پنجاب کا معرکہ

پنجاب کا معرکہ

تین ماہ سے پنجاب میں جاری سیاسی بحران کا فیصلہ22جولائی کوہوجائے گا اسمبلی اجلاس کے لیے اِس معرکے پر پورے ملک کی نظریں ہیں کیونکہ اِس معرکے کا فاتح نہ صرف پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کا منصب سنبھالے گابلکہ اِس معرکے نے یہ فیصلہ بھی کرنا ہے کہ موجودہ اتحادی حکمران مزید اقتدار میں رہیں گے یا ملک نے عام انتخابات کی طرف جانا ہے کیونکہ پنجاب کا بحران وفاق پربھی اثرانداز ہوتا ہے سترہ جولائی کے ضمنی انتخاب کے ٹاکرے سے 22 جولائی کے متوقع سیاسی معرکے کے نتائج واضح ہو جائیں گے کیونکہ پنجاب اسمبلی میں حمزہ شہباز کی موجودہ برتری پی ٹی آئی کوملنے والی پانچ مخصوص نشستوں سے کافی کم ہو گئی ہے حالات کیا رُخ کرتے ہیں اور پنجاب کا کون حکمران ہوتا ہے؟ بے چینی سے انتظار کرنے والوں کو سترہ جولائی کے ضمنی انتخاب کے نتائج سے درست اندازہ لگانے میں آسانی ہو گی حکومت اور اپوزیشن دونوں ضمنی انتخاب جیتنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں بظاہر اپوزیشن کے بیانیے کوعوامی پذیرائی حاصل ہے لیکن جیتنے کے لیے الیکشن والے دن ووٹروں کو گھروں سے نکالنا اور ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے پولنگ سٹیشن تک پہنچانابھی اہم ہے اِس حوالے سے جو بھی جماعت کوتاہی کی مرتکب ہو گی نقصان کا سامنا کرے گی عمران خان اور مریم نواز کے متحرک ہونے سے پنجاب کا سیاسی ماحول خوب گرم ہے دونوں طرف سے جیت کے دعوے کرتے ہوئے الزام تراشی کے نشتر چلائے جا رہے ہیںجس سے سیاسی نبض شناس خدشہ ظاہر کرنے لگے ہیں کہ ضمنی الیکشن بڑی کشمکش اور ٹکرائو کا موجب بن سکتا ہے کیونکہ اِس سے پنجاب کے حکمران کا فیصلہ ہونے کے ساتھ کس جماعت کا بیانیہ عوام کو پسند ہے؟کی وضاحت بھی ہو جائے گی ملکی حالات خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں مہنگائی میں تیرہ فیصد اضافہ ہو چکا جو ملکی تاریخ کا ایک نیا ریکارڈ ہے عالمی مارکیٹ میں تیل کے نرخ  جب گرتے جارہے ہیں پاکستان میں قیمتیں بڑھائی جارہی ہیںآئی ایم ایف کے مطالبات بڑھتے جارہے ہیں جو ووٹرز کے فیصلے پرکسی حد تک اثر انداز ہوں گے جس سے حکومت کے لیے مشکل صورتحال پیدا ہو سکتی ہے لیکن ووٹروں کو گھروں سے نکالنے اور پولنگ سٹیشن پہنچانے سے حالات کو سازگار بنایا جا سکتاہے ۔
کچھ عرصہ سے سیاسی فیصلے بھی عدالتوں میں ہونے لگے ہیں لاہور ہائیکورٹ کا ڈپٹی سپیکر کو اختیارات کی منتقلی کا فیصلہ اپوزیشن نے سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے تو حکومت بھی مخصوص نشستوں کے متعلق ہونے والے فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کر چکی ہے 22جولائی کے معرکے کو سپریم کورٹ نے پنچایتی طور پر حل کرتے ہوئے گدلے سیاسی ماحول سے الگ رہنے کی کوشش کی اور فریقین کے اتفاقِ رائے سے ہی 22 جولائی کو رائے شماری کا دن مقرر کیا ہے اِس پنچایتی فیصلے پر کسی فریق کی طرف سے تنقید نہیں ہوئی بلکہ دونوں 
طرف سے اِس عزم کا اظہار کیا جارہا ہے کہ فیصلے پر اُس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے گا مگرسوال یہ ہے کہ سیاستدان بحران پیداہی کیوںکرتے ہیں اورپھر اپنے تنازعات خود حل کرنے کی کوشش کیوں نہیںکرتے ؟ اگر یہ خود مل بیٹھ کرتصفیہ کرلیا کریں تو نہ صرف اِن کی اپنی ساکھ بہتر ہوگی بلکہ اِداروں پر تنقید کی روایت بھی دم توڑ ہو سکتی ہے۔
 چند ماہ سے سیاسی اختلافِ رائے دشمنی کے قالب میں ڈھلنے لگا ہے یہ طرزِ عمل قابل تحسین یا قابلِ تعریف نہیں کیونکہ اِس طرزِ عمل سے پنجاب ہی نہیں پورے ملک کا سیاسی ماحول پراگندہ ہو رہا ہے اختلافِ رائے کودشمنی بنانے سے کسی کا بھلا نہیں ہو سکتا بلکہ ملک و قوم کا بھی نقصان ہونے کا احتمال ہے اگر ضمنی انتخاب صاف شفاف نہیں ہوتے اور بیرونی مداخلت سے نتائج تبدیل کیے جاتے ہیں تو نئی سیاسی تحریک جنم لے گی جس سے ملک میں انتشار پیداہوگا قبل از وقت ہی اپوزیشن کی طرف سے دھاندلی کے الزامات عائد کیے جانے لگے ہیں اب یہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی غیر جانبداری یقینی بناکرایسے صاف شفاف انتخاب کرائے جس کے نتائج سبھی تسلیم کریں پنجاب کی مخصوص نشستوں کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کے دوران تاخیری حربے اپنانے کی بناپر پہلے ہی اپوزیشن اُس سے خفاہے پی ٹی آئی ایک سے زائد بار تحفظات کا کھلے الفاظ میں اظہار کرچکی آخرکار عدالتی فیصلے کی وجہ سے مجبوراََ نوٹیفکیشن کیاگیا الیکشن کمیشن کے تاخیری حربوں سے اپوزیشن کو اچھا پیغام نہیں گیاعلاوہ ازیں شنیدہ حلقے وثوق سے کہنے لگے ہیں کہ ضمنی الیکشن کے قریب الیکشن کمیشن کی طرف سے فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنانے کی تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں اور یہ کہ فیصلہ پی ٹی آئی کے خلاف ہے متوقع فیصلے کی رو سے نہ صرف جماعت سے انتخابی نشان بلا چھن سکتا ہے بلکہ پوری جماعت کالعدم ہونے کا بھی امکان ہے اِس طرح پی ٹی آئی کے لیے اتنی مشکل صورتحال پیدا ہو گی جس سے سیاسی گرما گرمی میں اضافہ ہوگا عمران خان جو حکمرانوں کو مافیا کہتے ہیں انھیں یہ فیصلہ بھی حکومتی ہدایت کا شاخسانہ قرار دینے کا بہانہ ملے گا ۔
پنجاب میں 22جولائی کو اختیارات اوروسائل کا تجربے کاری سے مقابلہ ہو گاعدالتی فیصلے کی رو سے حمزہ شہباز نہ صرف بطوروزیرِاعلیٰ برقرار ہیں بلکہ حکومتی مشینری بھی بدستور اُن کے تابع ہے اسی بناپر بظاہر حکومتی اتحاد کو برتری حاصل ہے اور اگر ضمنی انتخاب میں بھی حکومت اکثریت حاصل کر لیتی ہے یا نصف نشستیں ہی جیت جاتی ہے جس کا امکان موجود ہے تو نہ صرف حمزہ شہباز کا اقتدار مستحکم ہو گا بلکہ وفاق میں حکمران اتحاد کو بھی تقویت ملے گی ایسا ہونے سے عمران خان بیانیے کی نفی ہو گی مگر یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بطور وزیرِ اعظم شہازشریف انتخابی ماحول میں شریک نہیں ہو سکتے نہ ہی حمزہ شہباز الیکشن مہم میں شامل ہو سکتے ہیں انھیں جو بھی کرنا ہوگا پسِ پردہ رہ کرہی کرنا ہوگا مریم نواز البتہ متحرک ہے ضمنی انتخاب کے بعد 22 جولائی کا معرکہ جیتنا آسان نہیں اختیار و وسائل کا اِس بار تجربے کاری سے سخت مقابلہ ہونے جارہا ہے چوہدری پرویز الٰہی اتنی آسانی سے کسی کو وزارتِ علیہ لے جانے نہیں دیں گے وفاق میں اسد قیصر سمیت جس طرح حکومتی عہدیدار یکے بعد دیگرے سرنڈر کرتے گئے سپیکر پنجاب اسمبلی بھی ایسا کریں گے ممکن نہیںپہلے بھی انھوں نے ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی کوشش کی آئندہ بھی وہ ہر حد تک جائیں گے سپیکر کے عدمِ تعاون سے ہی پہلی بار حکمران جماعت نے اسمبلی کی عمارت میں اجلاس کرنے کے بجائے دوسری جگہ بجٹ اجلاس رکھا علاوہ ازیںبطور جہاندیدہ سیاستدان چوہدری پرویز الٰہی کو جوڑ توڑ کے خوب ہتھکنڈ ے معلوم ہیں اسی بنا پر کچھ سیاسی رمز شناس 22جولائی کواَپ سیٹ کا امکان ظاہر کرتے ہیں حکومتی حلقوں نے حسبِ روایت دھونس سے کام لینے کی کوشش کی تواپوزیشن نہ صرف سخت مزاحمت کرے گی بلکہ نئی سیاسی اور عدالتی لڑائی کا آغازہو سکتاہے حکومت کو بخوبی معلوم ہونا چاہیے مقابلہ عثمان بزدار سے نہیں چوہدری پرویز الٰہی کی تجربہ کاری سے ہے کاش 22جولائی کے معرکے سے سیاسی استحکام آجائے کیونکہ نئی سیاسی محاذ آرائی معاشی آتش فشاں پر کھڑے ملک کی بنیادیں ہلا سکتی ہے بڑھتی مایوسی ،بے یقینی اور بے چینی کا احساس کرتے ہوئے اگر فریقین نے تحمل سے کام لیا تو ملک کی سیاسی فضا میں بہتری آئے گی۔

مصنف کے بارے میں