سپریم کورٹ سے مستعفی ہونے والے اقبال حمید الرحمن شریعت کوٹ کے چیف جسٹس مقرر

سپریم کورٹ سے مستعفی ہونے والے اقبال حمید الرحمن شریعت کوٹ کے چیف جسٹس مقرر
سورس: file

اسلام آباد : جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ کے سابق جج اقبال حمید الرحمان کی بطور چیف جسٹس فیڈرل شریعت کورٹ تعیناتی کی منظوری دی ہے۔ ان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے پہلے چیف جسٹس تعینات ہوئے۔

اقبال حمید الرحمان پاکستان کے دوسرے ایسے چیف جسٹس تھے جن کے والد بھی چیف جسٹس کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔

جسٹس اقبال حمید الرحمان سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس حمود الرحمان کے بیٹے ہیں جو سقوط ڈھاکہ کے بعد پاکستان کے چیف جسٹس بنے۔ جسٹس حمود الرحمان اس عدالتی کمیشن کے سربراہ بھی تھے جس نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی عدالتی تحقیقات کی تھی۔

جسٹس اقبال حمید الرحمان 25 ستمبر 1956 کو مشرقی پاکستان کے شہر ڈھاکہ میں پیدا ہوئے۔ 1960 میں اپنے والد جسٹس حمودالرحمان کی سپریم کورٹ میں تقرری ہونے پر مغربی پاکستان شہر لاہور منتقل ہوگئے ۔

اقبال حمید الرحمان نے ابتدائی تعلیم کے بعد لاہور سے ہی قانون ڈگری حاصل کی اور 1981 میں وکالت شروع کی۔ 30 اکتوبر 2006 کو انھیں لاہور ہائی کورٹ کا ایڈیشنل جج مقرر کیا گیا۔ ہائی کورٹ کے جج کے علاوہ انھوں نے الیکشن کمیشن کے رکن کی حیثیت سے بھی فرائض انجام دیے۔

لاہور ہائی کورٹ کے جج کی حیثیت سے جسٹس اقبال حمید الرحمان نے سنہ 2009 میں پنجاب کے علاقے گوجرہ میں مسیحی آبادی پر ہونے والے حملہ کی عدالتی تحقیقات بھی کیں۔

جسٹس اقبال حمید الرحمان نے اکتوبر 2007 میں ہائی کورٹ کے مستقل جج کی حیثیت سے حلف اٹھایا لیکن تین ہی دن بعد جنرل پرویز مشرف کی طرف سے عبوری آئینی فرمان یعنی پی سی او جاری ہوا تو وہ ان ججوں میں شامل تھے جنھوں نے اس کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کردیا۔ اس بنا پر انھیں بھی عہدے سے معزول کر دیا گیا۔

جسٹس اقبال حمید الرحمان بعد میں دیگر معزول ججوں کے ساتھ اپنے عہدے پر بحال ہوئے اور 2011 میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے پہلے چیف جسٹس مقرر ہو گئے۔

فروری 2013 میں انھیں سپریم کورٹ کا جج مقرر کر دیا گیا تھا اور وہ لگ بھگ ساڑھے تین سال سپریم کورٹ کے جج رہے۔ 2016 میں جسٹس اقبال حمید الرحمان اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے۔

انھوں نے اپنا استعفیٰ صدر مملکت ممنون حسین کو بھجوایا اور ہاتھ سے تحریر کردہ استعفے میں کہا گیا کہ وہ آئین کے آرٹیکل 206 (1) کے تحت اپنے عہدے سے مستعفی ہو رہے ہیں تاہم استعفے میں مستعفی ہونے کی کوئی وجہ بیان نہیں کی گئی۔

مصنف کے بارے میں