ہمارا پاکستان

ہمارا پاکستان

آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں سیاست اور حکومت میں مداخلت نہ کرنے کا اعادہ انتہائی خوش آئند ہے،انہوں نے اپنے خطاب میں یقین دلایا ”ملک و قوم کے فیصلے آئین کی رو سے عوام کے منتخب نمائندے کریں گے“اہم ترین بات انہوں نے اپنے خطاب میں یہ کہی کہ”نیا پرانا پاکستان چھوڑیں ہمارے یعنی ہم سب کے پاکستان کی بات کی جائے“آئین کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ملک کے فیصلے عوام کے نمائندے کر یں اور عوام کو ریلیف دیکر ان کے مسائل و مشکلات میں کمی لائی جائے،جس فورم پر انہوں نے یہ بات کی وہ بھی معتبر،معزز اور مکرم ہے،تا ہم آج کل اس فورم کی بالا دستی کا بہت شور ہے،مگر آئین ہر ادارہ کوحدودو قیود میں رہتے ہوئے اپنی اپنی حدود میں بالادست،مقدس،معتبر گردانتا ہے،ان حدود کو روندنے کے نتیجہ میں مداخلت ہوتی ہے اور پھر غیر آئینی اقدامات کا لا متناہی سلسلہ شروع ہو جا تا ہے جو اداروں کا تقدس پامال کرنے کا نقطہ آغاز ہوتا ہے،پالیمنٹ کا تقدس آئینی طور پر تسلیم شدہ ہے مگر جس فورم پر آرمی چیف نے خطاب کیا وہ مکمل نہیں ادھورا ہے اور قوم کی نصف سے زائد آبادی کے منتخب نمائندے وہاں موجود نہیں اور عدالت کی جانب سے بحالی کے حکم کے باوجود سپیکرپی ٹی آئی ارکان کو ایوان میں آنے کی اجازت نہیں دے رہے،منتخب ایوان کی تقدیس سے کسی با شعور کو انکار نہیں مگر شرط ایوان کے آئین کے مطابق مکمل ہونے کی بھی ہے۔
پارلیمنٹ اور عدلیہ میں آج کل مخاصمت کی فضاء ہے،وزیر اعظم سمیت اعلیٰ حکومتی عہدیدار اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے لیے لے رہے ہیں ان میں وزیر قانون بھی شامل ہیں اور دلچسپ بات یہ کہ وہ قانون دان بھی ہیں،وزیر داخلہ بھی قانون کے طالب علم ہیں مگر وہ بھی تنقید کے نشتر برسانے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں،آئین و قانون سے نا بلد کوئی طفل مکتب عدلیہ کے فیصلوں اور ججوں کا مذاق اڑائے،عدالت کے انتظامی معاملات میں مداخلت کرے تو بات سمجھ میں آتی ہے،مگر آئین سے آشنا اگر ایسی باتیں کریں تو اداروں کی خود مختاری تو اپنی جگہ مگر ملک کے نظام انصاف پر زد پڑتی ہے اور اگر نظام انصاف سے عوام کا اعتماد اٹھ گیا تو ناقابل تلافی قومی نقصان ہو گا،فریقین کی جانب سے کی جانے والی آئینی موشگافیوں سے قطع نظرسادہ سا اصول یہ ہے کہ پالیمنٹ اپنی جگہ اور اپنی حدود میں مقدس ہے تو عدالت اپنی حدود میں معزز ہے،لیکن اگر نوبت ”تیرا جج اور میرا جج“ کی آگئی ہے تو یہ افسوس کا مقام ہے، جیسے سول بیوروکریسی کا بھٹہ بیٹھا ہے ایسے ہی عدلیہ کا بھی دھڑن تختہ ہو جائیگا۔
اس صورتحال کو بگڑنے سے مزید بچانے کیلئے سنجیدہ مزاج صاحب شعوراصحاب دانش کو ثالثی کا کردار ادا کرنا ہو گا،اگر چہ آئین بہترین ثالث ہے مگر ایک طبقہ آئین کی من مرضی تشریح کر کے ذاتی اور سیاسی مقاصد حاصل کرنے کیلئے بضد ہے،منتخب ادارے کی تقدیس کا زعم ہے مگر شفاف غیر جانبدارانہ اور آئینی مدت میں الیکشن نہ کرانے پر بھی مصر ہے،دوسری ثالث اعلیٰ عدلیہ ہے ماضی میں جب بھی فریقین میں کسی بات پر آئینی،قانونی،سیاسی،جمہوری اختلاف سامنے آیا عدلیہ نے فیصلے دئیے جن کو فریقین نے تسلیم بھی کیا اگر چہ کسی فریق کی جانب سے تحفظات کا اظہار ہوامگر عدالتی فیصلے اور عدالت یا ججوں کو متنازع نہیں بنایا گیا،اور یہ صورتحال صرف اس لئے پیدا ہوئی کہ ”تیرا افسر میرا افسر“،”تیرا جج میرا جج“سے بہت پہلے ”تیرا پاکستان میرا پاکستان“ کی گردان شروع ہو گئی تھی،بہت پرانی بات نہیں،نواز شریف بینظیر بھٹو اور بینظیر بھٹو نواز شریف کو سکیورٹی رسک قرار دیا کرتے تھے،مگر آج مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ہم نوالہ و ہم پیالہ ہیں،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ماضی میں ان کے ایک دوسرے پر الزامات درست تھے تو آج دونوں صادق اور امین نہیں رہتے،جس کے نتیجے میں وہ آئینی طور پر کسی عوامی عہدے کیلئے اہل نہیں رہتے،شایداب ”تیرا آئین اور میرا آئین“کی تکرار ہو گی۔
مسلح افواج نے جنرل راحیل شریف کے دور میں ہی خود کو سیاست و حکومت سے دور رکھنے کا پیمان باندھا تھا اور اب تک اپنے اس عزم کو قائم بھی رکھے ہوئے ہے،مگر ملکی سرحدوں کی محافظ،قومی سلامتی کی ضامن،ملک دشمنوں کیلئے آہنی فورس خود کو ملکی معاملات سے اس طرح الگ کر لے کہ بد ترین حالات میں بھی بگڑے بچوں کو سیدھا نہ کیا جائے تو پھر ملک و قوم کا اللہ مالک ہے،اگر چہ مناسب فورم تو عدلیہ ہی ہے جو ایسے نازک وقت میں آئین کی روح کے مطابق فیصلوں سے تنازعات کو حل کرتی رہی ہے مگر آج اس فورم کو بھی متنازع بنا دیا گیا ہے،عدلیہ کے پاس صرف فیصلہ دینے کا اختیار ہے فیصلے منوانے کیلئے کوئی فورس ہے نہ عملدرآمد کرانے کیلئے ڈنڈا اس کے ہاتھ میں ہے،اس نازک مگر پیچیدہ اورسنجیدہ صورتحال میں وہی طاقت مصالحت کرا سکتی ہے جو فیصلوں پر عملدرآمد کرانے کیلئے مناسب فورس بھی رکھتی ہو وہ فورس صرف آرمی ہے۔
ریاست اس وقت انتہائی گھمبیر صورتحال سے گزر رہی ہے،آئینی ادارے باہم دست و گریبان ہیں،زیادہ سے زیادہ اختیار اپنے ہاتھ میں رکھنے کی جنگ عروج پر ہے،ریاستی اداروں میں مداخلت کا چلن عام ہے،کیا معلوم ریاستی اداروں کو کمزور کرنے کی بھی سازش ہو رہی ہے،عوام کا کوئی پرسان حال نہیں،عوامی مینڈیٹ کا احترام نہیں،قوم کی بھاری اکثریت کو نمائندگی سے محروم کیا جا رہا ہے،صرف آرمی ایسا ادارہ ہے جو اس تشویشناک صورتحال میں ثالثی کرے اور سب کو ڈائیلاگ کی میز پر لائے،ایک دوسرے کی بات اطمینان سے سن کر کچھ اپنی منوا اور کچھ دوسرے کی مان کر درمیانی راہ نکالی جائے، قیام پاکستان کے بعد جب بھی ملک میں کوئی ایسا بحران آیا تو اکثر ہمارے سیاستدانوں نے سنجیدگی دکھائی، ماضی میں ہمارے یہی سیاستدان ایک متفقہ دستور پر اکٹھے ہو گئے تھے تو اس وقت ملک کو بحران سے نکالنے کے لئے بھی ایک ہو سکتے ہیں،آرمی چیف تمام متحارب سیاستدانوں کو بلائیں اور ان کو ایک کمرے میں بند کر دیا جائے اس شرط کیساتھ نکلنے کی اجازت ہو کہ ملک کے تمام مسائل کا کوئی متفقہ حل تلاش کر کے نکلیں،الیکشن کب کرانا،آئین کی تشریح کا ذمہ دار ادارہ کون ہے، ریاستی اداروں کی کیا حدود و قیود ہیں،مداخلت سے کیسے باز رہنا ہے ملکی سلامتی اور جغرافیے کیساتھ نظریاتی حدود کی کیسے حفاظت کرنا ہے،ہم تو خوش قسمت ہیں کہ ایک متفقہ آئین طباعتی شکل میں ہمارے پاس ہے،برطانوی آئین آج تک تحریری شکل میں نہیں ہے،یوں قانون سازوں کیلئے برطانوی آئین کا از بر کرنا ضروری ہے،جبکہ ہمارے قانون ساز آئین کی الف،ب سے واقف نہیں اور آئین میں خامیاں تلاش کرتے ہیں،یہ صورتحال ملکی سلامتی کیلئے کسی طور مناسب نہیں اور مسلح افواج کی یہ ذمہ داری ہے کہ جہاں آئین کی روح کو مسخ کیا جائے اس کا راستہ روکیں،آرمی چیف نے درست کہا کہ ”ہمارے پاکستان“ کی بات ہونی چاہے۔