ہر اک کالی رات کے پیچھے ایک سویرا ہوتا ہے

ہر اک کالی رات کے پیچھے ایک سویرا ہوتا ہے

2021ء رخصت ہوا۔ نئے شمسی سال میں ہم نے یہ دیکھنا چاہا کہ وزیراعظم نے فرمایا تھا کہ ’ہم ایک خاموش انقلاب لا رہے ہیں‘۔ تو اس کی نوعیت کیا ہے۔ مہنگائی جوں کی توں دن دوگنی رات چوگنی ترقی پر رواں دواں ہے۔ روز کی تازہ خبر میں باریاں لگاکر بجلی، گیس، پیٹرول مہنگے ہوتے ہیں۔ ان کے پیچھے تمام اشیائے صرف کے نرخ پرواز کرتے ہیں۔ عوام کی گردنیں آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی کو دیکھتے زرافے کی سی ہوچلی ہیں۔ ہمیں خاموش ان کہا انقلاب یہ ضرور محسوس ہوا کہ اس مرتبہ غیرمعمولی دھوم دھام سے کرسمس منایا گیا، نیا سال حسب سابق ہوائی فائرنگ کے ہاتھوں اس مرتبہ 18 افراد کو زخمی اور ایک جان کا نذرانہ وصول کرکے طلوع ہوا۔ کسی کی جان گئی آپ کی ’خوشی‘ ٹھہری۔ یہ مزید ہوا کہ جس جوش وجذبے سے یکایک پاکستان میں گوردوارے، مندر، چرچوں کی بحالی کا ڈول ڈالا گیا ہے، وہ حیران کن ہے۔ کرسمس یوں تھا گویا پاکستان کا قومی تہوار ہو۔ اب کے پی کے حکومت نے 109 اقلیتی عبادت گاہوں کی بحالی 513 ملین روپے کی لاگت سے کرنے کا فیصلہ فرمایا ہے۔ 19 مقامات پر پشاور میں بڑی رقوم مختص کی گئی ہیں، اس مقصد کے لیے 20 ملین ایک گردوارے، 20 ملین ایک چرچ اور 9 ملین ایک مندر پر لگائے جائیںگے۔ کرک مندر کا افتتاح ہمارے چیف جسٹس نے بڑے ذوق وشوق سے فرمایا تھا۔ وہ بہ نفس نفیس دیوالی کے ’مبارک‘ موقع پر ہندوؤں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور دیوالی مبارک کہنے گئے تھے۔ اب 215 ہندو یاتری پاکستان کے بھرپور گرمجوش استقبال کے جلو میں تشریف لائے ہیں۔ پی آئی اے چیف خود خیرمقدم کے لیے واہگہ بارڈر پہنچے۔ خصوصی پروازوں سے یاتری پشاور پہنچائے گئے۔ یوں یہ سال مندروں کی بحالی، شادابی اور آبادی کا سال قرار دیا جاسکتا ہے۔ کئی مقامات کے مندر اس ضمن میں نامزد کیے گئے ہیں۔ پی آئی اے چیف نے خوشخبری سنائی کہ سکھ اور بدھ مذہبی مقامات کو ایسی ہی رونقیں جلد فراہم کردی جائیںگی۔
چیف جسٹس گلزار کی اس ضمن میں کاوشیں عدلیہ کی تاریخ میں ثبت رہیںگی۔ وہ حیدرآباد شیو مندر بھی اکتوبر 2021ء میں ایک ہندو مذہبی تہوار میں اہل خانہ سمیت خصوصیت سے شریک ہوئے تھے۔ تاہم اقلیتوں کے تحفظ کے نام پر ریاست مدینہ میں مندروں، گوردواروں کا جال بچھاتے ہوئے مشرقی پنجاب میں ویران مساجد کی بحالی اور مودی حکومت کی مساجد کے خلاف یلغار کا کوئی نوٹس لینے کی ضرورت کیا محسوس کی گئی؟ اس کے برعکس طرفہ تماشا ہے کہ گڑے مندر ڈھونڈ ڈھونڈ کر آباد کیے جا رہے ہیں اور کراچی میں 25 سال سے رواں دواں 5 منزلہ مسجد، ہزاروں نمازیوں کی جائے سجود ڈھائے جانے کا حکم صادر ہوچکا۔ خالی مندر آباد کرکے باہر سے یاتری، پجاری لاکر حکومت ان کی آبادکاری کرے اور عوام کے شدید احتجاج (اس حکم کے خلاف) کے باوجود مدینہ مسجد پر دم سادھے منہ موڑے بیٹھے رہے؟ کیا یہی خاموش انقلاب ہے؟مسجد ڈھا دو مندر بنا دو؟ مسجد سے ملحقہ مدرسہ اور دکانیں گرا دی گئی ہیں۔ مسجد چیف جسٹس صاحب کے غیظ وغضب بھرے حکم کا سامنا کر رہی ہے۔ جسٹس گلزار صاحب نے انتظامیہ کو ڈپٹتے ہوئے کہا: ’تم لوگوں نے مسجد بناکر شہر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اسے ٹھیک کرنے کے لیے اسے (بارود سے) اڑا دینا ہوگا۔ یہ شہر جرمنی، جاپان اور پولینڈ کی طرح دوبارہ بنایا جائے گا۔‘ (دی نیوز۔ 28 دسمبر) گویا جاپان، جرمنی اور پولینڈ جس طرح جنگ سے ملبہ بنے تھے، یہاں عدالتی بموں سے عوام کو نسلہ ٹاور کا ملبہ اور اب خدانخواستہ مسجد کا ملبہ دیے جانے کو ہیں۔ آدھا شہر انتظامیہ کے ہاتھوں کچرا کنڈی بنا رہا۔ قبل ازیں 20 سالوں میں لاقانونیت کے جھکڑوں طوفانوں کے جھکولے کھاتا رہا۔ اب باری ہے عدلیہ کی۔ کراچی کے عوام جسم وروح کو چرکے لگاتے پے درپے انقلابوں کی زد میں پس رہے ہیں۔ مگر آپ نے گھبرانا نہیں ہے، خاموش انقلاب آ رہا ہے! پارک کے شوق میں مسجد گرانے کا حکم ہوا ہے۔ باوجودیکہ علاقے کے لوگ چلا چلاکر کہہ رہے ہیں کہ دو قدم پر جھیل پارک موجود ہے۔ ہمیں پارک نہیں مسجد چاہیے۔ یہ صرف بے نمازی سوشل میڈیا پر براجمان چیتے مسجد کے خلاف مہم میں شریک ہیں۔ یہ زمینیں پہلے بھی سوسائٹی (PECHS ) کی ملکیت تھیں۔ ضابطے سے بنی رجسٹرڈ مسجد ہے۔ عوام کی اولین ضرورت ہے مگر کیا عجب ہے کہ ایک طرف مذہبی سیاحت پر جوش وخروش سے کام کرکے اقلیتی عبادت گاہیں سجائی جا رہی ہیں اور عوام الناس سے ان کی عبادت گاہ چھین کر زمین بوس کرنے کے تہیے ہیں؟
 شریعت سے لاعلمی کی کوئی حد تو ہو۔ مسجد کے لیے وقف کردی گئی زمین گویا اللہ کو دے دی گئی۔ وقف کے احکام اس پر لاگو ہوتے ہیں۔ کیا سود پر اللہ سے جو جنگ لڑی جا رہی ہے، قرآنی احکام کے علی الرغم وہ کافی نہیں جو اب مسجد پر بھی مقابل آن کھڑے ہونے کا حوصلہ ہے؟اب بھی وقت ہے فیصلے پر نظرِثانی کا۔ اس مقابلے اور مخالفت پر آن کھڑے ہونے کی سورۃ المجادلۃ کی شدید ترین گرفت لرزا دینے کو کافی ہے۔ ترے دماغ میں بت خانہ ہوتو کیا کہیے کے مصداق حکومتی ’ریاست مدینہ‘ کے کھوکھلے دعوؤں کی حقیقت تو کھل ہی جاتی ہے۔ یہ خاموش نہیں بڑا گھن گرج والا انقلاب ہے۔ خدانخواستہ اللہ نے ازخود نوٹس لے لیا تو سہنے کی تاب کس میں ہے۔ مساجد، مدارس کا مسلسل پیچھا۔ ان کو چندہ دینے والوں کا تعاقب، حسابات کے درپے، 
ان کے لیے بینک اکاؤنٹ کھولنے مشکل اور رواداری کے نام پر ہمہ نوع کفر وشرک کی سہولت کاری! اللہ کے ہاں بھی سہولت کاریوں کے رجسٹر اور کھاتے تیار ہیں۔ مسجد پر انصاف درکار ہے۔ نظیر موجود ہے۔ اگر اسے غیرقانونی قرار دیا جا رہا ہے تو وزیراعظم کے 300 کنال سے زائد کے گھر کو 12 لاکھ 6 ہزار روپے جرمانہ وصول کرکے قانونی کردیا تھا۔ یہ مسجد اس حساب سے 8 ہزار روپے جرمانہ دے کر ریگولر ہوسکتی ہے سو کر دیجیے۔ ارض وسما کے مالک کو یہ جگہ دی تھی آپ کا قانون راضی نہیں تو وصول فرما لیجیے بڑے حوصلہ مند ہیں آپ! پاکستان میں قانون کی حکمرانی کا جو عالم ہے وہ ہم مسکین عوام کیا کہہ سکتے ہیں۔ البتہ ورلڈ جسٹس پراجیکٹ کے قانون کی حکمرانی کے پیمانے کے مطابق پاکستان 139 ممالک میں سے 130 ویں نمبر پر ہے۔ البتہ قانون کی حکمرانی سب سے زیادہ مساجد مدارس پر لاگو کرنے کا چلن ضرور ہے۔لال مسجد جامعہ حفصہ، بابری مسجد کے بعد تاریخی مقام رکھتی ہے۔ حیات ریذیڈنسی جیسی غیرقانونی، سیکورٹی کے لیے خطرہ قرار دی گئی، عالی شان لوگوں کی یہ عالی شان ملکیتیں قانون سے ماورا سر اٹھائے آج بھی کھڑی ہیں۔ یاد رہے کہ مری روڈ راولپنڈی کی توسیع کرتے ہوئے قادیانی عبادت گاہ ماورائے قانون بچائی گئی۔ اس جگہ شاہراہ تنگ اور مستقل ٹریفک جام گوارا ہیں۔ ورلڈ جسٹس والوں نے گو یہ گستاخی بھی کی تھی کہ پاکستان کو بدعنوانی، بنیادی حقوق اور سیکورٹی، تحفظ کے دگرگوں حالات کی بنا پر خطے کا بدترین ملک (دوسرے نمبر پر) قرار دیا تھا۔ ان کے منہ میں خاک کے سوا ہم کیا کہہ سکتے ہیں!
وزیر اطلاعات ونشریات نے (28 دسمبر) اپنی تقاریر میں قائداعظم کے حوالے سے انکشافات فرمائے ہیں۔ چودھری فواد حسین کے مطابق پاکستان اقلیتوں کے تحفظ کے لیے بنا تھا۔ (اکثریت یونہی ٹہلتی ٹہلتی سرحد پار کرکے آگئی تھی؟) ان کا یہ کہنا تھا کہ قائداعظم کے حوالے سے یہ کنفیوژن ہمیشہ کے لیے دور ہوجانی چاہیے کہ وہ ایک مذہبی ریاست چاہتے تھے۔ ایسا نہیں تھا (وہ فوادی ریاست چاہتے تھے)۔ یہ پاکستان کو ایک پسماندہ ملک بنانا چاہتے ہیں۔ (وہ سب لوگ جو قائداعظم کے نام سے لوگوں کو بے وقوف بنا رہے ہیں، بقول ان کے) انہوںنے قائداعظم کا پیغام اور تصورِ پاکستان عام کرنے کے لیے ایک تحریک کی ضرورت پر زور دیا۔ چلیے اس کا آغاز ہم کیے دیتے ہیں۔ 1945ء کا پیام عید (کرسمس نہیں) دیتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا: جاہلوں کی بات اور ہے ورنہ ہر کوئی جانتا ہے کہ قرآن مسلمانوں کا ہمہ گیر ضابطۂ حیات ہے۔ مذہبی، سماجی، شہری، کاروباری، عدالتی، فوجی، تعزیری اور قانونی ضابطۂ حیات جو مذہبی تقریبات سے لے کر روزمرہ زندگی کے معاملات تک، روح کی نجات سے جسم کی صحت تک، تمام افراد سے لے کر ایک فرد کے حقوق تک، اخلاق سے لے کر جرم تک، اس دنیا میں جزا وسزا سے لے کر اگلے جہان کی جزا سزا تک کی حدبندی کرتا ہے۔‘ خطبۂ لاہور میںقائداعظم نے جوانوں کو پکارا: ’جوانی کے جذبوں کی تپش اور شعلۂ ایمانی کو یک جا کر دیجیے تاکہ زندگی روشن تر ہوجائے اور ہماری آیندہ نسلوں کے لیے اس سے عمل کا ایک نیا جہان جنم لے۔‘ افغانستان میں ہم دیکھ چکے کہ: ہر ایک کالی رات کے پیچھے ایک سویرا ہوتا ہے!
اللہ ملکِ عزیز کی تیرہ شبی جلد یا بدیر دور فرمائے گا۔ ان شاء اللہ!

مصنف کے بارے میں