ضمنی انتخابات

ضمنی انتخابات

جیسے انسان پر بچپن، لڑکپن، جوانی اور بڑھاپا آتا ہے اسی طرح اداروں، جماعتوں، ملکوں اور معاشروں کے مختلف مراحل ہوا کرتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور تحریکوں کے بھی مختلف مراحل ہوا کرتے ہیں۔ 2011کے بعد اور 2013 کے انتخابات میں ملک کی مقتدرہ کی بھرپور کوشش، طریقوں، تمام ہتھکنڈوں، دیگر جماعتوں کے لوگوں، انوسٹرز کے شامل ہونے، الیکٹ ایبلز کی بہار آ جانے، میڈیا، تمام اداروں کے ایڑھی چوٹی کے زور کے بعد 2013 پی ٹی آئی کا مکمل عروج تھا اور 2013 کے انتخابات میں تیسرے نمبر پر بھی نہ تھی مگر دھاندلی، دھرنے اور بدمعاشی کے ذریعے سب کچھ کیا۔ میاں نوازشریف تو نام کے وزیر اعظم تھے کہ 2018 آیا اور ہر ناجائز جائز طریقہ سے عمران خان سلیکٹڈ وزیر اعظم مسلط کر دیئے گئے۔ حالانکہ یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ 2018 میں عمران خان خواجہ سعد رفیق سے الیکشن ہار چکے تھے۔ تاریخ کی بدترین کارکردگی دکھانے والے، غیر مقبول ترین حکومت کے بعد اب جو عمران اور اتحادیوں کو دوبارہ اقتدار کے ایوانوں کے قریب پھڑکتا ہوا بھی دیکھ رہے ہیں، ذہنی مریض ہیں۔ البتہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جو عمران نے کیا وہ تین جنگوں میں بھارت بھی نہ کر سکا۔ ضیا محسن کش تھا۔ مشرف نے نواز شریف سے دغا کیا مگر عمران نیازی نے کمال کر دیا اسٹیبلشمنٹ کے ان گنت احسانوں کا بدلہ بُرائی کی عظیم مثالوں کے ساتھ دیا۔ اسٹیبلشمنٹ کے کندھے پر بندوق رکھ کر مخالفین کو نشانہ بنایا۔ اسٹیبلشمنٹ صرف غیر جانبدار ہوئی اور عمران سیریز کی آخری قسط چل گئی۔ کچھ سیاسی جماعتوں کی قلمیں ہمارے سامنے لگی ہیں جو ایک خاص نرسری میں پیدا ہوئیں یا پروان چڑھیں۔ محترمہ بے نظیر شہید کے بعد عمران نیازی پر محنت کی گئی۔ 2011 کے جلسہ میں خوب رونق رہی۔ ایم کیو ایم، ق لیگ، تحریک کی پوری پوری قیادت اس جلسہ گاہ میں آئی، ببانگ دہل اسٹیبلشمنٹ نے اس کی آبیاری کی، لوگ دیئے، الیکٹیبلز دیئے، اقتدار دلایا، حکومت سازی میں محنت کی، حکومت چلانے میں داخلہ سے لے کر خارجہ امور 
تک پی ٹی آئی اور اتحادی حکومت کا ساتھ دیا۔ سر توڑ کوشش کے باوجود کوئی مثبت کارکردگی سامنے نہ آئی بلکہ مہنگائی، بے روزگاری، لاقانونیت، سیاسی انتقام اور سب سے بڑھ کر کرپشن کا راج سر چڑھ کر اپنا آپ دکھانے لگا۔ اس صورت حال میں سائیکل کو پنکچر لگانے والا اور کار بنانے والے، سپاہی سے لے کر ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ، گاہک سے لے کر پیاز فروش تک ہر کوئی بُری حکمرانی کا ذمہ دار ایک ادارے کو ٹھہرانے لگا۔ ادارے نے بہت ساتھ دیا مگر جب سیاسی مخالفین سے انتقام کی حدیں عبور ہو گئیں، ملک دیوالیہ ہونے لگا اور ادارے کی توقیر زمین بوس ہونے لگی تو ادارہ نیوٹرل ہو گیا جس کا حکومت اور اس کے اتحادیوں نے بہت بُرا منایا یہاں تک کہ کردار کشی پر اتر آئے۔ بیرون ملک اور اندرون ملک پاکستانیوں اور دیگر لوگوں نے ایک ایک شخص نے سیکڑوں اکاؤنٹس بنائے اور عمران خان نیازی اور اس کے اتحادیوں کو سراہنا شروع کر دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی سوشل میڈیا میں بہت ہی آگے ہے۔ اب اینکرز، تجزیہ نگار بھی مقبول ہونا چاہتے تھے، مقبولیت سوشل میڈیا پر وقت کی ضرورت تھی بہرحال میں سلیوٹ پیش کرتا ہوں، گوہر بٹ، عمران شفقت، رضی دادا، مرتضیٰ سولنگی، رضا رومی، نجم سیٹھی، حامد میر، عاصمہ شیرازی، امداد سومرو، وجاہت مسعود صاحبان کو کہ انہوں نے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھی سچ بات کی اور اپنا مقام برقرار رکھا بلکہ مزید بلند بھی کیا۔
ایک بہت بڑی بھول ہے کہ عمران اکیلا ہے حکومت میں اس کے ساتھ آزاد، ق لیگ، جی ڈی اے، باپ کوئی درجن کے قریب جماعتیں تھیں اور سب سے بڑھ کر ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں مقتدرہ ساتھ تھی۔ مگر جب ملک ہی ڈوبنے لگا تو یہ غلط فہمی بھی دور کر لیجئے کہ مقتدرہ یا اسٹیبلشمنٹ نے عمران اور اتحادیوں کی حکومت کو چلتا نہیں کیا وہ حب الوطنی کے تقاضے اور ادارے کی توقیر بحال رکھنے کی خاطر غیر جانبدار ہو گئے، یہ بھی یاد رہے کہ اگر وہ پہلے دن غیر جانبدار ہوتے تو عمران نیازی حکومت بنانا دور کی بات ضلع کونسل کا چیئرمین بھی نہ ہو سکتا۔ اتحادی الگ ہو گئے، بڑی جماعتوں نے ملک کی خاطر اپنی سیاست داؤ پر لگائی اور عمران خان کے دور کی سیاہی اپنے منہ پر مل لی۔ مہنگائی، بے روزگاری، لاقانونیت، اور ادارہ جاتی ٹوٹ پھوٹ کے ساتھ ملک کا اقتدار لیا جو اب تک مکمل نہیں ہوا۔ میری رائے میں پی ٹی آئی سرے سے سیاسی جماعت نہیں ہے راہ فرار چاہتی ہے۔ آنے والے ضمنی انتخابات میں کوئی معجزہ ہی پی ٹی آئی کو بچا سکتا ہے البتہ عمران خان کے طرز سیاست نے جو نقصان کیا ہے جو معاشرے کا بیڑا غرق کیا ہے اس کی درستی پر کئی سال لگ جائیں گے۔ وطن عزیز کی تاریخ سانحات پر مبنی ہے۔ جسٹس منیر کا فیصلہ اور ایوب خان کا آنا، ضیا الحق کا مسلط ہونا، مشرف کی طالع آزمائی یہ سب سانحات تھے۔ مگر بڑے سانحات جس نے قوم کی اساس کو ہلا کر رکھ دیا اس میں سانحہ مشرقی پاکستان، گریٹ بھٹو کی پھانسی، محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کا قتل، نوازشریف کی دو بار جلا وطنی اور عمران خان کا مسلط کیا جانا سانحات میں شمار ہو گا۔ جس کے نتائج قوم کو بھگتنا ہیں۔ اب بھی پی ٹی آئی اتحاد کے ساتھ انتخابی میدان میں ہے ق لیگ، شیخ رشید و دیگر جماعتیں نیازی کے ساتھ ہیں۔ عمران نیازی پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ میں ٹرمپ سے مل کر کہتے ہیں کہ میں نے ورلڈ کپ جیت لیا۔ مودی کی کامیابی کی دعائیں مانگتے ہیں اور پھر امریکہ کے خلاف بات بھی کرتے ہیں۔ مذہب کو تقریری ٹچ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ میں نے کسی کالم میں لکھا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب یہ مُکر جائیں گے کہ کبھی حکومت بھی کی تھی جس کا ثبوت فواد چودھری کا بیان ہے کہ رانا ثنا اللہ پر مقدمہ ان کی حکومت نے نہیں بنایا تھا۔ اگر انتخابات سوشل میڈیا اور ٹوئٹر پر ہیں تو پھر بات اور ہے اگر پولنگ سٹیشن پر ہیں تو ن لیگ حشر کر دے گی۔ پی ٹی آئی اور اتحادیوں کو عبرت ناک شکست ہو گی۔ عمران خان جلسوں میں نوازشریف کی امریکی صدر باراک اوباما سے ملاقات میں چٹیں پڑھنے کی ویڈیو چلاتے ہیں حالانکہ وہ فوٹو سیشن تھا، ایک ہلکی پھلکی بات تھی اصل مذاکرات پہلے ہی میڈیا کے بغیر ہو چکے تھے۔ نیازی صاحب کو چاہئے اپنی بھی پرانی تقریریں چلائیں تا کہ لوگوں کو پتہ چل جائے کاذب اعظم کون ہے۔ ان انتخابات میں 14 سے زائد نشستیں ن لیگ حاصل کرے گی۔

مصنف کے بارے میں