ملکی سیاست کے بدلتے رنگ

ملکی سیاست کے بدلتے رنگ

ملک کا سیاسی نظام اور ماحول اس وقت خوب گرم ہے۔ لگ بھگ تمام اخبارات کے صفحات ہی سیاسی خبروں اور بیانات سے ہمہ وقت مزین ملتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ہر سیاسی و مذہبی جماعت نے اقتدار کی ہوس میں اس قوم کوآج تک صرف سہانے خواب ہی دکھائے ہیں۔ وطنِ عزیز آج بھی مفلوج اور بوسیدہ نظام کی زد میں مبتلا ہے جس کو درست سمت پر گامزن کرنے کی اہلیت شاید ہمارے موجودہ سیاست دانوںمیں موجود نہیں ہے۔ گزشتہ چند روز سے ملک بھر کی سیاست پر تحریکِ عدم اعتماد کا بخار سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اپوزیشن اپنے نمبر بڑھا رہی ہے جبکہ حکومت آج بھی اس بات پر قائم ہے کہ ہمیں اپنے ساتھیوںکی وفاداری پر یقین اور مکمل اعتماد ہے۔ فلور آف دی ہاؤس پر نمبرز کا کھیل کوئی بھی رُخ اختیار کر سکتا ہے۔ لیکن فی الحال اپوزیشن اور حکومت دونوں ہی اپنے اپنے دائروں میں خاصے پُراعتماد نظر آ رہے ہیں۔ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ نادیدہ قوتوں کا ہاتھ کس کے سر پر ہو گا یہ آئندہ چند دن میںدیکھنے کو ملے گا۔ ہر لحاظ سے ہی حکومتِ وقت کے لیے ماہِ مارچ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اِن ہاؤس تبدیلی یا عدم اعتمادکا عمل دہرایا جا سکتا ہے۔ خفیہ طاقتیں اور سیاسی پہلوان کچھ نیا کرنے جا رہے ہیں، اقتدار کی لالچ میں شاہ اور چور سمیت تمام سیاسی حریفوں کو خوشی خوشی بغل گیر ہوتے عوام نے ایسے دیکھا جیسے عید کا تہوار ہو۔ لیکن حقیقت میںبھی یہ سب دوست و دشمن حکمرانی کا چاند دیکھ کر ہی چاند رات کو بغل گیر ہو رہے ہیں۔ مولانا صاحب بھی خطبے کے لیے بالکل تیار نظر آ رہے ہیں۔ اگر کوئی مشکل صورتحال درپیش ہے تو صرف حکمران جماعت کے لیے کہ چار سال کا عرصہ بیت چکا ہے اور عوام کو ابھی تک احتساب، انصاف، روزگار اور آزاد قانون دیکھنے کو بھی نصیب نہیں ہوا۔ ریاستِ مدینہ کا نعرہ بھی پہلے سیاسی نعروں کی طرح صرف 
ایک نعرہ بن کر ہی رہ گیا ہے۔ آج پوری دنیا کو جہاں مہنگائی اور بے روزگاری نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے وہیں پاکستان بھی اسی مشکل وقت سے گزر رہا ہے۔ یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ ملکی معیشت کے حالات گزشتہ چند ماہ سے ایسے ہو گئے ہیں کہ عوام کا جینا دوبھر ہو گیا ہے۔ اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں آئے روز ہونے والے اضافوں نے مجبور و غریب عوام کی زندگیوں کو مزید اجیرن بنا کر رکھ دیا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں زخیرہ اندوری، سیاسی تھانہ کلچر، انصاف کا حصول، قبضہ گروپ، سرکاری دفاتر میں رشوت ستانی، ملاوٹ شدہ مال، امن امان کا فقدان اور دیگر مسائل آج بھی جوں کے توں موجود ہیں جو حکمران جماعت کے لیے ایک ایسی مشکل ہے جس کا حل اور جواب کسی سیاستدان کے پاس موجود نہیں ہے۔ یہی وہ بنیادی مسائل تھے جن کو تبدیل کرنے کا نعرہ حکمرانِ وقت نے لگایا تھا۔ وقت بدل رہا ہے دنیا عالمی جنگ کی جانب بڑھ رہی ہے۔ اس جنگ کے شروع ہوتے ہی پیٹرولیم اور اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ درآمدات کی قیمتیں بھی لگاتار بڑھ رہی ہیں۔ جنگ سے منسلک ممالک میں رہائش پذیر پاکستانی بڑی تیزی سے بے روزگار ہو رہے ہیں، ان حالات میں اگر جنگ بڑھتی ہے تو یہ جنگ دوسرے کئی ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان پر بھی اپنے گہرے اثرات مرتب کرے گی۔ ڈالر کے ساتھ کی جانے والی تجارت بھی ہمارے لیے ایک بڑا رسک ہے جو آنے والے دنوں میں نئے المیے کو جنم دے گا۔ تیل کی عالمی قیمتیں بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں اور قرائن و آثار یہی بتاتے ہیںکہ تیل کی قیمت ایک سو بیس ڈالر فی بیرل تک پہنچ جائے گی۔ ان حالات میں پاکستان کی اندرونی حالت انتہائی نازک ہے، دشمن جگہ جگہ گھات لگائے بیٹھا ہے، دو دہائی کے بعد آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم پاکستان کی سرزمین پر کھیل رہی ہے۔ ملک دشمنوں نے پہلے کوئٹہ اور اب پشاور میں کاری ضرب لگائی ہے جس سے پورے پاکستان کے عوام غم و غصہ کا شکار ہیں۔ پاکستان کے امن کو تباہ کرنا ملک دشمنوں کا اولین مشن ہے، اسی طرح ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ ارضِ پاکستان کے دفاع کے لیے ہر وقت چوکنا ہو کر رہے اور امن کو بحال رکھنے کے لیے جان و مال کی پروا کیے بغیر دفاع کو قائم دائم رکھنے میں اپنی سی کوشش کرے۔ مارچ کے مہینے میں او آئی سی کانفرنس سے پہلے پنجاب اور وفاقی کابینہ میں تبدیلی بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اس وقت اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگانا بہت ہی آسان ہے کہ پنجاب کے منجھے ہوئے سیاست دان جو کہ حکمران اور اپوزیشن دونوں میں بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں، چودھری برادران بھی اس سیاسی پیشرفت کو بہت اہم ہانڈی کے نام سے پکار رہے ہیں اور ان کے بقول پہلے اُبال کے ساتھ ہی اس سیاسی ہانڈی کی اہمیت سب کے سامنے آ جائے گی۔ بہرحال کامیابی اور ناکامی ایک الگ ایشو ہے لیکن اس وقت اسلام آباد کا سیاسی موسم بہت ابر آلود ہے اور حالات کسی صورت بھی سازگار نظر نہیں آ رہے ہیں۔ کبھی دھوپ کے ساتھ رم جھم ہے تو کبھی تیز ہواؤں کے ساتھ بارش، سیاسی ماحول کی سنگینی کا پتہ بتا رہی ہے۔ جیسا کہ میں نے دسمبر میں لکھے جانے والے اپنے کالم ’بدلتا وقت‘ میں بتایا تھا کہ مارچ سیاسی حوالے سے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس مہینے میں پاکستان کے عوام کو بہت کچھ بدلتا نظر آئے گا۔ سیاسی ہنڈیا کی تیاری کے بعد پکوان کا لطف عوام اپریل میں محسوس کریں گے لیکن عین ممکن ہے کہ دو اہم شخصیات اس پکوان سے لطف اندوز نہ ہو سکیں۔ تحریکِ عدم اعتماد کے کامیاب ہونے کی صورت میں وفاق میں وزیراعظم اور پنجاب میں وزیراعلیٰ کا انتخاب ایک نئے سیاسی محاذ کو جنم دے گا۔۔۔ دیکھتے ہیں یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اور آنے والے وقت میں سیاست کیا رنگ دکھاتی ہے۔۔۔

مصنف کے بارے میں