لوگوں کو واقعی باہر نہیں نکلنا چاہیے

لوگوں کو واقعی باہر نہیں نکلنا چاہیے

فارن فنڈنگ کیس کے حقائق سامنے آنے اور الیکشن کمیشن کی رپورٹ کے اگلے حصے کے انکشاف نتھیا گلی جیسے تفریحی مقام پر عمران خان کو بھاری چندے کی مدد فراہم کرنے والے امریکہ میں مقیم ایک پاکستانی کاروباری کو بڑی رقم پر مشتمل پر ہوٹل تعمیر کرنے کی اجازت دینے کی دوست نوازی کا باقاعدہ دستاویزی ثبوت ظاہر ہونے کی صورت میں ہمارے کھلاڑی کے صادق و امین ہونے کی ساکھ تو ہوا میں تحلیل ہو کر رہ گئی ہے… لیکن ملک بھر کے اخبارات کے کالموں، ٹیلی ویژن سکرینوں پر اٹھنے والے مباحث یہاں تک ڈرائنگ روم کی گفتگو میں ہر جگہ مسلسل ایک سوال پوچھا جا رہا ہے آخر ایسی ناقابل اعتبار حکومت کے خلاف سراپا احتجاج ہو کر لوگ سڑکوں پر کیوں نہیں نکل آتے؟ ماضی کی تحریکوں کی مانند اسے ایوان اقتدار سے اٹھا کیوں نہیں پھینکتے؟ کون سی رکاوٹ ان کے راستوں میں حائل ہے؟ ایک رائے ہے کہ اوپر والوں نے سگنل نہیں دیا… جس کے بغیر احتجاجی تحریکیں اپنے عروج کو نہیں پہنچتیں اور حکومتِ وقت کا تیاپانچا کر کے رکھ دیتی ہیں… دوسرا جواب یہ سامنے آتا ہے عوام تو تحریکیں چلا چلا کر تھک چکے ہیں… نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات! جب کوئی زبردست تحریک اپنے آخری نتائج دکھانے لگتی ہے تو پس پردہ بیٹھی ہوئی قوتیں اپنا کھیل کھیلنا شروع کر دیتی ہیں… خفیہ ہاتھ نمودار ہوتا ہے دیگ پر اپنا مصالحہ چھڑک کر اسے اچک کر لے جاتا ہے… جمہوریت اور عوامی حکومت قائم کرنے کا جھانسہ ضرور دیا جاتا ہے… عام انتخابات کا دلفریب و عدہ بھی ہوتا ہے… لیکن قوم اور ملک ایک دفعہ پھر نو دس سال کے نیم آمرانہ، نیم جمہوری چکر میں مبتلا ہو جاتے ہیں… یوں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بار بار کے تلخ تجربوں کے بعد پاکستان کے عوام کی بھاری اکثریت کے دلوں میں یہ احساس جاگزیں ہو چکا ہے اور انہوں نے غالباً سیاسی شعور کی اگلی منزل طے کرنا شروع کر دی ہے۔ سیاسی تحریکوں کے ذریعے یار لوگ ہماری تحریک کے ہر اہم موڑ پر اپنا کھیل کھیلنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے… ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک سے لے کر آج تک کی تاریخ اپنے ہر نام نہاد فیصلہ کن موڑ کے یہی سبق ہمیں یاد دلاتی ہے… لہٰذا کیوں نہ ہر مرتبہ کسی کے ہاتھ میں کھیلنے کی بجائے اپنے حتمی فیصلے خود کئے جائیں… بجائے اس کے سڑکوں پر نکل کر گلے پھاڑ پھاڑ کر سینے کوٹ کوٹ کر اور املاک کو نقصان پہنچا کر ایک حکومت کو جب وہ غیرآئینی حکمرانوں کی ناپسندیدہ بن جائے زبردستی گھر کی راہ دکھا دی جائے کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ آئین پاکستان کی بالادستی اور جمہوری عمل کی راہ ہموار کرنے کی خاطر ہم بیلٹ باکس پر پہنچ کر اپنے فیصلے خود کریں… ایسے شفاف اور آزاد انتخابات ہوا کریں جن کے نتائج پوری قوم تسلیم کر لے… گزشتہ ماہ صوبہ خیبر پختونخوا میں ہونے والے جزوی انتخابات نے ہمیں یہ راہ دکھا دی ہے اور اس کے پائیدار نتائج سے آگاہ کر دیا ہے… اب بھی اگر جب کہ بقیہ خیبرپختونخوا، پورے پنجاب، سندھ و بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات ہونے باقی ہیں ان کے انعقاد کے بعد 2023 میں پورے پاکستان کے اندر عام چنائو ہو گا… یہ سب کچھ اس ماحول میں روبہ عمل آئے گا… جب عمران خان کی کارکردگی کا تناسب آسمان سے زمین تک آ گرا ہو گا ان کی ایمانداری اور خارجہ پالیسی کے میدانوں میں کارکردگی کا پردہ پوری طرح چاک ہو گیا ہو گا تو کیوں نہ ان کی اگلی مہلت کے بارے میں حتمی 
فیصلہ عوام کی عدالت سے ہی کرایا جائے… بجائے اس کے کہ لاحاصل تحریکوں کے ذریعے تاریخ کے پہیے کو الٹا چلاتے ہیں…
پاکستان میں حزب مخالف کی تین بڑی ملک گیر جماعتوں مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علماء اسلام کو یہ آئینی اور جمہوری حق تو حاصل ہے کہ وہ کھلاڑی اور من موجی وزیراعظم کے خلاف عوام کے جذباتی احتجاج کو گرم رکھیں… اس کی اور اس کی حکومت کی فاش غلطیوں کو طشت ازبام کرتے رہیں… عوام کے شعور میں مسلسل بیداری پیدا کرنے کا عمل جاری رکھیں… اس نے اپنے مخالفین خاص طور پر نوازشریف اور اس کی مسلم لیگ کے خلاف جن الزامات کے تصوراتی محل تعمیر کئے اور ابھی تک کسی ایک کا ثبوت نہیں پیش کر سکے حالانکہ موصوف کی تضادبیانی کا عالم یہ ہے ’’شاعر کے الفاظ میں ’’لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا‘‘ اور یہ کہ ’’ہم الزام اُن کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا کے مترادف ان کی اپنی بددیانتی کے ثبوتوں کا چرچا مستند شواہد کے ساتھ زبان تلے عام ہو گیا ہے‘‘۔ حضرت موصوف کے پلے کچھ نہیں رہا جس اسٹیبلشمنٹ کا بڑا سہارا انہیں حاصل تھا وہ بھی ہاتھ کھینچتی نظر آ رہی ہے… زمین پائوں تلے سے نکلتی جا رہی ہے… اقتدار کی بنیادیں روز بروز لڑکھڑاتی نظر آ رہی ہیں… اپنی اور اپنی حکومت کے مؤثر دفاع کے لئے پاس کچھ نہیں رہا… پاکستان کی تاریخ کی مثالیں یہ بتاتی ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کو ایسی حکومت کو چلتا کرنے کی خاطر زیادہ ہمت اور زور کی ضرورت لاحق نہیں رہتی… حزبِ مخالف کے سیاستدانوں کی کمی نہیں رہتی…
لیکن جیسا کہ اسی بدقسمت تاریخ کے صفحات ہمیں بتاتے ہیں 1969 میں ایوب خان کی آمریت کے خلاف جو زبردست تحریک اٹھی اس کا حلوہ جنرل یحییٰ اور اس کے ساتھی جرنیلوں نے چٹ پٹ کر دکھایا… ملک تڑوایا پھر یہ جا وہ جا… حمود الرحمن رپورٹ آنے کے بعد کسی جرنیل کا ایک ٹکے کا احتساب نہ ہوا… بقیہ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو منتخب وزیراعظم کے طور پر برسراقتدار لائے گئے… چھ برس بعد ان کے دماغ میں یہ زعم سما گیا کہ 1977 کے چنائو کے اندر ہر حالت میں دوتہائی اکثریت حاصل کرنی چاہئے… یہ حقیقت پوری کرنے کی کوشش ہوئی تو ملک میں دائیں بازو کی قوتوں نے کراچی تا خیبر تک سر اٹھا لیا… احتجاجی تحریک کی زبردستی کامیابی میں کوئی شبہ نہ تھا لیکن وقت کی فوجی جنتا تاک لگا کر بیٹھی ہوئی تھی… انہوں نے پاکستان قومی اتحاد کے دو ایک سربرآوردہ لیڈروں کو ہاتھوں میں لیا اور نوبت تیسرے مارشل لاء تک جا پہنچی… جس نے گیارہ برس تک غیرجماعتی انتخابات کا وہ سوانگ رچایا اور دائیں بازو کی زبردست عوامی قوتوں کو اسلامی نظام کا جھانسہ دے کر اپنے آمرانہ نظام کو تقویت دیتا رہا… کہانی طویل ہے… قصہ مختصر کرتے ہیں… آج بھی یہی نوبت آ چکی ہے بے نظیر دو دفعہ آگئیں، نوازشریف تین دفعہ منتخب ہوا ہر دفعہ اسٹیبلشمنٹ کا راندئہ درگاہ بن کر اُڑا کر رکھ دیا گیا… حالانکہ اس نے اور اس سے ماقبل منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے سویلین حکمران ہونے کے باوجود قومی دفاع اور سرحدوں کی حفاظت کی… یہ لازوال خدمت تو کی کہ پاکستان کو ایٹمی قوت سے مسلح کر کے اس کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنادیا… وہ کام جو ہمارے زمینی لڑائیاں لڑنے والوں سے کبھی نہ ہو سکا وہ ہر دم پر غیرآئینی قوت کے ساتھ ملک پر یلغار کرتے رہے… ان کے عاقب نااندیشہ ادوار میں بھارت نے خوب خوب سٹرٹیجک فائدے حاصل کئے… وہ کشمیر ہڑپ کر چکا ہے… اب وہ چونکہ عمران خان سے ناراض ہو گئے ہیں… اس کی کھلی کرپشن کی وجہ سے نہیں اپنے خلاف لن ترانیوں کے سبب… لیکن سب سے بڑی اور سب سے مقبول سیاسی جماعت اور اس کا لیڈر نوازشریف ان کے ہاتھوں میں چڑھنے والا نہیں… لہٰذا لندن کے غیراعلانیہ مذاکرات میں شفاف ترین اور نہایت درجہ غیرجانبدارانہ انتخابات کا شدید تقاضا کر رہا ہے… خواہ عمران اپنی آئینی مدت مکمل کرلے حزب مخالف کی دوسری بڑی جماعتوں میں سے مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علماء اسلام ان کی ہم آواز نظر آتی ہے… پاکستان پیپلز پارٹی بھی پوری طرح نہیں تو نیم دروں نیمے بروں ان کے آئینی اور جمہوری مطالبے سے صریحاً انکار نہیں کر پا رہی… لہٰذا عمران خان کو ایک پائیدار آئینی اور جمہوری طریقے سے گھر کی راہ دکھانے کی خاطر عوامی عدالت سے براہ راست فیصلہ حاصل کیا جائے… اس لازمی شرط کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ اپنی براہ راست یا بالواسطہ مداخلت سے صریحاً اجتناب کرے تو پاکستان میں آئین کی بالادستی کا سورج طلوع ہو سکتا ہے… جمہوری عمل کی صبح نمودار ہو جائے گی اور ملک کی گاڑی ایک پائیدار سیاسی ٹریک پر چل نکلے گی… یہی بانیِ مملکت قائداعظم محمد علی جناحؒ کی خواہش تھی اور اسی کے ذریعے ہمارے مستقبل کی راہ روشن ہو سکتی ہے… اس لئے راقم کی بھی یہ عاجزانہ رائے ہے احتجاجی تحریکوں کا انتظار نہ کیا جائے اور آئندہ انتخابات جو شفاف اور صاف ستھرے ہوں کے انعقادکو ہر حالت میں یقینی بنائے…

مصنف کے بارے میں