طاقت ہی کمزوری ہوا کرتی ہے

Asif Anayat, Pakistan, Naibaat newspaper,e-paper, Lahore

پچھلے تقریباً ایک ہفتہ سے پوری قوم ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہے وہ قوم بقول غالب!جس کے سامنے 
بازیچہئ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
والا معاملہ ہے۔ الحمد للہ اس مزید لازوال قوم کے سامنے ٹرانسفر پوسٹنگ، حکمرانوں کی تبدیلیاں، درآمدات اور برآمدات سب ہیں مگر سوشل میڈیا پر دانشوروں نے جو لمحہ بہ لمحہ رپورٹنگ کی حالانکہ قوم 1947ء سے بالعموم اور 1970ء سے بالخصوص جبکہ 5 جولائی 1977ء سے با ہوش و حواس خمسہ باخبر ہیں۔ 
چلیں ایک خاص پارٹی جو وطن عزیز کی تاریخ 1992ء سے شروع کرتی ہے، تاریخ کے حقائق اس کے علم سے محروم ہوں تو بات سمجھ آتی ہے کیونکہ وہ ریاست مدینہ بھی دیکھنا چاہتے ہیں اور جنسی بے راہ روی، شراب کو شہد میں بدلنا ذاتی مسئلہ بھی قرار دیتی ہے۔ 
بات صرف اتنی ہے کہ جوجس چیز کا شوقین ہوتا ہے وہی اس کے انجام کا سبب بنتی ہے۔ 
جو کسی کی طاقت ہوتی ہے وہی اس کی کمزوری بن جاتی ہے۔ میرے بڑے بھائی اللہ سلامت رکھے گلزار احمد بٹ (سینئر سپرنٹنڈنٹ جیل) میری تحریروں کا تجزیہ کرتے ہیں کہ گریٹ بھٹو کے گرد گھومتی ہیں میں نے کہا بھائی جان وطن عزیز کی سیاست سے گریٹ بھٹو، عظیم محترمہ بے نظیر بھٹو، مادر جمہوریت محترمہ نصرت بھٹو کے کردار کو ہذف کر دیں تو وطن عزیز کی سیاست میں ڈرائنگ روموں میں ہونے والی دلالی کے علاوہ رکھا ہی کیا ہے۔ ابھی کل ڈاکٹر عبدالقدیر خانؒکو دفنایا گیا۔ گریٹ بھٹو کی ایوب دور سے ملک کو ایٹمی قوت بنانے کی خواہش تھی مگر ایوب خان نے یہ کہہ کر ردکر دی کہ ضرورت پڑنے پر بازار سے لے لیں گے جیسے ”مرغ چنے لینے ہوں“ بہرحال بھٹو صاحب کے ڈاکٹر صاحب کو پاکستان لانے کی روداد اور ایٹمی پروگرام کی تاریخ سے سب واقف ہیں۔ یاد رہے کہ سیٹھ عابد کا بقول ڈاکٹر صاحب کے ایٹمی پروگرام میں زیرو کردار بھی نہیں ہے۔ 10 اکتوبر سے ڈاکٹر قدیر خانؒ ٹی وی کی خبروں میں تھے۔ مگر لوگوں کے لاشعور میں گریٹ بھٹو کا مکمل کردار تھا۔ یوں تو گریٹ بھٹو صاحب اور ڈاکٹر صاحب کی ان گنت خفیہ ملاقاتیں ہوں گی جن میں سے ایک ملاقات احمد صادق پرنسپل سیکرٹری وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹوشہیدؒ کے حوالے سے ہمارے ایک دوست بتاتے ہیں ایک رات گریٹ بھٹو صاحب نے محترمہ نصرت بھٹوخاتون اول کو ساتھ لیا پروٹوکول کے بغیر کسی کو بتائے بغیر وزیراعظم ہاؤس سے نکلے کار خاتون اول ڈرائیو کر رہی تھیں۔جن کی طرف جا رہے تھے انہیں درخواست تھی کہ آپ کے علاوہ کوئی اور گھر میں نہ ہو حتیٰ کہ آپ کی شریک حیات بھی۔ سیدھے ڈاکٹر عبدالقدیر خانؒ کے گھر چلے گئے۔ گھر میں کوئی چائے بنانے والا بھی نہ تھا۔ خاتون اول نے چائے بنائی۔ جب ڈاکٹر صاحب چائے کی چینک پکڑ کر چائے کپوں میں ڈال کر بنانے لگے تو گریٹ بھٹو صاحب نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا کہ ان ہاتھوں سے چائے نہیں مجھے کچھ اور بنوانا ہے پھر ان کے درمیان وطن سے عشق کے عہدوپیماں ہوئے جو اموات بھی نہ کھول سکیں۔ مگر افسوس کہ اس لمحے کے معاہدے کرنے والوں کے ساتھ جو ہوا وہ تاریخ کا سیاہ باب رہے گا۔ گریٹ بھٹو سولی چڑھ گئے۔ دھماکے کرنے والے ملک بدر ہوئے۔ میزائل ٹیکنالوجی دینے والی چوک میں ساری دنیا کے سامنے شہید کر دی گئیں اور سائنس دان تنہائی میں چلا گیا بطور سائنسدان 4 اپریل 2004ء کو وفات پائی دفنایا 10 اکتوبر 2021ء کو گیا(رہے نام اللہ کا)
اللہ کریم ڈاکٹر صاحب کے درجات بلند فرمائے۔ آتے ہیں موضوع کی طرف جو کسی کی طاقت ہوا کرتی ہے وہی کمزوری یا انجام کا سبب ہوا کرتی ہے۔ ہاتھی کے سامنے شیر کی قوت کچھ حقیقت نہیں رکھتی مگر شیر کی بادشاہی اور ناموری کی اصل وجہ اس کا دھاڑنا ہے۔ شیر کی دھاڑ بڑے بڑے جنگلی جانوروں کا پِتہ پانی کر دیتی ہے۔ یہی دھاڑ اس کو شکاری کی گولی کے سامنے لے آتی ہے۔ سانپوں کے پالنے والے سانپوں کے ڈسنے، کوہ پیما کوہ پیمائی کے دوران انجام کو پاتے ہیں غرض یہ کہ قوت کو کمزوری میں بدلتے ہوئے وقت نہیں لگتا۔ ورزش اور خوراک پہلوانوں، باکسروں، باڈی بلڈروں کی قوت کا سبب بنتی ہے یہی ان کے پٹھوں کے درد، شوگر، دل کے مرض کا سبب بھی بنتی دیکھی گئی۔ عظیم باکسر حضرت محمد علیؒ  پارکنسنز کی بیماری میں مبتلا ہو گئے۔ 
ہم وطن عزیز پر کئی دہائیوں سے وارد حالات کی طرف لوٹتے ہیں۔ اگلے روز ایک دانشور گریٹ بھٹو صاحب پر ایک ایجنسی کے سیاسی ونگ کی بات کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ اس کا عذاب ان کو مل رہا ہو گا۔ میں نے اس سے کہا کہ کوئی ایک سیاستدان بتاؤ جو اس ایجنسی نے بھٹو صاحب کا مخالف سمجھ کر دھر لیا ہو۔ ایوب خان کے وقت، یحییٰ خان کے دور میں تو کوئی سیاسی ونگ موجود نہ تھا۔ زرداری نے تو اپنے دور میں عبدالرحمن ملک کے ذریعے کوشش کی تھی مگر وہ کوشش کیا ہوئی سب جانتے ہیں اور اس پر محبان وطن یوں سیخ پا ہوئے جیسے انڈیا کے لیے بارڈر سے فوجیں ہٹانے کی کوشش کی گئی ہو۔ 
نواز شریف 3 بار وزیراعظم رہے۔ سیاسی ونگ ختم کر دیتے؟ دراصل اقتدار اور اختیار کی رسہ کشی میں اگر کوئی قاعدہ کلیہ نہ ہو تو طاقت کو سلام ہوتا ہے۔ اور پھر وہ لوگ جو طاقت کے مرہون منت اقتدار میں ہیں اس طاقت کے سامنے کہاں کھڑے ہو سکتے ہیں۔ جس طرح 2014ء کے دھرنے نے میاں صاحب کو پارلیمنٹ کی یاد دلائی تھی اسی طرح آج عمران حکومت اور ہمدردوں کو سول سپرا میسی کا خیال آیا ہے۔ اگر فیصلہ جات نیک نیتی پر مبنی ہوں تو سب حمایت کریں گے۔ اگر پارلیمنٹ کو بلڈوز کرنے، اپنے اقتدار کی طوالت، انتخابات میں اپنی خواہش کو خبر اور ملک کا مستقبل بنانے کی بد نیتی ہو گی تو پھر اللہ کے سپرد ہوں۔ 
حالیہ چیئرمین نیب کی توسیع، نیب آرڈیننس کے یکطرفہ فیصلے، آئین سے روگردانی ہیں۔ یہ کس سپرامیسی کی بات کرتے ہیں۔ جو ان کی طاقت تھی وہی کمزوری میں بدل گئی۔ مجھے یاد ہے کہ پلیس منٹ بیورو کے ذریعے بھرتی ہونے اور نوازشریف دور میں برطرف ہونے والے ایک انسپکٹر کسٹم جو حاکمین خان کے بہنوئی اور کزن تھے میں نے کہا یار آپ کی تو بڑی سفارشیں ہیں۔ کدھر گئیں اس وقت محترمہ شہید کی حکومت ختم کی جا چکی تھی وہ کہنے لگے ہماری سفارشیں بہت تھیں پہلے ہماری سفارشیں ڈھے گئیں پھر ہم ڈھے گئے۔ حکمرانوں کے پاؤں کے نیچے سے جب سفارشیوں کا قالین سرکتا ہے تو پھر اوندھے منہ گرتے ہیں کیونکہ عوام نہیں ان کی طاقت کا سرچشمہ ادارے ہوتے ہیں۔ 
تمام سیاسی مذہبی رہنماؤں کو محسوس کرنا چاہیے کہ وہ اپنی اپنی جماعت کی مقبول قیادتوں سے عوام کی محبت، مقبولیت اور پذیرائی کی پیروکاروں سے بہت قیمت وصول کر چکے۔ اب عمل کرنا ہو گا اور تیسری قوت بھی مفاد عامہ اور حب الوطنی کی چاشنی سے خوب لطف اندوز ہو چکی اب اس ملک کے عوام کا مل جل کر سوچیں اگر حکومت کرنے کے لیے عوام جو کہ رعایا ہیں ریوڑ ہیں، یہی نہ رہے تو آپ کا اقتدار آئینہ دیکھنے تک رہ جائے گا۔ اللہ کے بعد اپنے کردار کو ہی اپنی قوت بنائیں کبھی کمزوری نہیں بنے گی۔ باقی ہر قوت کمزوری میں بدل جاتی ہے اور برے انجام سے دو چار کرتی ہے۔ جناب بھٹو صاحب نے ضیاء الحق کے لیے جیل سے بیان دیا تھا کہ ”انتہائی بری موت تمہاری منتظر ہے“۔ وہ کوئی غیب کا علم نہیں جانتے تھے انہیں معلوم تھا کہ طاقت کمزوری بن جایا کرتی ہے اگر آپ حق پر ہیں تو تاریخ کے ماتھے کا جھومر ورنہ کلنک کا ٹیکہ ہوتے ہیں۔ کسی کی تعیناتی، تنزلی،ترقی، تبدیلی سے اگر عوام کے حالات میں تبدیلی نہیں آتی تو عوام کو محض حاکموں کی تبدیلی اپنے لیے مزید پریشانی سمجھنا چاہیے۔ بھلے میاں نوازشریف، مریم نواز، بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمن عوام میں مقبول ترین قیادتیں ہیں،حکمران ٹولہ عوام دشمن سمجھا جاتا ہے۔