ایک اور دریا کا سامنا

ایک اور دریا کا سامنا

ایم کیو ایم کے مختلف دھڑے اکٹھے ہو گئے۔ مصطفی کمال، فاروق ستار وغیرہ کی تقریریں سنیں وہ دعویدار ہیں کراچی پورے پاکستان کو پالتا ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو اس کی بنیادی وجہ وہاں پر بندرگاہ کا ہونا ہے۔ اسی بندرگاہ پر جب جہاز لنگر انداز ہوتے ہیں تو قومی خزانے کے اربوں روپے جو قومی خزانے میں جانا چاہئیں وہ امپورٹ ایکسپورٹ اور سمندری راستہ پر فرائض انجام دینے والے اداروں کے آفیسران اور اہلکاروں کی جیبوں میں چلے جاتے ہیں۔ رسول اللہﷺ کی حدیث طیبہ ہے ”چھوٹے چھوٹے شہر آباد کریں (مفہوم)“۔ اس کے پیچھے نمایاں حکمت یہ ہے کہ شہر کے انتظامی امور کے لیے آسانی ہو گی۔ کراچی کی آبادی کا بے مہار ہونا، بہت زیادہ ہونا کراچی کی بربادی کا سبب بنا۔ لاہور کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے۔ کراچی کے عوام کو لسانی، قومیتی، علاقائی بنیادوں پر ضیا الحق نے تقسیم کیا تھا۔ بد نصیبی سے صرف پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کے لیے پورا نظام، معاشرت، سیاست اور معاشرہ برباد کر کے رکھ دیا گیا۔ ایم کیو ایم کا خونیں دور شروع ہوا، جب بھارت اور را کو سرعام پکارا گیا۔ جب محافظوں نے سمجھا کہ اب کنٹرول نہ ہوا تو پھر کبھی کنٹرول نہ کر سکیں گے، جنرل راحیل شریف اور میاں نوازشریف کے دور میں کراچی کے بھائی جب بہنوں میں بدل گئے تو کراچی کا امن بحال ہوا۔ رینجرزنے امن بحال کیا۔ ظاہر ہے جب ایسا آپریشن جو امن بحال کرنے کے لیے کیا جائے اس میں اداروں کی قوت کو جو اہلکار استعمال کرتے ہیں، زیادتی بھی کر جایا کرتے ہیں۔ لیکن یہ بہت بڑا احسان تھا نوازشریف کے دور میں ریاستی اداروں کا، جنہوں نے کراچی کو جرائم پیشہ لوگوں کی سیاست سے آزاد کرایا۔ عمران نیازی اور پی ٹی آئی کی زبان قابو میں نہیں آتی اب ان کے مقابلے پر ایسے لوگ آ گئے جو زبان کے تیر چلانا بھی جانتے ہیں اور بے رحم بھی ہیں۔ افسوس کہ مصطفی کمال نے بھی زرداری صاحب کے جھولے پر پینگ ڈالی ہے۔ بات ایسے کر رہے تھے جیسے کراچی کا امن ان لوگوں کی خصلت بدلنے سے قائم ہوا حالانکہ ان کے مناسب علاج اور اداروں کے غیر جانبدار ہونے سے امن قائم ہوا، قانون کی حکمرانی سے ہوا جو کئی اعتبار سے ابھی تک سوالیہ نشان ہے۔ کراچی کے نوجوانوں کے لیے معافی کی استدعا ملک چلانے والوں سے کر رہے ہیں حالانکہ یہ استدعا ان کو ان 
نوجوانوں کے لواحقین سے کرنی چاہئے اور ان سے بھی جن کے افراد ان کے جرائم، ظلم و ستم اور تشدد کی وجہ سے دنیا چھوڑ گئے۔ کہنے کو یہ پُر امن ہیں، منافق نہیں ہیں، نیک خواہشات سے اکٹھے ہوئے ہیں مگر ان کی آنکھوں سے پھوٹتی ہوئی نفرت، زبانوں سے برستی ہوئی آگ اور لہجوں میں چھپا زہر بتا رہا ہے کہ یہ وطن عزیز نہیں اپنی بقا کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔ مہاجر تو پنجاب میں بھی بہت ہیں امرتسر، لدھیانہ، بریلی، فیروزپور، دہلی پورے بھارتی پنجاب و دیگر علاقوں سے لوگ ہجرت کر کے یہاں آئے تھے۔ مگر لیاقت علی خان کے دور میں جن لوگوں کی کراچی میں آباد کاری ہوئی وہ دراصل ایک حلقہ انتخاب کی تیاری تھی۔ ضیا الحق کے دور میں طالبان، افغانی، پشتون سب ایک منصوبہ بندی کے تحت یہاں آئے بھلے اتنے ہی اور آ جائیں مگر قانون کی حکمرانی اگر نہ ہوئی تو اب کی بار جس دریا کا سامنا ہو گا شاید اس کو ریاستی ادارے عبور نہ کر پائیں اور نہ ہی قانون شکن اس نقصان کی تاب رکھتے ہوں گے۔ عمران نیازی اقتدار میں آنے سے پہلے ایم کیو ایم کے خلاف تھے اور ان کو نازی کہتے تھے پھر نیازی صاحب کے اتحادی ہوئے۔ انہوں نے اقتدار میں آنے سے پہلے لندن میں ان کے خلاف (الطاف حسین) اور ساتھیوں کے خلاف مقدمہ بھی کیا تھا مگر وہاں سے قانون کے مطابق جواب آیا کہ حکومت اگر رجوع کرے تو کارروائی ضرور ہو گی پھر نیازی صاحب حکومت میں رہے اور ایک پیج پر بھی رہے مگر اتحادی ہو گئے، ملک کے لیے کچھ نہ کر سکے۔ زرداری صاحب کا بہت بڑا کارنامہ ہے کہ انہوں نے پیپلز پارٹی کو محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے بعد بھی قائم رکھا۔ ویسی نہ سہی مگر اپنے بیٹے تک پارٹی کی قیادت امانت کی طرح پہنچا دی۔ میں سلام کرتا ہوں زرداری صاحب کو جنہوں نے ایم کیو ایم، دہشت گرد، پی ٹی آئی، ق لیگ، میڈیا، اعلیٰ عدلیہ، طاقتور اداروں، سرمایہ داروں، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام غرض کہ ہر ایک کے ساتھ ان کے اکھاڑے میں پنجہ آزمائی کی اور مسکراتے ہوئے جیتے یہاں تک کہ مخالفین ان کے میزبان بنے اور مہمان بھی۔ بہرحال ایم کیو ایم ایک بار پھر نئے پرنٹ کے ساتھ ریلیز ہو رہی ہے۔ وطن عزیز کی تاریخ قائد اعظمؒ اور لیاقت علی کی وفات، غلام محمد کے اقتدار، ایوب کی مطلق العنانیت سے ضیا الحق کا سیاہ دور، مشرف کا تاریک دور، جناب بھٹو کی پھانسی (عدالتی قتل) محترمہ بے نظیر کی شہادت، عمران نیازی کا اقتدار، ایم کیو ایم، مذہبی گروہ بندی، دہشت گردی سب سانحات ہیں۔ وطن عزیز کی تاریخ سانحات کی تاریخ ہے۔ پیپلز پارٹی اور وطن عزیز کے عوام کو اب ایک اور دریا کا سامنا ہے۔ مگر اس دریا کی طغیانی اور تباہ کاری میں عمران نیازی کی خلاف آئین، خلاف روایات و معاشرت انتقامی سیاست ملکی معاشی، سرحدی، امن و امان بین الاقوامی، خارجی، داخلی صورت حال کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کیے جانے والے اقدامات نے اضافہ کر دیا۔ لوگ روٹی روزی علاج، انصاف کے لیے دربدر ہیں بلکہ ان کے صوبے جہاں ان کی حکومتیں ہیں گلگت بلتستان میں مائنس 7 درجہ حرارت میں لوگ احتجاجی ہیں، دھرنا دیئے بیٹھے ہیں پنجاب کی حالت قابل دیدنی ہے اخلاقیات زمین بوس ہیں اور نیازی صاحب نے اسمبلی تحلیل کرا دی۔ اب کے پی کے اسمبلی بھی تحلیل کی جائے گی اور اگر قومی اسمبلی توڑ کر وفاق میں حکمران اتحاد انتخابات میں اترتا ہے عمران نیازی کے گند کی ٹوکری جو اقتدار کی صورت ملی تھی، اتار پھینکتا ہے تو پھر آئی ایم ایف اور معاشی بحالی کے لیے اہم ترین مہینے شاید وطن عزیز کی تاریخ بدل دیں اور یہ وقت پھر ہاتھ نہ آئے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ عمران نیازی اپنے سہولت کاروں جن کی بات کا اب کوئی اعتبار نہیں کرتا، اقتدار کی خاطر کر رہے ہیں۔ عمران نیازی احتساب سے بچنا چاہتا ہے، جیل سے گھبراتا ہے اس کو صرف اقتدار چاہئے اور ہر قیمت پر اقتدار چاہئے۔ پیپلز پارٹی پہلے ہی اسٹیبلشمنٹ کو وارے نہیں، نوازشریف بھی مسترد ہیں، مولانا فضل الرحمن میں بھی بغاوت کے آثار ہیں پھر رہ گیا صرف نیازی جو شام معافی، صبح گالی اور کہہ مکرنیوں کا ماہر ہے۔ وہ پہلے ہی پاکستان کے تین حصے ہونے کی منحوس بات کر چکا جو ٹرمپ کو Serve کر چکا جو مودی کی زبان بول چکا جو وطن عزیز کو ڈیفالٹ کرنے کی بنیاد اور اب تکمیل کی طرف گامزن ہے۔ اس کے گھر کا خرچہ تو فارن فنڈنگ اور ممنوعہ فنڈنگ سے چلتا ہے اور اس کے حواریوں کا بھی مگر عام آدمی جو 22 کروڑ ہے وہ کیا کرے گا۔ میڈیا بھی چن چن کر تباہی، مہنگائی اور لاقانونیت کی خبریں بریکنگ نیوز بناتا ہے۔ لہٰذا قوم کی ہجرت ختم ہوئی نہ معیشت۔ کوئی نظام راس آیا نہ کوئی مسیحا۔ ایک عبور کرتے ہیں تو دوسرا تیار ہوتا ہے ہر وقت ہر لمحہ نئے دریا کا سامنا اور اب کی بار آگ کے دریا کا سامنا ہے۔