بجٹ اور بارودی سرنگیں

بجٹ اور بارودی سرنگیں

پاکستان کی 71 سالہ تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں آپ کو آمروں سمیت کوئی حکمران میر جعفر نظر آئے گا نہ میر صادق۔ یہ بجا کہ ہر دَور میں کرپشن بھی ہوئی اور حکمرانوں نے ’’کرسی‘‘ بچانے کے لیے مقدور بھر حربے بھی استعمال کیے لیکن وطن، عزیز کی سلامتی کو ہمیشہ مدِنظر رکھا۔ ہم نے کبھی عمران خاں سمیت کسی حاکم کو سکیورٹی رِسک نہیں قرار دیا لیکن آج جو حقائق سامنے آرہے ہیں وہ کسی اور ہی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ سابق وزیرِداخلہ شیخ رشید نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں انکشاف کیا کہ اُسے 4 ماہ پہلے آئی بی نے بتا دیا تھاکہ عمران خاں کی حکومت ختم ہو رہی ہے۔ شیخ رشید کے مطابق جب اُس نے عمران خاں کو یہی بات بتائی تو خان نے کہا کہ اُسے پہلے ہی علم ہے۔ اِسی لیے عمران خاں نے آنے والی حکومت کو ناکام کرنے کے لیے ’’بارودی سرنگیں‘‘ بچھائیں اور آئی ایم ایف سے ملک کو تباہ کرنے والے معاہدے کیے۔ شیخ رشید کے اِس بیان کی تصدیق اِس حقیقت سے بھی ہوتی ہے کہ نومبر 2021ء کے آخر میں آئی ایم ایف نے پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی قسط جاری کرنے کا ابتدائی معاہدہ کیا اور فروری 2022ء میں قرضے کی قسط جاری کر دی۔ اصل بارودی سرنگ اُس وقت سامنے آئی جب عمران خاں نے آئی ایم ایف سے معاہدے کے برعکس پٹرولیم مصنوعات اور بجلی پر سبسڈی ختم کرنے کے بجائے ڈیزل اور پٹرول کی قیمت میں 10 روپے فی لیٹر اور بجلی میں5 روپے فی یونٹ کمی کا اعلان کرتے ہوئے ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ یہ قیمتیں جون 2022ء کے بجٹ تک برقرار رہیں گی۔ آئی ایم ایف سے معاہدے کی خلاف ورزی کا یہ اثر ہوا کہ بین الاقوامی مالیاتی منڈی میں پاکستان پر سُرخ لکیر کھینچ دی گئی اور دوست ممالک بھی اتنے محتاط ہوگئے کہ اُنہوں نے مدد کرنے سے پہلے آئی ایم ایف سے معاملات درست کرنے کی شرط عائد کر دی۔ 
اب موجودہ اتحادی حکومت کے سامنے آئی ایم ایف کا عفریت مُنہ پھاڑے کھڑا ہے اور حکمرانوں کی حالت یہ کہ ’’نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں‘‘۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں 60 روپے فی لیٹر اضافے کے باوجود آئی ایم ایف کی شرائط برقرار ہیں۔ وزیرِخزانہ مفتاح اسماعیل نے اعلان کیا ہے کہ جولائی سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بین الاقوامی مارکیٹ کے مطابق ہوںگی۔ جب پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں 30 روپے فی لیٹر اضافے کا اعلان کیا گیا تھا تب مفتاح اسماعیل نے کہا تھا کہ حکومت اب بھی پٹرول پر 9 روپے فی لیٹر سبسڈی دے رہی ہے۔ عرض ہے کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے سے 
اب پاکستان میں پٹرول پر دی جانے والی سبسڈی 23 روپے اور ڈیزل پر 55 روپے فی لیٹر تک بڑھ چکی ہے۔ ماہِ جولائی تک پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافے کا خدشہ ہے جس سے سبسڈی میں بھی اضافہ ہوگا۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ اگر ماہِ جولائی میں آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کیا جاتا ہے تو مہنگائی کا ایسا طوفان اُٹھے گا کہ ہر ’’کہ ومہ‘‘ سڑکوں پر ہوگا اور اگر شرائط پر عمل درآمد نہیں ہوتا تو خُدا نخواستہ پاکستان دیوالیہ ہو جائے گا۔ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ ایک ہی دفعہ سبسڈی ختم کر دی جاتی اور آئی ایم ایف سے معاہدہ طے پا جاتا۔ موجودہ حکومت کی اِس حماقت کے باوجودیہ سب کیا دھرا عمران خاں کا ہے جسے اتحادی حکومت تو بھگتے گی ہی، قوم کا بھی بُرا حشر ہو گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ’’فتنۂ عمرانیہ‘‘ کی یہ سازش ملک کو خاکم بدہن انارکی کی طرف لے جائے گی جس کا صرف اور صرف عمران خاں ذمہ دار ہوگا۔ 
ہمیں بخوبی علم ہے کہ آج بھی عمران خاں سے محبت کرنے اور اُسے اپنا ہیرو قرار دینے والوں کی پاکستان میں کثیر تعداد موجود ہے۔ یہ ہر کسی کا حق ہے کہ کون کس کو اور کتنا پسند یا نا پسند کرتا ہے۔ ہمارا عمران خاں کے چاہنے والوںسے مطالبہ ہے تو فقط اتنا کہ سُنی سنائی باتوں پر اعتبار کرنے کے بجائے کبھی اپنے طور پر بھی حقائق تک رسائی کی کوشش کر لیا کریں۔ سٹیٹ بینک کی اپنی رپورٹ کے مطابق پاکستان نے 71 سال میں کل 25 ہزار ارب قرضہ لیا گیا جبکہ نئے پاکستان والوں نے ساڑھے 3 سال میں اُس کا 80 فیصد یعنی 20 ہزار ارب قرضہ لے لیا۔ ہمیں اِس قرض وصولی پر تو کوئی اعتراض نہیں لیکن یہ قرض کہاں صرف ہوا، اِس کا سابقہ حکومت کے پاس کوئی جواب نہیں۔ جب پیسے اللوں تللوں اور کرپشن میں صرف ہوں گے تو پھر ایسا تو ہونا ہی تھا۔ کرسی چھِن جانے کے باوجود ریاستِ مدینہ کی تشکیل کا داعی آج بھی ہیلی کاپٹروں اور جہازوں کے بغیر سفر کرنا پسند نہیں کرتا۔ شنید ہے کہ جب سابقہ حکومت مہنگائی میں پِسی قوم کو ’’گھبرانا نہیں‘‘ کا درس دے رہی تھی عین اُسی وقت2 وی وی آئی پی طیارے خریدے گئے جن کی مینٹیننس کے لیے ایک ارب روپے سے زائد رقم مختص کی گئی۔ فرح گوگی، بشریٰ بی بی اور عثمان بزدار جیسے لوگوں نے کیا کمایا یہ الگ کہانی ہے لیکن خود عمران خاں نے اقرار کیا کہ اُس نے توشہ خانے کے تحائف بیچے اور جب اُن سے اِن تحائف کے بارے میں سوال ہوا تو فرمایا ’’میرے تحفے میری مرضی‘‘۔ پھر ساتھ ہی کہہ دیا کہ یہ تحائف بیچ کر گھر تک جانے والی سڑک بنوائی۔ یہاں بھی خان نے حسبِ سابق جھوٹ بولا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب صلح جُو میاں نوازشریف 2013ء کا الیکشن جیتنے کے بعد عمران خاں سے ملنے بنی گالہ گئے تو مخدوم جاوید ہاشمی کے مطابق عمران خاں نے میاں صاحب سے درخواست کی کہ اُن کے گھر تک سڑک بنوا دی جائے جس پر فوری عمل درآمد ہوا۔ محسن کُش عمران خاں نے اِس سڑک کا کریڈٹ بھی خود لینے کی کوشش کی لیکن یہ کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ خاںصاحب کی محسن کُشی کی داستانیں تو زباں زدِعام ہیں البتہ ایک جگہ وہ بھی مار کھا گئے۔ جس اسٹیبلشمنٹ نے عمران خاںکو گود میں کھلایا اور شیروانی تک پہنچایا، اُسی کے خلاف جب وہ تلوار سونت کر باہر نکلے تو نتیجہ سب کے سامنے کہ اب وہ کبھی خیبرپختونخوا میں پناہ لیتے ہیں تو کبھی حفاظتی ضمانت کے زور پر بنی گالہ میں ۔ حالت یہ ہے کہ وہ بنی گالہ میں خود ساختہ نظربندی اختیار کیے بیٹھے ہیں۔ 
یہ سب کچھ تو رکھیں ایک طرف سوال یہ ہے کہ عمران خاں نے اتحادی حکومت کے لیے جو سرنگیں بچھائیں اور جس امریکی خط کا حوالہ دیا، اُس کے پیچھے کون سی سازش کارفرما تھی؟۔ شیخ رشید کے مطابق جب 4 ماہ پہلے ہی خاںصاحب کو پتہ چل چکا تھا کہ اُن کی حکومت کا خاتمہ ہونے والا ہے تو پھر 7 مارچ 2022ء کو ملنے والے امریکی سازشی خط کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے۔ اپنے ایک خطاب میں عمران خاں نے یہاں تک کہہ دیاتھا کہ اُنہیں جولائی 2021 میں ہی پتہ چل چکا تھا کہ اپوزیشن اُن کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے کی تگ ودَو میں ہے۔ اِس لیے کہا جا سکتا ہے کہ خاں نے امریکی سازشی خط والا ڈرامہ رچایا اور اتحادی حکومت کی راہ میں بارودی سرنگیں بچھا کر الگ ہو گئے۔ اب یہ تاریخ ہی فیصلہ کرے گی کہ ارضِ پاکستان کا میر جعفر کون تھا۔ 
10 جون2022ء کو اتحادی حکومت نے اگلے مالی سال کاخسارے کا بجٹ پیش کر دیا۔ اِس بجٹ کا حجم 9502 ارب روپے جبکہ خسارہ 3798 ارب روپے ہے۔ اِس بجٹ کی راہ میں بچھائی جانے والی بارودی سرنگوں سے بچ کر نکلنا کسی معجزے سے کم نہ ہوگا۔ معاشی تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ بجٹ اتنا سخت نہیں ہے جس کی توقع کی جا رہی تھی بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ ایک سہولت دینے والا بجٹ ہے ۔ حقیقت یہ کہ بجٹ ہمیشہ الفاظ کا گورکھ دھندہ ہوتا ہے اور اُس کی اصل صورت اُسی وقت سامنے آتی ہے جب اُس پر عمل درآمد کیا جائے۔ ہوتا یہی ہے کہ بجٹ کے کچھ عرصے بعد ہی ’’مِنی بجٹ‘‘ آنا شروع ہو جاتے ہیں اور اصل بجٹ دور کہیں اندھیروں میں گُم ہو جاتا ہے۔ اتحادی حکومت نے اِس بجٹ میں عوام کو سہولت دینے کی کوشش تو ضرور کی ہے لیکن سوال یہ کہ کیا اِس پر عمل درآمد ممکن ہوگا؟۔ اِس بجٹ کا تمام تر انحصار آئی ایم ایف کی قرضہ منظوری پر ہے اور آئی ایم ایف کی شرائط اتنی سخت کہ جن پر عمل درآمد اگر ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے۔

مصنف کے بارے میں