کانٹوں کا بستر

کانٹوں کا بستر

دیار غیر سے آئے دوست کے در پر دستک دی تو معلوم ہواوہ قریبی قبرستان میں فاتحہ کہنے گئے ہیں، ہم نے بھی وہاں جانا مناسب سمجھنا،جس قبر پر وہ کھڑے تھے یہ ان کے دوست کی تھی، جسکا انتقال انکی عدم موجودگی میں ہوا جب وہ بیرون ملک تھا،ایک مدت کے بعد ملاقات تھی، برسبیل تذکرہ  اس کے مرحوم دوست کا پوچھا،گویا ہوئے،حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔اسکی داستان بھی بڑی دلچسپ ہے،اس کی وفات کے بعدسنانا اگرچہ مناسب بھی نہیں لگتا، مگر معاشرے کے لئے اس میں بڑا پیغام بھی ہے۔
اس لئے عرض کئے دیتا ہوں اس کہانی کا اہم کردار اسکی شادی سے شروع ہوتا ہے جو بڑے ہی بھونڈے انداز میں ہوئی، اس کا نکاح جس انداز میں ہوا ہمارا سماج ایسے قبول نہیں کرتا، جس خاندان کی لڑکی سے اس کا بیاہ ہوا، وہ نہ تو اسکی ہم زبان تھی، نہ ہی اسکی برادری اور ذات کی تھی،لیکن نجانے کس طرح دونوں میں ایک تعلق قائم ہوا، جو آگے چل کر شادی کا بندھن بن گیا، اس رشتہ پر نہ تو اس کے والدین راضی تھے نہ ہی لڑکی والے مان رہے تھے، وہ کس لئے راضی ہوتے، کہ مرحوم پہلے سے شادی شدہ تھا، اس کا اک بچہ بھی تھا، پہلی شادی والدین کی پسند کی تھی، اس لئے اس کے سر پر بھوت سوار تھا کہ وہ دوسری شادی اپنی پسند کی کرے گاوہ بتاتا تھا جب والدین اسکی شادی کر رہے تھے تو اس نے مشروط حامی بھری کہ وہ دوسری اپنی پسند ہی کی کرے گا۔اس دن سے اس نے یہ تہیہ کر لیا کہ وہ اپنی ضد پوری کرے گا، والدین بھی اسکی شرط مان چکے تھے،اس لئے اس کی دلیری اور بڑھ گئی۔ 
پہلی بیوی سے اس کا تعلق واجبی سا تھا، وہ عورت بس اسکی شرعی بیوی تھی، اگرچہ اسکی اس سے اولاد بھی تھی، مگر وہ تعلق بھی ایک رسمی باپ کا سا تھا، لا ابالی شخص کی زندگی اس شعر کی مصداق تھی۔
کٹی ہوٹلوں میں زندگی مرے ہسپتال جاکر
رہے اس قدر مہذب کہ گھر کا منہ تک نہ دیکھا
اس رویہ کو دیکھ کر والدین بھی پریشان رہتے مگر مجبور تھے،پہلی بیوی چونکہ خاندان سے تھی، اس لئے سب مصلحتاً خاموش تھے، پھر یہ منہ پھٹ بھی واقع ہوا تھا اس لئے اسکی خانگی زندگی پر بات کرنے سے ہر کوئی کتراتا،والدین زراعت سے وابستہ تھے، خو شحالی تھی مگر واجبی سی، اس نے بھی مصروف  رہنے کے لئے چھوٹا سا کاروبار کر لیا، یہ رانا صاحب کے نام سے محلہ میں مشہور تھا، شکار کرنا، دعوتیں اڑانا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔ اسکے احباب بھی ذرا آزاد خیال تھے، انکی صحبت نے اس کو بھی پینے پلانے کا چسکا ڈال دیا، عمر ڈھلتی جاری تھی، دوسری شادی ہی اس کی زندگی کا مقصد بن گئی، غم بھلانے کے لئے وہ پیتا بھی تھا، اس عادت کا سب کو پتہ تھا، دہ ڈیڈ سموکر بھی تھا،روپیہ پیسہ کی اس نے کبھی پروا نہ کی، خانگی ذمہ داریوں سے یہ پہلے ہی آزاد تھا، جس شہر میں یہ کام کرتا تھا، وہاں ایک فیملی سے اس کے گھریلو تعلقات استوار ہو گئے، رابطے ایسے بڑھے کہ باہم فاصلے کم ہو گئے،اس خاندان کو ایسے سبز باغ دکھائے کہ وہ اسکی صلاحیتوں کے معترف ہوتے گئے، یہ تعلیم یافتہ فرد تھا، اس لئے بچوں کو تعلیم دلوانے کی آڑ میں انکی ایک بیٹی سے روابط قائم کر لئے، یہ تعلق اتنا گہرا ہوا،اس نے اس لڑکی کوشادی پر آمادہ کرلیا،باوجود اس کے مرد کی پہلی شادی کا وہ علم رکھتی تھی، جب پانی سر سے اونچا ہوا، تو گھر والوں کوفکر لاحق ہوئی، دوست بتانے لگا کہ رانا مرحوم نے ہماری وساطت اور برادری کی مداخلت سے معاملہ خوش اسلوبی سے حل کرنے کی کاوش کی،مگر ناکامی دیکھ کر وہ راستہ اپنایا کہ کوئی باعزت خاندان ”افورڈ“نہیں کرسکتا، ہمیں اس روز علم ہوا جب وہ عدالت میں منکوحہ سے نکاح کر کے اپنی پسند کی دوسری دلہن گھر لے آیا، یہ خبر جب اس کے آبائی دیہہ میں پہنچی تو پہلی بیوی نے ہنگامہ کھڑا کر دیا، دونوں خاندانوں کے مابین جھگڑے پیدا ہوئے۔جائیدادوں کے تنازعات جنم لینے لگے۔لڑکی کے خاندان کے لئے بڑا سانحہ تھا، سوائے صبر کے کچھ بھی ممکن نہ تھا، متاثرہ برادری نے یہ فیصلہ کیا کہ رانا کے سارے خاندان کا سماجی بائیکاٹ کیا جائے نیز غیرت  کے نام پر قتل کرنے کے بجائے بیٹی کا مکمل سماجی بائیکاٹ اورزندگی بھر کے لئے اِس پر گھر کا دروازہ بند کر دیا جائے، خوشی اور غم میں بھی شریک نہ کیا جائے، جب والدین نے اتنا سنگین اور پتھر دل فیصلہ کر لیا تو دیگر بہن، بھائیوں، اقربا کی کیا جرأت تھی کہ وہ اس سے رابطے کا سوچ بھی سکتے، اپنے دوست سے مرحوم کی کہانی سنتے، ہمیں یہ احساس ہوا کہ کسی کی بیٹی کی عزت پر ڈاکہ وہ بھی باہمی خاندانی تعلقات کی آڑ میں ڈالنا یہ کسی اچھے اور خاندانی انسان کا ظرف ہو ہی نہیں سکتا۔
ہم نے بات کاٹتے ہوئے پوچھا کہ اب اس دلہن کا کیا حال ہے جس نے مرحوم کے لئے اپنے سارے خاندان سے قطع تعلق کرلیاتھا۔اس نے ٹھنڈی آہ بھری اور کہا کہ اب اس کی بے بسی دیکھی نہیں جاتی، میکے اور سسرال کے سب رشتہ دار تو اسکی شادی کے وقت ہی داغ مفارقت دے چکے تھے،  مرحوم سے اسکی بیٹیاں ہیں سر سے والد کا سایہ بھی اٹھ چکا ہے، پہاڑ جیسی زندگی سامنے ہے، اس کی شادی کی داستان سے سب اہل محلہ آگاہ ہیں، اس لئے سب کے ساتھ تعلقات کی نوعیت واجبی سی ہے۔ جوان ہوتی ہوئی اولاد اب ماموں، چچا، خالہ، پھوپھی کے رشتے ڈھونڈتی ہیں، اپنی ہم جولیوں سے ننھیال جانے کی باتیں سنتی ہیں، رشتہ داروں کے گھر آنے اور رہنے کا تذکرہ ہوتا ہے تو اپنا سا منہ لے رہ جاتی ہیں، دوسری طرف ماں بھی اس خوف میں مبتلا ہے کہ انجانے میں وہ کوئی ایسا قدم نہ اٹھا لیں کہ انھیں میری طرح زندگی بھر پچھتانا پڑے، اسے اب احساس ہو رہا ہے کہ دکھ سکھ میں سارے رشتے اہم ہوتے ہیں، شوہر کی اہمیت اپنی جگہ مگر والدین بہن، بھائی کا مقام کوئی اور لے نہیں سکتا۔
زیادہ دکھ تو اُسے اس وقت ہوتا ہے کہ اپنی ہی اولاد ان رشتوں سے منہ موڑنے کا طعنہ دے کرجیتے جی ہی ماردیتے ہیں۔ دل کہتا ہے کہ کاش!وقت پھر سے لوٹ آئے کتنے خوبصورت وہ لمحات تھے جب ماں کی گود میں کھیلتی تھی، باپ کی شفقت میسر تھی، بھائیوں کا پیار، بہنوں کی محبت سے ترس گئی ہوں، میں نے خود ہی اپنی حماقت سے سارے دروازے بند کر دیئے جن سے میرے رشتہ دار داخل ہوتے۔
 ان جذبات کا اظہار اس نے میری بیوی سے کیا جب وہ تعزیت کے لئے گھر گئی تھی۔بیوہ کو اب یہ غم کھائے جارہا ہے کہ بیٹیوں کے رشتوں کا انتخاب کیسے ہوگا۔ رات کو اس خوف سے آنکھ کھل جاتی ہے کہ اگر میں نہ رہی تو ان پر دست شفقت کون رکھے گا۔  پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں تو اس نتیجہ پر پہنچی کہ پسند کا جیون ساتھی مل بھی جائے مگر دوسرے رشتے روٹھ جائیں تو زندگی پھولوں کی سیج سے زیادہ کانٹوں کا بستر ہوتی ہے، فرط جذبات میں گھر کی دہلیز پار کرنے والی لڑکیوں کے لئے یہی میرا پیغام ہے۔
کمرے میں بیٹھا میرا یہ دوست اپنی زوجہ کی زبانی اس بیوہ کے احساسات بتا رہا تھا، میں نے اس کے چہرہ پر نگاہ ڈالی تو ہم دونوں کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔