے زیادہ مقبول تھے۔ اور نتائج میں تیسرے نمبر پر بھی نہیں تھے۔ دراصل آئین دستک نہیں دے رہا، عدلیہ مولوی تمیز الدین کیس سے لے کر آج تک کے سیاسی فیصلوں کے حوالے سے تاریخ کے کٹہرے میں ہے۔ مورخ جج ہے اور وہ حالات کی سنگینی کی ذمہ داری کی فرد جرم اعلیٰ عدلیہ پر عائد کرتا ہے۔ آج بھی عدلیہ کا کردار ہی زیر بحث ہے۔ آپ چھوٹی سی بات سے اندازہ لگا لیں کہ ایک جج صاحب کو بینچ کا حصہ بنانے پر چیف صاحب فرماتے ہیں کہ یہ کسی کے لیے خاموش پیغام ہے۔ کیا کوئی پوچھ سکتا ہے کہ ”مائی لارڈ“ کس کے لیے خاموش پیغام ہے اگر کل کو ان کی طرف سے اعلانیہ پیغام آیا تو قوم کو کوئی سائبان بھی نہیں ملے گا۔ کیا جنرل باجوہ کے بیانات اور میاں نوازشریف کے خلاف سنائی جانے والی ساری کتھا میں کسی معزز جج کو آئین نے دستک نہیں دی۔ جنرل فیض حمید کے شہباز شریف کے متعلق بیان پر کوئی آئینی شق حرکت میں نہیں آئی۔ کیا صرف 90 دن کی شق جس پر اب تو عمل کرنا بھی ممکن نہیں رہا، یہی شق سر چڑھ کر بول رہی ہے۔ جانبداری نظام کو برباد کر گئی، معاشرت کی اساس کو تہہ و بالا کر گئی اور منافقت کے انداز اداکاری میں انوپم کھیر اور نصیرالدین شاہ کیا دلیپ کمار کو بھی پیچھے چھوڑ گئے۔ آئین کی دستک تو ہوتی رہے گی بعض لوگوں کے کردار پہ دین کی دستک بھی دیکھی۔ ہم اکثر سنتے ہیں کہ فلاں میں تبدیلی آ گئی اب وہ صوفی ہو گیا۔ عمران نیازی بھی اکثر کہتے پائے اور پکڑے گئے ہیں کہ وہ پہلے پلے بوائے تھے اب بدل گئے ہیں۔ یاد رکھئے کہ آقا کریمﷺ کی حدیث طیبہ ہے، احد کا پہاڑ اپنی جگہ بدل سکتا ہے مگر کوئی شخص اپنی طبع (فطرت) نہیں بدل سکتا (مفہوم)۔ صرف انداز بدلتا ہے یا کوئی اپنی اصلیت کی طرف لوٹتا ہے مگر فطرت نہیں۔ ہمارے دیکھنے کی بات ہے ایک بہت ہی سخی طبیعت آفیسر کو چودھری صاحب کہلوانے کا بہت شوق تھا۔ انہوں نے زندگی کے 58 ویں سال کرپشن چھوڑنے اور نیک ہو جانے کا ارادہ کیا۔ ہر بندے سے کہتے تھے، میں فلاں تاریخ کو حج پر جا رہا ہوں اور اس کے ساتھ ہی میں نے رشوت سے توبہ کر لینی ہے۔ میں نے کہا کہ کیا گارنٹی ہے کہ اُس تاریخ تک آپ زندہ رہیں گے! اگر آپ کو ضمیر اور دیانت داری نے دین اور انسانیت نے دستک دے ہی دی ہے تو پھر ابھی سے تائب ہو جائیں۔ مگر وہ ارادے کے پکے تھے۔ ان سے پوچھا گیا چغل خوری اور غیبت کا کیا ہو گا اس پر نالاں بلکہ انکاری ہو گئے۔ بہرحال حج کے بعد ہر سو خبر پھیل گئی کہ سخی طبیعت چودھری نے رشوت چھوڑ دی۔ چند ہفتے بعد ایجنٹ جو کاروباری لوگوں کے لیے قانونی معاونت کی صورت اجرتاً سہولت کاری کرتے ہیں، میرے پاس آئے کہ آپ ”تائب چودھری“ سے کہیں کہ رشوت لینا دوبارہ شروع کر دیں کیونکہ جس کام کی رشوت 15/20 ہزار روپے لیتے تھے اب 60/70 ہزار روپے کا گفٹ لیتے ہیں۔ لہٰذا ضمیر کی دستک نے کیش سے گفٹ کی طرف رخ کر دیا، گویا توشہ خانہ ہی بنا لیا، فطرت وہی رہی۔ ایک یہ بڑی غلط فہمی تھی کہ تنخواہ سے حج کیا ہے۔ پوچھا جائے کہ جو کام کرتے تھے اس کے عوض کیا لیتے تھے اور تنخواہ کے عوض کیا کام کرتے تھے۔ بہرحال ان کے اندر کے مفتی نے کبھی دستک نہ دی۔ پھر آخری سال نوکری چھوڑ کر وکالت کے میدان میں اتر آئے۔ نوکری کے دوران نیک کمائی سے وکالت کی ڈگری لے رکھی تھی۔ بنیادی طور پر صلح پسند آدمی ہیں۔ اب مخالف وکیل کو پیش کش کرتے ہیں کہ ہتھ ہولا رکھیں، آپ کے لیے ایک خطیر رقم دوسری طرف سے بھی حاضر ہے۔ وہ ہاتھ جوڑتے پھرتے ہیں کہ آپ مہربانی فرمائیں۔ دستک کی یہی صورت حال دیگر چودھری طبیعت لوگوں کی ہے۔ سیاں چودھری کا مزاج ہے یا سلمیٰ آغا جیسی طبیعت ہے مگر دعویداری مکمل چودھری اور آغا حشر ہونے کی ہے جیسے بعض رنگباز لوگ باتوں میں سارا شہر قتل کر کے سوتے ہیں اگلے روز شہر میں معمول کے مطابق کاروبار چل رہا ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ دستک دستک سب ڈراما ہے کوئی بدلتا نہیں بس ہر کوئی اپنی اصلیت کو لوٹتا ہے اور اصلیت سب کی سب کے سامنے ہے۔ دستک نہیں قانون کی حکمرانی چاہئے، تاریخ کے کٹہرے میں صفائی پیش کرنی چاہئے۔