صاحبزادہ اضافت کھاتا ہے

صاحبزادہ اضافت کھاتا ہے

برجستہ گو ، سادہ اور دل میں گھر کر جانے والے شاعر داغ نے ایک عرصہ پہلے اردو زبان کے بارے میں کس قدر درست کہہ رکھا ہے کہ اس کے بھید بھاؤآسانی سے گرفت میں آنے والے نہیں: کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے۔ ایک مدت کے طول طویل سفر کے بعد اب یہ ایک بڑی اور بین الاقوامی زبان بن چکی ہے۔ اس کی اپنی رمزیں اور ادائیں ہیں اور اپنے منفرد خدوخال۔اس میں نرم و لطیف لہجوں کے دوش بدوش کھردری اور ہکار آوازوں کا بھی ایک نظام ہے جس کے باعث اردو والے ان آوازوں کے استعمال پر بھی قادر ہیں جہاں کئی عالمی زبانوں والے اپنے عجز کا اظہار کرتے ہیں ۔ اپنے حروفِ تہجی کی منفرد تعدادکے اعتبار سے ، جو چوّن بنتی ہے، بہت کم زبانیں اس کی حریف ہیں۔ ذرا شان الحق حقی صاحب کی زبانی سنیے کہ اردو زبان کن کن انوکھی آوازوں کی امین ہے اور ان کے بیان پر قادر : قہقہے، چہچہے، شرّاٹے، خراٹے، ہانک پکار، چیخم دھاڑ ، کھٹ کھٹ، کُھس پُس، پھک پھک، چھک چھک، چیں پیں، کھوں کھوں، کھی کھی، ہاہا، ہُو ہُو، غائیں غائیں، جھائیں جھائیں، تارا  را  را  رم ، اڑ ا  ڑ ا  ڑ ا  دھم۔ اس آخری ’’دھم‘‘ نے ہمیں ایک شریر شعر یاد دلا دیا نوازش حسین نوازش کا: گھر میں ترے کودا کوئی یوں دھم سے نہ ہوگا/ جو کام ہوا ہم سے وہ رستم سے نہ ہوگا ۔
اردو زبان نے اگرچہ اپنے ہمہ گیر لسانی ارتقا کی کئی منزلیں مار رکھی ہیں مگر اس کا آگے بڑھنے کا سفر جاری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زندہ انسانوں کی طرح زندہ زبانیں بھی اپنے سینتنے سنوارنے کا عمل جاری رکھتی ہیں۔ اردو بھی اس حقیقت کا گہرا شعور رکھتی ہے۔ مثلاً وہ ایک عرصے سے املا کی معیار بندی کے مسئلے سے نبرد آزما ہے۔ اس ضمن میں معیاری اور مضحکہ خیز دونو طرح تجاویزنے اس مسئلے کو کسی قدر گمبھیر بنا دیا ہے حال آنکہ یہ اتنا گمبھیر تھا نہیں۔ املا کی گتھیوں کو حل کرنے کے لیے احسن مارہروی نے ۱۹۰۵ء میں کچھ نہایت مفید تجاویز دی تھیں جن میں سے بعض قبول کر لی گئیں، بعد کے برسوں میں اس ضمن میں کئی انفرادی اور اجتماعی تجاویز سامنے آئیں مگر اس سے وحدت اور یگانگت کے بجائے انتشار کو زیادہ فروغ ملا۔
دراصل زبان اور اس کے طریق املا کا مسئلہ ہے ہی بڑا حساس۔ ہمارے بزرگ زبان کے معاملے میں بڑے زود حس تھے اور یہ ایسا غلط بھی نہیں تھا۔ لطیفے کے طور پر مشہورہے کہ ایک ہونے والے خسر نے اپنے متوقع داماد کو محض اس لیے اپنی فرزندی میں قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ صاحبزادہ اضافت کھاتا ہے! اور ہاںقارئین کو کسی ظریف کا وہ شعر بھی تو یاد ہو گا جس میں حسرتِ دیدار نے ایک عجب گُل کھلایا ہے: ہائے رے حسرتِ دیدار کہ اس ہاے کو بھی ۔لکھتے ہیں ہاے دو چشمی سے کتابت والے۔اس کے برعکس یہ بھی عموماً دیکھا گیا ہے کہ لوگ ’’دُلھن‘‘کو کہنی دار ’’ہ‘‘کے ساتھ نہ صرف ’’دُلہن ‘‘لکھتے ہیں بلکہ اسے پڑھتے بھی ہیں ’’دُلہَن (دُل+ہَن) جو ظاہر ہے درست نہیں۔ ہمارے کراچی والے ’’اردو لغت ‘‘ نے اس عزیزدلہا لفظ کا املا دونو طرح کیا ہے مگر یہ کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔ 
اردو کے نامور محقق اور زبان دان رشید حسن خان نے ’’اردو املا‘‘ کے نام سے ایک ضخیم کتاب لکھی جو سرحد کے دونو طرف کئی دفعہ شائع ہو چکی 
ہے۔ مرحوم نے گو اس کتاب کے لکھنے میں بڑی جگرکاوی سے کام لیا مگر فارسی طرزِ املا سے ضرورت سے زیادہ تاثرپذیری اور عربی طرز املا سے ضرورت سے زیادہ بے نیازی نے کتاب کو توازن سے محروم کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ آخر ہم ’’بوالہوس‘‘ کو فارسی کی پیروی میں کیوںبُل ہوس (بُل بہ معنی زیادہ) لکھیں اور موسیٰ، عیسیٰ، اعلیٰ، ادنیٰ کو الفِ مقصورہ (کھڑے الف)کے بجائے الف سے موسا، عیسا، اعلا اور ادنا لکھیں۔ بات یہ ہے کہ اس طرز املا سے ہماری آنکھیں اور ہمارے حافظے ایک مدت سے جمالیاتی اور تصویری بیعت کر چکے ہیں۔ لہٰذا اسے فسخ کر کے اسے موسا عیسا نہیں لکھ سکتے۔ یاد رکھنا چاہیے ۔ ثقافت کی طرح ادب میں بھی کسی شے کی جس میں کوئی عیب بھی نہ ہو، کیسے نفی کی جا سکتی ہے اور رواج عام کو کیسے جلاوطن کیا جا سکتا ہے؟ املا کے باب میں رشید حسن خان کے بعض امور میں شدید اصرار کے باعث رد عمل بھی اور اس ضمن میں بعض بڑی عمدہ کتابیں مثلاً ’’ادبی بھول بھلیّاں‘‘ (حفیظ الرحمن واصف) اور ’’اردو املا اس کی اصلاح‘‘ (ڈاکٹرابو محمد سحر) وجود میں آئیں۔
 اردو میں املا کی بعض صورتیں اب تک دو عملی کا شکار رہی ہیں مثلاً ’’زکوٰۃ‘‘ کو تائے دراز یعنی ’’ت‘‘ سے لکھا جائے یا گول ۃ سے۔ معرّا اور ہیولا کو الف مقصورہ سے معرٰی اور ہیولیٰ لکھا جائے یا اس کے برعکس۔ تمھیں ، انھیں ، جنھیں کو بہت سے لکھنے والے تمہیں، انہیں اور جنہیں لکھتے ہیں اور بعض ان اول الذکر صورتوں میں تحریر کرتے ہیں۔ اضافت کے ضمن میں بھی ایسی ہی دو عملی دیکھی جاتی ہے مثلاً شادابیِ چمن یا شادابیٔ چمن، خانۂِ انوری یا خانۂ انوری۔  
صحافیانہ تحریروں میں آج کل ایک بدعت تیزی سے در آئی ہے یعنی انگریزی لفظوں کی جمع بھی انگریزی کی کورانہ تقلیدمیں اس طرح لکھی جانے لگی ہے ۔ ’’کتنے ہی میڈیا سنٹرز‘‘ قائم ہو چکے ہیں۔ بہت سے ’’ممبرز‘‘ نے مخالفت کی ۔ حال آنکہ یہاں ماضی کی طرح بہ آسانی ’’سنٹر‘‘ اور ’’ممبروں‘‘ کا استعمال ہو سکتا ہے ۔ جیسے کتنے ہی میڈیا سنٹر قائم ہو چکے ہیں، بہت سے ممبروں نے مخالفت کی وغیرہ۔ 
اردو املا کی انھی دو عملیوں اور بوالعجبیوںکو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن اسلام آباد کے زیر اہتمام ادارۂ فروغِ قومی زبان نے پچھلے ماہ کی سترہ اٹھارہ تاریخ کو ایک دو روزہ کانفرنس کا اہتمام کیا جس میں وطنِ عزیزکے طول و عرض سے محققوںاور ادیبوں نے شرکت کی اور اردو کی معیار بندی کے سلسلے میں تبادلۂ خیال کیا اور تجاویز دیں۔ املا کی مروج مگر نظر ثانی کی محتاج صورتوںپر بڑی دلچسپ اور سیرحاصل بحثیں ہوئیں۔ کانفرنس کے آخری سیشن میں کل پاکستان تشکیل کردہ املا کمیٹی نے ذیلی کمیٹیوں کی تجاویز پر نظر ثانی کر کے انھیں مزید قابل عمل بنانے کے لیے سفارشات پیش کیں۔ ادارۂ فروغِ قومی زبان کے موجودہ ناظم اعلیٰ ڈاکٹر رؤف پاریکھ اور ان کے تمام رفقائے کار خصوصاً ڈاکٹر راشد حمید اور ڈاکٹر انجم حمید ہمارے تشکر کے مستحق ہیں کہ ان کی مساعی سے اردو املاکی معیار بندی کے باب میں ایک بھرپور کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس کانفرنس کا افتتاحی اجلاس بھی قابلِ داد ہے کہ اس میں ملک کے دو نامور ادیبوں پروفیسر فتح محمد ملک اور جناب افتخار عارف نے خطاب کیا اور مرکزی وزیر تعلیم شفقت محمود اور وفاقی سیکرٹری ارشد محمود صاحب نے شرکت کی اور اظہارِ خیال کیا ۔ افتخار عارف صاحب کے خطاب کے اس نکتے کو شرکائے محفل نے سراہا کہ ادارۂ فروغ قومی زبان کو اس قدر با اختیار بنانابہرحال ضروری ہے کہ وہ ملک گیر سطح کی علمی اور املائی سفارشات کا مؤثرنفاذ کر سکے۔ اس افتتاحی اجلاس کا ایک قابلِ ستائش پہلو یہ بھی تھا کہ اس ادارے کے زیر اہتمام بڑی محنت اور سلیقے سے قائم کی گئی قومی لسانی لیبارٹری کا رسمی اجرا ہوا نیز قومی انگریزی اردو لغت اور قانونی انگریزی اردو لغت کے ایپس بنائے جانے کی خوش کن اطلاع بھی دی گئی۔ علاوہ ازیں ادارۂ فروغِ قومی زبان کی مساعی سے کمپیوٹر میں اعلیٰ علمی مقالات و مضامین کے اردو بلاگ بھی فراہم ہو گئے ہیں تاکہ اس جدید ٹیکنالوجی سے پاکستان کی نئی نسلیں اور بیرون ملک اردو سے محبت کرنے والے بہ سہولت استفادہ کر سکیں۔ 
حقیقت یہ ہے کہ اردو املا کی معیار بندی پر منعقدہ کانفرنس اپنے علمی معیار اور حسنِ انتظام دونو حوالوں سے ایک یادگار کانفرنس تھی ۔ امید ہے کہ املا کے سلسلے میں قومی سطح پر مرتبہ سفارشات کو پورے ملک کے علمی صحافتی اور ابلاغِ عامہ کے ذرائع ، دانشگاہوں ، نصاب ساز اداروں، کالجوں اور اسکولوں کے اساتذہ تک پہنچایا جائے گا تاکہ یکساں اردو املا ہمارے ملک کے تحریری سرمائے میں رواج پا سکے۔ یہ دراصل اسی وحدت کی طرف ایک قدم ہو گا جو قوموں کی بقا کے لیے علمی ، فکری، نظریاتی اور سیاسی سطح پر ناگزیر ہوتا ہے اور جس سے قومیں باوقار اور سربرآوردہ ہوتی ہیں۔

مصنف کے بارے میں