مری میں انسانیت کاقتل

مری میں انسانیت کاقتل

سمجھ نہیں آرہاکہ یہ ملک ہے یاکوئی جنگل۔؟اس طرح توکسی جنگل میں بھی نہیں ہوتاہوگاجوکچھ یہاں ہورہاہے۔یہ اگرملک ہوتاتوکیاایک اوردونہیں دودرجن کے قریب جیتے جاگتے انسان اس طرح کھلے آسمان تلے سردی سے ٹھٹھرٹھٹھرکرمرتے۔؟مری میں دھوم دھام سے نکلنے والے انسانیت کے جنازے کودیکھ کریہ محسوس ہورہاہے کہ ہم جس نگری میں رہ رہے ہیں یہ نہ کوئی ملک ہے اورنہ یہاں کوئی انسانیت۔ کیا انسانوں کی نگری اور انسانیت کے نام پرقائم معاشرے میں اپنے ہی انسانوں کے ساتھ ایساسلوک ہوتاہے۔؟ مری کے چوکوں اورچوراہوں پرانسانیت سسک سسک اورتڑپ تڑپ کرمرتی رہی اورانسان سوئے رہے۔ہم کیسے انسان ہیں کہ ہم نے مری میں انسانیت کا کوئی خیال رکھا اور نہ کوئی لحاظ۔اس طرح کاواقعہ اگرسچ میں انسانیت سے پیارکرنے والے کسی ملک اورمعاشرے میں رونماہوتاتوآپ  یقین کریں صدر،وزیراعظم،وزیر،مشیراوروزیراعلیٰ کیا۔؟وہاں کاایک ایک فرداورانسان شرم کے مارے کب کامرچکاہوتالیکن یہاں انسانیت کاسرعام جنازہ نکلنے پرکوئی ٹس سے مس نہیں ہو رہا۔ اس اندوہناک واقعہ پر کچھ شرم کرنے یا چلو بھر پانی میں ڈوب کر مرنے کے بجائے یہاں ہرشخص چین کی بانسری بجارہاہے۔کوئی ایک شخص یافردبھی اگراپنے گریبان میں جھانک کراپنی غلطی،کوتاہی اورنااہلی کاکوئی اعتراف کرتاتوواللہ اتنادکھ،افسوس اورصدمہ پھربھی نہ پہنچتاپرافسوس صدافسوس یہاں توانسانیت کے جنازے کواپناکندھادینے والے بھی فرشتے بن کرایسے پھراوربول رہے ہیں کہ جیسے ان سے بڑھ کراس مٹی پرانسانیت کے علمبردار اور محافظ اورکوئی نہ ہوں۔اس ملک میں صدر اور وزیراعظم سے لیکر ایک چوکیدار تک اگر ہر فرد اور شخص انسانیت کا اتنا بڑا علمبردار اور ٹھیکیدار ہے توسوال یہ ہے کہ انسانیت کے اتنے علمبرداروں اور ٹھیکیداروں کے ہوتے ہوئے وفاقی دارالحکومت سے کچھ ہی فاصلے پرمری کے چوکوں اورچوراہوں پرانسانیت سرعام رسواکیوں ہوئی۔؟سانحہ مری میں جان سے جان والے دودرجن کے قریب بے گناہ انسانوں کاخون اگرمقامی انتظامیہ،حکومت اورمری کے مفادپرست تاجروں کے سرنہیں توپھرانسانیت کی اس رسوائی ،تذلیل اورخون کاذمہ دارکون ہے۔؟سانحہ مری میں شہیدہونے والے سیاح اپنی لاپروائی کی وجہ سے مرے یاتاجروں کی بے حسی کے باعث۔وجہ چاہے جوبھی ہولیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اس سانحہ کی ذمہ دارحکومت صرف حکومت ہے۔کیارعایاکی جان ومال کاتحفظ حکومت وریاست کی ذمہ داری نہیں ہوتی۔؟ریاست کو تو ماں کادرجہ دیا جاتا ہے۔ کیاکوئی ماں اپنے بچوں سے اس طرح بے خبر یا لاعلم رہ سکتی ہے۔ ریاست کے درجنوں بچے ریاست ہی کے اندر کھلے آسمان تلے چوکوں اورچوراہوں میں سردی سے ٹھٹھرتے اور طوفانی ہوائوں سے کانپتے رہے مگرماں کوان کی خبرتک نہ ہوئی۔یہ کیسی ماں ہے کہ جوماچس کی ایک ڈبی اور نسوارکی ایک پڑی پرٹیکس لینے سے توبے خبراورلاعلم نہیں ہوتی لیکن بات جب بچوں کے تحفظ،خیال اورفکرکی آتی ہے تویہی ماں پھر اندھی،بہری اورگونگی بن جاتی ہے۔آپ یقین کریں اب کی بارتواس ماں نے ہمیں شرمندہ بہت شرمندہ کر دیا ہے۔ اس ملک میںاب کوئی انسانیت کا علمبردار بنے یا ٹھیکیدار۔ سچ تویہ ہے کہ سانحہ مری ہمارے ماتھے پروہ بدنماداغ ہے کہ جسے اب ہم برسوں تک دھونہیں سکیں گے۔اب کسی بھی اجنبی سے ہماراسامناہوگاتووہ ہم سے یہ سوال پوچھے بغیرنہیں رہ سکے گاکہ تم وہی ہوجن کے قریب مری کی وادیوں میں انسانیت سسک سسک اورتڑپ تڑپ کرمرتی رہی اورتم سوئے رہے۔غافل،ظالم،بے حس اورلاپروا اگرصرف حکمران ہوتے پھربھی کوئی بات تھی لیکن یہاں توپورامعاملہ ہی غفلت، لاپروائی، بے حسی اورظلمت کانکلا۔حکمران اگرلمبی تان کرنرم گرم کمروں میں سوئے رہے تو  عوام کون سے خواب غفلت سے بیدار رہے۔ شب ظلمت کی تاریکیوں میں جو بیداررہے وہ بھی تومری کی ہوائوں اورفضائوں میں ظلمت ہی کو ہوا دیتے رہے۔ وقت گزرنے پر یہاں پھر ہم سب بڑے نیک، ولی اور فرشتے بن جاتے ہیں لیکن ہمارے اندرکاحرص اورلالچ اس قدربے حس اورظالم ہے کہ وقت آنے پروہ پھر رحم، کرم، انسان،انسانیت ،قبر، حشر اور خدا اور رسول کو بھی بھول جاتاہے۔یہاں بھوکے کے منہ میں نوالہ ڈالنے اورننگے کے جسم کوکپڑے سے ڈھانپنے کی نہیں بلکہ بھوکے کے منہ سے نوالہ اورننگے کے جسم سے کپڑا چھیننے اورکسنے کی عادت ہے۔کسی کی مجبوری، لاچاری اوربے بسی سے فائدہ اٹھانا توکوئی ہم سے سیکھیں۔کہنے کو توہم سب بڑے متقی اور پرہیزگار ہیں۔ پانچ وقت نمازوں کے ساتھ حج اورعمرے بھی ہم بڑے کرتے ہیں۔ تسبیح توہروقت ہمارے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ہم میں سے اسی نوے فیصدکے ماتھوں پرتومحراب بھی بنے ہوئے ہیں۔ لیکن۔ ہماراماضی اور حال گواہ ہے کہ نماز، روزوں، تسبیح، حج اورعمرے کے باوجودجب بھی کوئی مجبور، کوئی لاچار اور کوئی بے بس ہمارے سامنے آیا ہے توہم نے ان کے منہ سے نوالہ اورننگے جسم سے کپڑے کا آخری ٹکڑا وسہارا چھیننے سے بھی کبھی دریغ نہیں کیا۔ایساہی کچھ اب ہم نے مری میں بھی کیا۔ ایک ایک کمرے کا چالیس پچاس ہزارکرایہ،پانی کے ایک بوتل اورایک روٹی وانڈے کی پانچ سوقیمت کیایہ کوئی انسانیت ہے۔؟لوگ کہتے ہیں کہ مری میں سیاح مر گئے نہیں مری میں سیاح نہیں مرے،سیاح آج بھی زندہ ہیں ۔مری میں انسانیت صرف انسانیت مری ہے۔ ہمارے اندرذرہ بھی کوئی انسانیت ہوتی تومری کے اندرسیاح کبھی نہ مرتے۔سیاح ہماری حیوانیت اورجنونیت کی بھینٹ چڑھے۔ مری میں اس سانحے کے بعدجوہوٹل اورگیسٹ ہائوسزوالے بڑے نیک ،متقی اوررحم دل بن کراپنے دامن پھیلارہے تھے یہی نیک، متقی اوررحم دل اس وقت کہاں تھے جب ان کے انہی ہوٹلز اور گیسٹ ہائوسزکی دہلیزپران سیاحوں کو لوٹا اور دھتکارا جا رہا تھا۔ یہی وہ ولی توتھے جوپہلے ان سیاحوں کوڈستے اوردونوں ہاتھوں سے لوٹتے رہے پھرجب ان کی خباثت،ظلم اورلالچ کاپوری دنیاکے سامنے پردہ چاک ہواتویہ ولی بن گئے۔ سانحہ مری کے بعدجس طرح ہم سب انسانیت کے ہمدرد،غمخوار،نیک،متقی اور پرہیزگار بنے۔ انسانیت کایہی دکھ اور درد اگر ہمیں پہلے ہوتا۔ ہم اگرپہلے اس طرح انسانیت کے علمبردار اور ٹھیکیدار بن کردکھاتے تویہ سانحہ ہی رونمانہ ہوتا۔ سانحہ مری میں جان سے جانے والوں کاخون صرف حکمرانوں نہیں بلکہ ہم سب کے سرہیں۔اس ظلم کا ہم سب کوحساب دیناہوگا۔سانحہ مری یہ چند انسانوں کی موت کامعاملہ نہیں بلکہ یہ انسانیت کے قتل کاایک ایساواقعہ ہے کہ جسے اب کوئی بھی فراموش نہیں کرسکے گا۔اب چیخنے اورچلانے کا کوئی فائدہ نہیں ۔وقت آگیاہے کہ انسانیت کے ایسے دشمنوں کونشان عبرت بناکر اس دھرتی پربچ جانے والے سیاحوں کوآئندہ کے لئے ایسے سانحات وواقعات سے بچایاجائے ورنہ کل کو یہاں کوئی بھی مفاد پرست، لالچی اورظالم اسی طرح مجبوروں، لاچاروں اوربے بسوں کاسرعام چوکوں اور چوراہوںپر بے گناہ خون بہا کر انسانیت کاجنازہ نکالنے سے کبھی دریغ نہیں کرے گا۔