تلخ حقائق

تلخ حقائق

ملک بھر میں سیلاب کی تباہ کاریوں نے دل دماغ پر دھند طاری کر رکھی ہے۔ بات صرف یہ نہیں ہے کہ جانی اور مالی نقصان ناقابل تلافی ہے۔ ایکڑوں پر کھڑی تیار لہلہاتی فصلوں کی شادابی کا کیچڑ بن جانا اذیت دہ ہے۔ وہ مناظر جن میں قیمتی ترین جان داؤ پر لگاکر بچا لانے والا ساز وسامان صرف ایک چارپائی، گدا، چند مسلے کپڑوں کی پوٹلیاں اور خوراک کے نام پر ایک مسکین تھیلے کا مال ومتاع ہے۔ ملک کے بڑے شہروں، ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں دمکتی گاڑیوں، وسیع وعریض بنگلوں میں اکڑی گردنوں والی مخلوق، بھرے شاپنگ مالز میں ٹرالیاں بھر بھر کر خریداریاں کرنے والوں کا نام پاکستان نہیں ہے۔ اس وقت حقیقی پاکستان کا ایکسرے سیلاب کی تصاویر اور ویڈیوز میں نظر آرہا ہے۔ حقائق بے انتہا تلخ ہیں۔ ان کا سامنا کرنے، ملک کے حقیقی مسائل کا ادراک کرکے منصوبہ بندی کرنے، پچھڑے پڑے عوام کے آنسو پونچھنے، بہتر مستقبل کی یقین دہانی کروانے کے لیے جس قومی یکجہتی دردمندی کی ضرورت تھی وہ دور دور دکھائی نہیں دیتی۔ یقینا حکومت اور ادارے اپنی سی کوشش میں لگے ہیں۔ رضاکار درد دل کے ساتھ جتے ہوئے ہیں لیکن سیلاب کے پس منظر میں تکبر رعونت کے ساتھ حکومت طلب تحریک انصاف کے گاتے بجاتے جلسے لٹے پٹے عوام پر ٹوٹی بلاؤں سے کلیتاً بے نیاز کسی اور ہی دنیا کے باسی نظر آتے ہیں۔ اس قیامت میں جب قوم کا پیسہ ہر طرف سے بچاکر صرف سیلاب زدگان کی جلد از جلد بحالی میں لگا کھپا دینے کی ضرورت تھی یہ بے حسی کی انتہا ہے۔ اسلام آباد پولیس، پنجاب، کے پی، آزاد کشمیر سبھی کی پولیس کے باری باری جابجا پہرے، درجنوں گاڑیوں کی جلو میں سیاسی جلسوں پر کروڑوں جھونکتے یہ عمران خان ہیں! نہ تہہ در تہہ سیاہ بادلوں کی گھمبیرتا، نہ ہی کالے بھنور بناتے، غراتے پانی کی منہ زور لہریں ان کی کرسی کی خواہش پر اثرانداز ہوتی ہیں۔
 2012ء میں نیویارک نیوجرسی میں شدید سمندری طوفان کی لہروں اور تند وتیز ہواؤں نے نیویارک سٹیٹ کو تلپٹ کیا تھا۔ 68.7 ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔ صدر اوباما، اپنے عوام سے منہ موڑے سیاست اور افغانستان کی جنگ کی مصروفیت میں بے نیاز بنا کھویا نہ رہا۔ اس کا دل بھی جھک گیا، دکھ گیا۔ اس نے کہا: ’یہ سب دوبارہ کبھی بھی ویسا نہیں بن سکے گا۔ فطرت/ قدرت کی طاقت وقوت کے سامنے ہم بے بس اور عاجز ہیں۔‘ لوگوں نے کہا: یہ (المیہ) دل توڑکر رکھ دینے والا ہے۔ (بربادی) ایسی ہے گویا یہ جنگ زدہ علاقہ ہو! ان کے ہاں قیادت صرف پھنکاریں مارنے، للکارنے اور رعب گانٹھنے کا نام نہیں۔ باوجودیکہ اوباما ذہین وفطین وکیل، مصنف، زبردست مقرر تھا، لیکن تباہی بربادی کے سامنے عجز کا اظہار ہے۔
 واللہ اس وقت غم صرف وسائل کی تباہی کا نہیں، لیڈری کے دعویداروں کے سیرت وکردار کا خوفناک بحران، اس صورت حال کو سنبھالنے اور عوام کی مشکلات سے منہ موڑے سیاست مچانے والے سے نمٹنے کی عدم صلاحیت کا غم ہے۔ یہ راز کیا ہے کہ مسلسل سامنے آتے پی ٹی آئی کے کرپشن، فراڈ، جھوٹ، خردبرد، سکینڈل در سکینڈل۔ سبھی پر مسلسل سفیدی پھیر کر کلین چٹ دے دی جاتی ہے۔ عدلیہ منہ موڑ لیتی ہے۔ نیوٹرل، مزید نیوٹرل ہوئے چلے جاتے ہیں۔ کھلے جلسوں میں’ذرا اسلامی ٹچ دیں‘ کہہ کر عوام کو احمق بنانا۔ ’بیرونی سازش ٹچ‘ دے کر عوام کے جذبات سے کھیلنا۔ پس پردہ امریکا سے مکمل ہم آہنگی، پشت پناہی۔ سیلاب سے منہ موڑے مفلس قوم کا سالانہ 24 کروڑ بنی گالہ کی سیکورٹی پر تباہ کروانا۔ کرسی کا نشہ منشیات سے کم ہوش گم کرنے والا نہیں ہوتا۔ سو اس دو آتشے میں جو کچھ جنوں میں فرما رہے ہیں مسلسل، کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔ عجب جہل کا دور دورہ ہے۔ کہنے لگے: ’پاکستان کی آبادی 1947ء میں 40 کروڑ تھی‘۔ انہی کے متوالے نے درستی کرنے کو لقمہ دیا: نہیں 40 لاکھ تھی! جرمنی کی 
سرحدیں جاپان سے ملا دیں۔ ایک لاکھ 40 ہزار پیغمبر بنا دیے۔ غرض لامنتہا ہوائیاں تاریخ جغرافیہ، بین الاقوامی امور سے متعلق چھوڑی ہوئی ہیں۔ دینی حوالے سے جو کچھ لغویات بے دھڑک اگلی ہیں وہ اگرچہ ’نقلِ کفر کفر نباشد‘ ہے مگر وقت کا زیاں بھی ہے اور ایمان شکن بھی۔ خواہ مخواہ کوئی آگ بگولہ ہوکر چڑھ دوڑا تو ایف آئی آر کٹے گی۔ اس سیرت وکردار اور علم دانی پر خود کو احتیاط سے وہ(Statesman) ، معتبر قائد، عزت مآب سیاست دان تک کہہ گزرے! حالانکہ اصلاً تو Batsman ہی تھے۔ سیاست میں آکر امریکی فلمی تصوراتی کردار، Batman رہ گئے۔ جس پر مغرب نواز برگر بچے پالے گئے۔ اس تخیلاتی سپر ہیرو کی تصویری کتب، فلموں نے 1940ء سے ذہن سازی کا کام کیا۔ ’بیٹ مین‘نام نہاد اقدار کا محافظ، جنگجویانہ مزاج، دولت مند، خودساختہ انصاف پسندی کا مرقع۔ (جس کے تحت 3 ہزار، نائن الیون پر مرنے والوں کے بدلے 3 مسلم ممالک اجاڑ دینے کا انصاف ہوا۔) آج کا برگر نوجوان طبقہ قرآن وحدیث اور اس کے عطا کردہ بہادر، شجاع بے خوف انبیاء سرداروں، صحابہؓ کی جگہ ایسے تخیلاتی کرداروں پر ہی پالے جا رہے ہیں۔ حقیقی دنیا میں مضبوط راست بازکردار اور یتیموں کا آقا غریبوں کا والی، جیسے سیرت وکردار پیپسی پیتے، بلے لہراتے چھکے مارتے تو نہیں بن سکتے۔
 یہ سارے تذکرے اس درد کے تحت ہیں کہ یہ سوشل میڈیا جنگجو اور ان کے ہیرو اگر کیچڑ اور پانی میں اترکر غرباء ومساکین سے دلسوزی وہمدردی کا ثبوت دیتے تو وہ انہیں تخت طاؤس پر بٹھا دیتے۔ لیکن توجہ سے دیکھیے تو سوشل میڈیا انقلابات میں آپ کو ٹرمپ اور اس کے سیاسی لشکر کی وائٹ ہاؤس پر چڑھائی، اور پارلیمنٹ پر PTI کی چڑھائی (2014ء) میں مماثلث دکھائی دے گی۔ عین یہی سب کچھ مودی کے ہاں ٹوئٹس اور سوشل میڈیا کے ذریعے جنون، بی جے پی اور آر ایس ایس میں دکھائی دے گا۔ ایک دیوانی جنگجویانہ ذہن سازی جس کا ردعمل امریکا، بھارت اور اب پاکستان میں یکساں دکھائی دے رہا ہے۔ بھارت میں گائے پر ذبح ہوتے مسلمان، مسجد اذان حجاب نماز کے خلاف مہم۔ اخلاقیات کا جنازہ  ہر جگہ۔ تکبر، گھمنڈ، خود راست بازی (Self-righteousness) کا خمار آپ کو تینوں جگہ ایک سا ملے گا۔ یہ فتنۂ دجال ہی کا شاخسانہ ہے۔ ٹرمپ نے ان ذرائع کو استعمال کرکے یہودی داماد اور بیٹی کے ذریعے صہیونی مقاصد کو خوب بڑھاوا دیا۔ مشرق وسطیٰ کا پورا منظرنامہ بدل کر رکھ دیا۔ اسرائیل کے لیے مسلم ممالک میں تعلقات کی استواری اسی دیوانگی اور جنون کے پردے میں آگے بڑھی۔ بھارت کی غیرمعمولی پذیرائی مشرق وسطی اور امریکا میں ہوئی۔ سوشل میڈیا سے پروان چڑھی یہی سیاست اب پاکستانیوں کے اعصاب سے کھیل رہی ہے۔ دجالی فتنے کا ایک اور حصہ احادیث کی رو سے، عورت کا دجال (دجالچوں) کی طرف دیوانہ وار لپکنا، حتیٰ کہ آدمی اپنی ماں، بیٹی، بہن، پھوپھی کی طرف جائے گا اور انہیں باندھے گا اس ڈر سے کہ کہیں وہ دجال سے نہ جا ملیں، کا تذکرہ ملتا ہے۔ یہاں صورت حال مختلف نہیں۔ عورت جو بہت دردمندی دلسوزی رکھتی ہے، بجائے سیلاب زدگان کی مدد کے لیے لپکنے (ماسوا دینی خواتین) کے، عمرانی جلسوں پر ٹوٹی پڑ رہی ہیں۔ گجرات کے جلسے میں عورتوں کی ریکارڈ حاضری کا تذکرہ ہے۔ اب اندازہ کیجیے مسلسل پاکستان ڈوبے چلا جا رہا ہے۔ مزید بارش متوقع ہے۔ منچھر جھیل بپھر اٹھی، بے گھری میں اضافہ۔ آنے والا وقت قحط کے اندیشے لیے آ رہا ہے۔ بنیادی ضروری فصلوں سے محروم ہو گئے۔ پانی کھڑا ہے نہ اترا جلد تو گندم کی بوائی نہ ہو سکے گی۔ اترے گا کیسے؟ اللہ کا حکم درکار ہے۔ ’اے زمین اپنا پانی نگل جا۔‘ رجوع الی اللہ درکار ہے۔ 
نیویارک میں سمندری طوفان کے بعد ماہر موسمیات کا کہنا تھا 2020ء میں، کہ ہم 8 سال بعد بھی اس کے اثرات سے نہیں نکلے۔ حالانکہ ان کے ہاں افراتفری اور عوام کی قسمتوں سے کھیلنے کا یہ سماں نہ تھا۔ اپوزیشن کی بے دردی کا یہ عالم کہ شیخ رشید امید سے بھر کر یہ کہہ رہے ہیں: جلد کارخانے بند ہوںگے اور لوگ سڑکوں پر ہوں گے۔ کبھی سری لنکا بنانے کی ’کاش‘ کا اظہار۔ ایسے خودساختہ بے رحم ’سپر لیڈروں‘ کو حکمران بننے دیا جائے؟ راہ ہموار کی جائے؟ عدلیہ پچکارے؟ نیوٹرل منہ موڑ لیں۔ کیا راز ہے؟ عالمی اسٹیبلشمنٹ کی منصوبہ بندی ہے کیا؟ افغانستان کے بعد کیا اب پاکستان کی باری ہے؟ اس وقت ’الیکشن‘ کی بات کرنا اور سیاسی جلسوں میں الزامات کی بوچھاڑ؟ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کا حکومت سے نکلنا یا نکال دیا جانا سراسر ان کی بچت کا سامان کرگیا۔ وہ معیشت تباہ کرکے اب جوابدہی کے کنارے پہنچ چکے تھے کہ نکال دیے گئے اور الزامات کے سارے ٹوکرے اگلی حکومت کے سر پر آپ الٹنے کے قابل بنا دیے گئے! مہنگائی کا سیلاب اور بے روزگاری، ڈالر روپے کی دھینگامشتی سبھی کچھ انصافی حکومت کی دین تھی۔ وہ اس سے صاف بچ نکلے اور جوتیوں کا یہ ہار نئی حکومت کے گلے آن پڑا۔ رہی سہی کسر سیلاب سے پوری ہوگئی۔ تحریک انصاف بے حسی کی آخری انتہا پر آئس کریم برگر کھاتے پیپسی پیتے، دلدل میں پھنسی قوم کو ٹوئیٹوں پر ٹرخا رہی ہے۔ ہوائی خلائی امداد کے وعدے ٹیلی تھون پر۔ ہینگ لگی نہ پھٹکڑی رنگ بھی چوکھا! دو ارب کے نرے وعدے…! کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا۔ عدلیہ کو ملک اور قوم سے محبت اور ان کا درد ہے تو کروڑوں روپے ان مقدموں کی مد میں بہانے کی بجائے، سیلاب سے بحالی تک سب کی زبان بندی کرواکر بنی گالہ مقدس گائے کو ادب سے پہرے میں بٹھا دیں۔ یہ اس وقت قوم کی یکسوئی، امداد اور اللہ کے حضور مغفرت طلب سجدوں، کاروبار زندگی چلانے کے لیے ازبس لازم ہے۔ بحالی ہوگی تو کرسی بھی ہوگی!