خلائی مخلوق سے رابطہ انسانیت کے لیے خطرناک ہوسکتا ہے

خلائی مخلوق سے رابطہ انسانیت کے لیے خطرناک ہوسکتا ہے

جب بھی کسی ذہین خلائی مخلوق کا تصور ذہن میں آتا ہے تو بات ان کی تلاش تک جا پہنچتی ہے۔ وہ ہمیں کیسے مل سکتی ہے؟ وہ کہاں ہے؟ کیا ان کا وجود بھی ہے؟ اگر وہ مل جائیں یا وہ ہمیں ڈھونڈ نکالیں تو ہمیں کیا قدم اٹھانے چاہئیں؟

ماہر طبیعیات اسٹیفن ہاکنگ کہتے ہں کہ ہمیں خلائی مخلوق کی تلاش کو سرے سے ختم کر دینا چاہیے، کیونکہ کسی بھی ایسی تہذیب تک رسائی کی کوشش انسانیت اور زمین کو خطرناک صورت حال سے دوچار کر سکتی ہے۔ لیکن بری خبر یہ ہے کہ ہم کئی سالوں سے کائنات کے مختلف حصوں میں اپنی زمین کے بارے میں پیغامات پھیلا رہے ہیں۔

اسٹیفن ہاکنگ کا یہ انتباہ نئی آن لائن فلم "اسٹیفن ہاکنگز فیورٹ پلیسز" میں آیا ہے۔ جس میں وہ کہتے ہیں کہ جیسے جیسے میں بڑا ہوتا گیا مجھے یقین ہوتا چلا گیا کہ ہم اس کائنات میں اکیلے نہيں ہیں۔ زندگی بھر اس حیرانگی میں رہنے کے بعد میں اس تلاش کی نئی عالمی کوشش میں مدد دے رہا ہوں۔ "بریک تھرو لسن پروجیکٹ" زندگی کی تلاش کے لیے قریبی ترین لاکھوں ستاروں کو چھانے گا۔ ہو سکتا ہے کہ کسی روز ہمیں گلیز 832سی جیسے سیاروں سے کوئی سگنل ملے، لیکن ہمیں اس کا جواب دینے میں محتاط ہونا چاہیے۔" یہ سیارہ 16 نوری سال کے فاصلے پر ہے اور ہاکنگ کے خیال میں یہاں زندگی ہو سکتی ہے۔

کائنات میں کسی ذہین مخلوق کا پتہ چلانے کے لیے غیر معمولی کوششوں کے باوجود ہاکنگ ان سے رابطہ کرنے کے سب سے بڑے ناقدین میں سے ایک ہیں۔ ان کے خیال میں ایسا کوئی بھی قدم انسانیت کو خطرے میں ڈال دے گا کیونکہ دور دراز خلائی مخلوق ہمیں کمزور کے طور پر دیکھ سکتی ہے اور حملہ کرنے کے لیے بہترین مقام سمجھ سکتی ہے۔

ہاکنگ اس کے لیے کولمبس کے سفر امریکا کی مثال پیش کرتے ہیں کہ کیا ہو سکتا تھا اگر کوئی جدید تہذیب ہماری وجود کا علم حاصل کرلے تو۔ ان کے خیال میں پہلی ملاقات ہی کچھ مثبت نہیں ہوگی۔ اس خیال کی وجہ یہ ہے کہ جو خلائی مخلوق ہمارے بھیجے گئے سگنل پکڑ اور سمجھ سکتی ہے وہ ہو سکتا ہے کہ ہم سے کہیں زیادہ جدید تہذیب رکھتی ہے اور ہمیں آسان ہدف سمجھ کر کچل سکتی ہے۔