چودھری صاحب، تو ایسے نہ تھے

 چودھری صاحب، تو ایسے نہ تھے

حکومت اور حکام کے درمیان پنجاب میں خوشگوار تعلقات کا بہترین دور چودھری پرویز الٰہی کی وزارت اعلیٰ کا دور تھا،آج بھی سرکاری حکام اور صحافی ان کی خدمات کا برملاء اعتراف کرتے ہیں،2002 میں جب چودھری پرویز الٰہی کے سر پر پنجاب کی پگ رکھی گئی تو انہوں نے پنجاب کی بیوروکریسی اور صحافیوں سے انتہائی دوستانہ تعلقات استوار کئے،لاہور،ملتان،گجرات،راولپنڈی اسلام آباد کے صحافیوں کو انہوں نے بذریعہ پریس کلبز بلا تفریق بیش قیمت رہائشی پلاٹ فراہم کئے،ان کے بعد آج بھی صحافی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں مگرجہاں وہ معاملہ چھوڑ کر گئے تھے وہاں سے ایک انچ آگے نہیں بڑھا،بیوروکریٹس کے حوالے سے بھی ان کا رویہ ہمیشہ مفاہمانہ رہا، انہوں نے کبھی شام کو سرکاری افسروں کو ذاتی ملازم کی طرح گھر بلایا نہ دفتر طلب کر کے گھنٹوں انتظار کرایا،ہر کسی کو عزت و توقیر دی،احترام دیا،کسی کی عزت نفس مجروح نہ کی،مردم شناسی ان کا طرہ امتیاز رہا مگر اس کیساتھ وہ قدر شناس بھی تھے،بیوروکریٹس کی ٹیم سلیکٹ کرنے میں ہمیشہ احتیاط کی اور جن کو منتخب کر لیا ان کو اعتماد بھی دیا اور ان کے کام کی قدر بھی کی،اعزاز کیساتھ انعام سے بھی نوازا،یہی وجہ ہے کہ بیوروکریسی نے بھی چودھری پرویز الٰہی کا بھرم رکھا اور انکی وزارت اعلیٰ کا دور شاندار رہا، ان کے پرنسپل سیکرٹری جی ایم سکندر ،چیف سیکرٹری سلمان صدیق اور چیئر مین پی اینڈ ڈی سلیمان غنی ایسے تین رتن تھے جو نو رتنوں پر بھی بھاری تھے، حال میں میں پنجاب اسمبلی سے منظور ہونے والے سرکاری افسروں بارے قانون کو دیکھتے ہوئے اکثر افسروں کو یقین نہیں آتا کہ یہ قانون چودھری پرویز الٰہی کی سپیکر شپ میں منظور ہواء ہے۔
 ماضی میں چودھری پرویز الٰہی حکمرانوں اور بیوروکریسی میں پل کا کردار بھی ادا کرتے رہے،جب کبھی دونوں میں معاملات بگڑے چودھری صاحب نے بیچ میں پڑ کر معاملہ کو الجھنے سے پہلے سلجھا لیا،مذکورہ قانون مگر استثناء ہے ، اسے دیکھ کر لگتا ہے پنجاب اسمبلی اس راہ پر چل نکلی ہے جس پر شہباز شریف چلتے رہے،موجودہ حکومت کی بیوروکریسی سے مخاصمت کو دیکھتے ہوئے موجودہ قانون کی کوئی گنجائش بھی دکھائی نہیں دیتی،اس مخاصمانہ روش کی وجہ سے تحریک انصاف حکومت ایک عرصہ اٹکل پچو نظام چلاتی رہی،بیوروکریسی اعتماد سے کام کرنے پر کبھی بھی آمادہ نہ ہو سکی،وزیر اعظم کی مداخلت اور نیب قوانین میں ترمیم کی باتوں کے بعد بھی معاملات درست نہج پر نہیں آسکے تاہم جب حکمرانوں نے بیوروکریسی پر اعتماد کرنا شروع کیا تب جا کر معاملات بہتر ہوئے،حالیہ قانون کی منظوری سے مقننہ اور انتظامیہ براہ راست متصادم ہو گئے ہیں،جس کے نتیجے میں حکومتی اور ریاستی امور ٹھپ ہو کر رہ جائیں گے،ارکان اسمبلی اور اعلیٰ سرکاری افسر اگر آمنے سامنے آگئے تو معاملات اس نہج پر پہنچ جائیں گے کہ واپسی ممکن نہ ہو سکے گی۔
 گمان تو یہ تھا کہ چودھری پرویز الٰہی حکومت اور بیوروکریسی میں تنازعات کو حل کرانے میں معاون ہوتے،مگر صوبائی اسمبلی نے اس قانون کومنظور کر کے نیا محاذ کھول دیا ہے،بیوروکریٹ جو اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے تربیت حاصل کرتے ہیں مختلف ممالک میں جا کر کورس کرتے ہیں،جس کے بعد فرائض منصبی سنبھالتے ہیں،ریاست سے وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں،اور کم از کم 25سال ان کی سرو س ہوتی ہے یا 60سال کی عمر تک فرائض سر انجام دیتے ہیں،جبکہ منتخب ارکان پانچ سال کیلئے منتخب ہو کرآتے ہیں،دلچسپ بات یہ کہ قانون ساز اسمبلی کے ارکان خودآئین و قانون سے نا واقف ہوتے ہیں جبکہ بیوروکریٹ نہ صرف آئین و قانون بلکہ قواعد و ضوابط سے بھی آگہی رکھتے ہیں،قانون سازوں نے اگرآئین کے منافی اور قواعد سے متصادم کوئی حکم جاری کیا تو کسی صورت ممکن نہیں کہ بیوروکریسی عمل درآمد کرے جس کے بعد مخاصمت شروع ہونے کے وسیع امکانات ہیں،دلچسپ بات یہ کہ ارکان اسمبلی کا حکم نہ ماننے پر اسمبلی کی جوڈیشل کمیٹی سزا بھی دے سکتی ہے،جسے دو ماہ قید یا دس ہزار تک جرمانہ کرنے کا اختیار حاصل ہے،جس کیخلاف اپیل بھی اسی کمیٹی میں کی جا سکے گی۔فیض احمد فیض کے بقول 
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
 چودھری پرویز الٰہی کے ماضی کو دیکھتے ہوئے یہ بات بغیر کسی ہچکچاہٹ کہی جا سکتی ہے کہ اس خاندان نے کبھی کسی ابتر صورتحال کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ،نہ معاملات کو بگاڑ کر تماشا دیکھنا ان کی روایت ہے،خود چودھری پرویز الٰہی نے اپنے دور وزارت اعلیٰ میں بیوروکریسی کو ذہنی آسودگی فراہم کی،انہیں خوشدلی سے اطمینان کیساتھ کام کرنے کا موقع دیا،جس کے نتیجے میں بیوروکریسی نے کھل کر کام کیا اور پرویز الٰہی کے عوامی بہبود کے منصوبوں کو عملی شکل دی،یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ چودھری پرویز الٰہی دور میں جتنے منصوبے بھی شروع کئے گئے وہ عوامی مفاد کے تھے،جس کی صرف ایک مثال 1122ہے جس سے روزانہ ہزاروں افراد مستفید ہوتے ہیں اس کی اہمیت کے پیش نظر دیگر صوبے بھی اس کی تقلید پر مجبور ہوئے،وزیر آباد میں کارڈیک ہسپتال کی تعمیر بھی عوامی نوعیت کا منصوبہ تھا جس کی تعمیر پر اگر چہ بعد میں آنے والوں نے غفلت مجرمانہ کا مظاہرہ کیا مگر اب یہ ہسپتال تکمیل کے بعدآپریشنل ہو چکا ہے،یہ منصوبے بھی بیوروکریسی کے تعاون سے تشکیل پائے اور انہی کی وجہ سے بروئے کار آئے۔وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی،سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے درمیان معاملات ایسے ایسے بہتر انداز سے سلجھاتے تھے کہ متحارب فریق دونوں خوش رہتے۔صرف ایک واقعہ،چودھری علی اکبر وینس بہاولنگر کے ضلع ناظم تھے وہ اپنے ڈی سی او سے خوش نہیں تھے انہوں نے وزیر اعلیٰ سے کہا کہ میرے ڈی سی او کو تبدیل کر دیں ،ڈی سی او ایک اچھے افسر تھے اور ٹھیک کام کر رہے تھے،علی اکبر وینس سے بھی چودھری صاحب محبت کرتے تھے اور اگر اس وقت ڈی سی او تبدیل کیا جاتا تو بیوروکریسی کو اچھا پیغام نہ جاتا اس لئے وزیر اعلیٰ نے انہیں تبدیل نہ کیا ،تھوڑے عرصہ بعد وزیر اعلیٰ نے اس ڈی سی او کو لاہور بلایا انہیں چائے پلائی اور ان کے کام کی تعریف کی اور کہا آپ کو بہاولنگر کافی وقت ہو گیا ہے میں آپ کو ایک اور اچھی پوسٹ پر لگانا چاہتا ہوں اور انہیں نئی پوسٹنگ دے دی یوں ضلعی ناظم بھی خوش ہو گئے اور افسر بھی۔ 
لیکن حالیہ قانون کی منظوری کے بعد سمجھ نہیں آ رہی کہ اگر مقننہ اور انتظامیہ دو ریاستی ادارے باہم دست و گریبان ہو گئے تو ریاستی اور حکومتی امور کون چلائے گا؟میری اطلاعات ہیں کہ چودھری پرویز الٰہی اس معاملے کو درست کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں گے ، بیوروکریسی حیرت زدہ ہے کہ چودھری پرویز الٰہی کی سربراہی میں یہ کیسے ہو گیا؟ اس ایشو پر میرے دو سابقہ کالموں کے بعد وفاق اور پنجاب میں تعینات اکثر بیوروکریٹس نے اس قانون پر تبصرے کے ساتھ مجھے حیرت کے میسج کئے ہیں کہ چوھری صاحب تو ایسے نہ تھے۔