سربکف سربلند

سربکف سربلند

محترم حافظ محمد ادریس ایک ہمہ پہلو ہمہ جہت شخصیت ہیں۔ وہ جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی رہنما ہیں۔ جماعت اسلامی صوبہ پنجاب کے امیر کے علاوہ وہ کئی سال تک نائب امیر جماعت رہے ہیں۔ وہ داعی الی اللہ اور دلوں کی دنیا بدلنے والے مربّی ہیں،وہ ایسے مدرّس ہیں کہ جن کے دروسِ قرآن قلوب و اذہان کومسّخرکرتے ہیں، وہ فہم و فراست کی دہلیز پر ایمان و ایقان کی شمعیں روشن کرنے والے مصنف ہیں۔ وہ ایسے سیرت نگار ہیں جو اپنے قاری کی انگلی پکڑ کر اسے چودہ صدیاں پہلے کے دور باسعادت میں لے جاتے ہیں۔ وہ ایسے خطیب ہیں کہ جن کی خطابت زینہ زینہ دلوں میں اترتی ہے۔ یقینا ان کے بیان کردہ دورِصحابہؓ کے واقعات سے گداز یئِ دل کی دولت ملتی اور آنکھوں سے خشیت الٰہی کے موتی رواں ہوتے ہیں۔ اتنی صفات کیا کم ہیں کہ حافظ محمد ادریس کی منفرد حیثیت یہ بھی ہے کہ وہ افسانہ نگار ہیں۔ 
افسانہ نگاری ادب کی ایک مشکل لیکن پرکشش صنف ہے۔افسانہ پڑھنا بہت آسان لیکن لکھنا بہت مشکل ہے۔ افسانہ میں داستان گوئی بھی ہوتی ہے اورتخیل کی بلند پروازی بھی۔ کہانی کا تسلسل ہوتا ہے اور قاری کوہمہ وقت اپنی تحریرکے سحر میں جکڑنے والا اسلوب بیان بھی۔ بلاشبہ افسانہ کسی علمی و تحقیقی مضمون سے زیادہ پڑھاجاتا ہے۔ اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ معاشرے پر افسانوی ادب کی گرفت زیادہ گہری اور مضبوط ہوتی ہے۔ پھر وہ افسانہ نگار جو ادب برائے تفریح اور ادب برائے ادب کے قائل نہ ہوں بلکہ ادب برائے زندگی اور زندگی برائے بندگی کے علمبردارہوں اُن کے لیے افسانہ نگاری اور بھی مشکل ہوتی ہے کہ انہیں افسانے میں نظریے اور کہانی میں مقصدیت کابھی خیال رکھنا ہوتا ہے۔
افسانوی صنف کے لحاظ سے اسلامی ادب کو بھی بڑے بڑے قلم کاروں کی رفاقت وامامت حاصل رہی ہے۔ جیسے نسیم حجازی،جیلانی بی اے، سید اسعدگیلانی، فروغ احمد، محمدحسن عسکری،ابن فرید، ام زبیر،سلمیٰ یاسمین نجمی ام فاروق،نور احمد فریدی شمس الرحمن فاروقی،فضل من اللہ، آثم مرزا وغیرہ۔ان لوگوں کے بعد اس محاذ پر ایک خلا نظر آتا تھا جسے محترم حافظ محمد ادریس نے بڑی ادبی مہارت سے پُرکیا ہے۔ آپ کے افسانوں کے چارمجموعے چھپ چکے ہیں۔ حافظ صاحب درویش صفت ادیب ہیں۔ ”صدائے درویش“ ان کے کالموں کا عنوان ہوتا ہے۔ آپ کے افسانے ”دختر کشمیر“، ”ناقہئ بے زمام“، ”سرسوں کے پھول“ بھی نہایت دلچسپ اور سبق آموز ہیں۔ ان میں موصوف نے تبلیغ نہیں کی، مکمل طور پر رائج الوقت ادبی اصولوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے معاشرے کی اصلاح کا پیغام اپنے افسانوی کرداروں کے ذریعے کامیابی کے ساتھ پہنچایا ہے۔
ہماری رائے میں حافظ محمد ادریس کا افسانوی ادب میں ایک نمایاں مقام ہے۔ وہ افسانہ نگاری میں اپنی کہانی کو ہی مرکزی حیثیت دیتے ہیں۔ یعنی اپنے کرداروں کی زبان سے بڑی بڑی اسلامی تقاریر کرانے اور خطابت کے زور پر ہی اپنے افسانے کوآگے چلانے کی بجائے وہ کہانی کو خالص ادبی انداز میں آگے چلاتے ہیں۔ ان کی دعوت اور مقصد یت کہانی اور اس کے انجام میں ہی موجود ہوتی ہے۔اس لحاظ سے ان کی قاری پر گرفت مضبوط رہتی ہے یعنی قاری کو افسانے کا تسلسل ہی اپنے حصار میں لیے رکھتاہے۔ حتّٰی کہ جب افسانہ اپنے فطری انجام تک پہنچتا ہے تو قاری پر سوچ کے نئے دروازے کھل چکے ہوتے ہیں او روہ فکر ونظر کے نئے زاویوں سے آشنا ہوجاتا ہے۔ 
میرے سامنے حافظ محمد ادریس کے افسانوں کا دلچسپ مجموعہ”سربکف سربلند“ کے نام سے موجود ہے جسے قلم فاؤنڈیشن نے بار دیگر شائع کیاہے۔ علامہ عبدالستارعاصم نے اپنے ادارے کی روایات کے مطابق کتاب کوصوری و معنوی حسن سے مزّین کیا ہے۔ 200صفحات پر مشتمل یہ کتاب فی الواقع ایک ادبی شہ پارہ ہے۔
افسانوں کے موضوعات محض مقامی نہیں آفاقی اور روایتی نہیں نظریاتی ہیں۔مثلا افسانہ ”بابری مسجد“، ایودھیا میں غوری خاندان کے چشم وچراغ صغیر حسین غوری کی واردات قلبی کی داستان ہے۔ ایسی داستان جس میں قاری کی ملاقات شہاب الدین غوری سے بھی ہوتی ہے اور محمود غزنوی سے بھی،ظہیرالدین بابر سے بھی اور اورنگ زیب عالمگیر سے بھی۔
افسانہ ”مامتا کی نعمت“ ایک جج سرفراز کی اندرونی کشمکش کی داستان ہے کہ جس میں سیاسی دباؤ کے باوجود بالآخر جیت ضمیر کی ہوتی ہے۔”فطرت کی تعزیریں“ ایک ایسے مظلوم کی داستان ہے کہ بالآخر اس پرظلم کرنے والا مکافات عمل کا شکار ہوجاتاہے۔ غلیل کے نام سے ہمیں ارض فلسطین کے وہ جری سرفروش یاد آجاتے ہیں کہ جو یہودیوں کا مقابلہ غلیلوں سے کرتے ہیں۔ یروشلم کے شیخ سعید العامری کا گھرانہ فلسطینیوں کی داستان الم وغم اور ہجرت و عزیمت کا ایک روشن باب ہے۔”مظلوم کی آہ“ انسانیت کی خدمت کرنے والی ایک ایسی نرس کی داستان ہے کہ جس کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے والا بدکار بالآخر قدرت کی گرفت میں آکر نشان عبرت بن جاتا ہے۔ ”فیروز خان“ وڈیرہ شاہی اور ظلم کے خلاف عملی جہاد کرنے والے ایک جری و غیرت مند کردار کی کہانی ہے۔”فخر النساء تیموریہ“ ایک ایسے صاحب علم کی داستان ہے کہ جن کے دائرہ تربیت کا ایک جوان جبر کی شکار ایک مظلوم اور اپنے گندے ماحول کی باغی طوائف کو بالآخر اس ماحول سے نکالتا ہے۔ اور یہ منگول رانی اسی صاحب علم سے فخر النساء تیموریہ کاخطاب پاتی ہے۔ اسی طرح اس مجموعے کے افسانے ”کشمکش۔ تنہائیاں“، ”جنازہ“ اور”کالم نگا ر“مخصوص حالات  میں خاص کیفیات کے حامل ہیں۔
میں ان سطور کے ساتھ محترم حافظ محمد ادریس کے افسانوں کے مجموعے”سربکف سربلند“ کی اشاعت جدید کا خیر مقدم کرتا ہوں، دعا ہے کہ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔“

مصنف کے بارے میں