چینی لے گئے کھیڑے

چینی لے گئے کھیڑے

پٹرول کے بعد بجلی کے بل، اسکے بعد چینی ملک میں بسنے والے ہر شخص پر ستم ڈھا چکی۔ اطلاع آئی ہے کہ درجن سے زائد ایسے افراد کے نام ایف ائی اے کو بھجوائے گئے ہیں جو ایک خفیہ رپورٹ کے مطابق چینی کی ذخیرہ اندوزی، سمگلنگ میں ملوث تھے۔ موجودہ دور میں کوئی چیز خفیہ رہنا بہت مشکل ہے۔ کبھی کبھار تو مسٹر خفیہ خود جا کر ملزمان کو بتا دیتے ہیں کہ آپ کے خلاف فلاں الزامات کی بنیاد پر گرفتاری کا حکم آ چکا ہے برائے مہربانی ضمانت قبل از گرفتاری کرا لیں۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ گھر کے صدر دروازے پر گرفتار کرنے والے آئے تو گھر کے عقبی دروازے پر فرار کی تمام سہولتیں موجود تھیں، یہ منظر اکثر عدالتوں میں بھی نظر آتا ہے، ملزم کے فرار ہونے کے بعد گرفتار کرنے والوں کو خیال آتا ہے کہ انہوں نے ضمانت خارج ہونے پر ملزم کو گرفتار کرنا تھا۔ یہ بالکل اسی انداز میں ہوتا ہے جیسے دو بسوں کے تصادم میں درجنوں افراد جاں بحق ہو جاتے ہیں لیکن حادثے کے ذمہ دار ڈرائیور اور کنڈکٹر جائے حادثہ سے فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یاد پڑتا ہے نیازی زمانے میں چینی کے حوالے سے ایسی ہی صورت پیدا ہوئی تھی 65 روپے کلو والی چینی 85 روپے کلو ہوگئی تھی۔ ہا ہا کار مچی تو حکومت حرکت میں آئی خفیہ رپورٹ تیار ہوئی جس میں بتایا گیا کہ اس گراں فروشی کی وجوہات کیا ہیں اور اس میں کون کون ملوث ہے، خیال کیا جا رہا تھا کہ نیازی حکومت اپنی ساکھ بچانے کیلئے کسی کو رعایت نہ دے گی اور دو چار بڑے مگر مچھوں کو نشان عبرت بنا دیا جائیگا۔ بات کچھ آگے بڑھی تو معلوم ہوا کہ ایکسپورٹ کی اجازت اس وقت کے وزیر اعظم کے دستخطوں سے دی گئی لیکن چینی ایکسپورٹ نہ کی گی بلکہ کاغذوں ہی کاغذوں میں ملک سے باہر ہوئی پھر ملک میں چینی کم پڑ جانے پر کاغذوں میں ہی امپورٹ ہو کر مہنگے داموں بازار میں آ گئی۔ مزید تحقیقات ہوئیں تو معلوم ہوا اس دھندے میں برہمن گروپ ملوث ہے پس کچھ نہ ہوا۔ ایک بھی شودر ملوث پایا جاتا تو شاید پھانسی پر لٹکا دیا جاتا۔ مسابقتی کمیشن اس معاملے پر منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھا رہا۔ برہمن بازی جیت گئے اور عین یقین کے ساتھ انہوں نے دوسری واردات کی تیاری شروع کر دی جو اب سامنے آئی ہے سکرپٹ پرانا ہے، ادا کار بھی پرانے ہی نہیں بلکہ منجھے ہوئے ہیں۔ اس مرتبہ بھی انہوں نے پی ڈی ایم حکومت کو باور کرایا کہ چینی کی ریکارڈ پیداوار ہوئی ہے لہٰذا برآمد کی اجازت دی جائے۔ جنہوں نے اجازت دینا تھی ان میں سے بیشتر شوگر ملوں کے مالکان یا مالکان کے عزیز و اقارب تھے، اجازت دے دی گئی۔ چینی برآمد ہو گئی برآمد کے بعد چینی ”شارٹ“ ہو گئی۔ شارٹ ہونے کی خبر مارکیٹ میں آنے کے بعد پھر لوٹ مار کا بازارگرم ہو جاتا ہے اور چینی مافیا اربوں روپے کی دیہاڑی لگانے میں کامیاب ہو جاتا ہے، اس مرتبہ ہینگ و پھٹکری لگائے بغیر ہی رنگ چوکھا آگیا اور شور بھی چوکھا ہی اٹھا۔ چینی مافیا عدالت سے سٹے  لے آیا جو آج تک پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ سیکرٹری خوراک اسکے خلاف اپیل میں گئے۔ مافیا نے اپیل کی تاریخ ہی نہ آنے دی، مافیا جیت گیا۔ دیانت دار افسر ہار گیا، وہ اپیل میں کیوں گیا اس گناہ کی سزا میں اسے تاریخ کر دیا گیا۔ کسی میں ہمت نہیں کہ وہ ان سے بھی پوچھیں جن کے پاس اپیل ذلیل ہو رہی ہے۔ چینی بحران بڑھنے پر مسابقتی کمیشن کے ترجمان نے اس مرتبہ بیان جاری کرنا مناسب ہی نہیں ضروری سمجھا، فرماتے ہیں ہم چینی کے بحران پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ مجھے پاکستان کی پہلی رنگین اور کامیاب ترین فلم ”ہیر رانجھا“ یاد آ گئی جس میں ہیر کے کردار میں اداکارہ فردوس نے ناظرین کو بتایا کہ ”وارث شاہ“ کی ہیر کیسی تھی۔ اس فلم کے ایک منظر میں ہیر کا چچا کیدو اپنے بھتیجے فلم سٹار رنگیلا سے کہتا ہے کہ ذرا رانجھے اور ہیر پر نظر رکھنا میں شہر جا رہا ہوں کل واپس آؤں گا۔ رنگیلا اسے جواب میں کہتا ہے میں نے ہیر پر تو بہت عرصے سے نظر رکھی ہوئی ہے اب اُدھر نے نظر اٹھا کر رانجھے پر رکھ لیتا ہوں۔ آپ بے فکر ہو کر شہر جائیں۔ کیدو شہر چلا جاتا ہے ہیر رانجھا پیار کی پینگیں بڑھاتے رہتے ہیں اس محبت کا انجام یوں ہوتا ہے کہ رانجھے کے مخالف گروپ کے لوگ حملہ کرتے ہیں رانجھا زخمی ہو کر بے ہوش ہو جاتا ہے اور مخالفین جو اس رشتے سے خوش نہ تھے، یعنی کھیڑا گروپ، ہیر کو اٹھا لے جاتا ہے۔
مسابقتی کمیشن نے بھی کچھ اسی طرح کی نظر چینی بحران پر رکھی ہوئی تھی انکی نظر شاید کمزور تھی وقت کے کھیڑے آئے اور چینی مارکیٹ سے اٹھا کر لے گئے۔ عوام چیختے رہ گئے چینی اغوا ہو گئی۔ رانجھے کو ہوش اس وقت آیا جب چینی کھیڑوں کی ہو چکی تھی۔ عام آدمی کی ہیر اس طرح ہر دور میں اٹھا لی جاتی ہے۔ فرض کر لیجئے خفیہ ادارے کی رپورٹ کے مطابق لسٹ میں دیئے گئے افراد کی گرفتاریاں ہو جاتی ہیں پھر اس کے بعد وہ نہیں ہو سکتا جو گذشتہ مرتبہ ہوا تھا۔ برہمنوں نے چینی برآمد کرنے کا حکومتی فیصلہ سامنے رکھ دینا ہے اور سب کے منہ بند ہو جائیں گے، جنہوں نے طویل عرصہ سٹے خارج نہ ہونے دیا، انہیں سزا کون دے گا، یہاں تو روشن دن میں قتل کرنے والے کو ضمانت کی سہولت حاصل ہے۔ ضمانت کا سیدھا سا طلب ہے کیس کمزور پڑ جانا، کمزور کہیں آگے نہیں بڑھتے ختم ہو جاتے ہیں، اس میں سیاسی غیر سیاسی اور سماجی ہر طرح کے کیس شامل ہیں۔
حکومت پُر عزم ہے کہ چینی چوروں کو نشان عبرت بنا دے گی بہت اچھی بات ہے۔ کاش ایسا ہوتا ہم سب دیکھیں حقیقت حال تو یہ ہے کہ روشن دن میں کھیڑے چینی اٹھا لے گئے، چینی چیختی رہ گئی کوئی مدد کو نہ آیا، قانون نہ قانون کے رکھوالے۔ ہیر واپس نہ آ سکی، اسی طرح چینی بھی واپس نہ آئے گی۔ رانجھے روتے رہ جاتے ہیں، آئیے مل کر روئیں۔