محمود بھٹی بنام وزیراعظم

محمود بھٹی بنام وزیراعظم

لاہور کے علاقے سمن آباد میں بسطامی روڈ ہے،یہ تنگ مگر مصروف سی سڑک ملتان روڈ پر جا کے نکلتی ہے اوراس سے بہت ساری چھوٹی سڑکیں اور گلیاں دائیں بائیں، یہ مڈل اور لوئر مڈل کلاس کی آبادی ہے اور اسی آبادی کے سات آٹھ مرلے کے ایک گھر میں ایک یتیم نوجوان محمود بھٹی رہا کرتا تھا، ایک عام سا لڑکا، کچھ بھی خاص نہیں تھا، تھڑوں پر وقت بھی گزرتا اور پھر گزر اوقات کے لئے انارکلی سے لے کر شیزان فیکٹری کے علاقے تک چھوٹے کے طور پر کام بھی کرتا مگر آج سے چالیس، بیالیس سال قبل یہ کم عمر لڑکا اچانک فرانس چلا گیا اور وہاں کا مشہور فیشن ڈیزائنر بن گیا۔ مجھے امریکہ اور یورپ جیسے ممالک اس لئے پسند ہیں کہ وہ اپنے اندر میرٹ رکھتے ہیں، وہ ٹیلنٹ اور محنت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ پاکستان میں بھی ایسا ہی ہو مگر یہاں ادارے نہیں، نظام نہیں صرف افراد ہیں۔
محمود بھٹی، میرے سامنے بیٹھے ہوئے تھے اور اپنی داستان سنا رہے تھے۔ وہ نوجوانوں کو پیغام دے رہے تھے کہ کامیابی اچانک نہیں ملتی، اس کے لئے محنت اور دیانت کو شعار بنانا پڑتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ بیرون ملک درختوں پر پیسے لگے ہوئے ہیں اوروہاں جانے والے پاکستانی انہیں توڑ توڑ کر بوریوں میں بھر کے بھیجتے رہتے ہیں، نہیں، ایسا نہیں ہے، وہاں بھی محنت کرنا پڑتی ہے، اپنی جان مارتے ہیں تو کماتے ہیں۔ پاکستانی نژاد فرانسیسی فیشن ڈیزائنر بتا رہا تھے کہ وہ پاکستان سے فرانس جاتے ہوئے انہیں ہوائی جہاز میں سیٹ بیلٹ نہیں باندھنی آتی تھی، انہوں نے لنڈے سے ایک کوٹ پینٹ خریدا تھا، اس کوٹ کے بازو لمبے تھے اورپینٹ کو باندھنے کے لئے بیلٹ بھی نہیں تھی تو رسی سے کام لیا تھا مگر پھر اسی نوجوان نے لاہور کے مہنگے ترین علاقے ڈیفنس میں مشہور ترین نیشنل ہسپتال بنا لیا۔ بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ یہ ہسپتال کون سا غریبوں کے لئے ہے اور میں کہتا ہوں کہ ہسپتال ہوں یا تعلیمی ادارے اور ہوٹل، یہ غریبوں کے لئے نہ بھی ہوں تو یہ صحت ، تعلیم اور روزگار کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔آپ اگر مہنگے پرائیویٹ ہسپتال افورڈ نہیں کر سکتے تو بہت سارے کر بھی سکتے ہیں، یہ ملکی جی ڈی پی کو بڑھاتے ہیں اور یوں میں ہراس سرمایہ کار کو اپنا محسن سمجھتا ہوں جو بیرون ملک سے کما کے پاکستان لاتا ہے اور یہاں سرمایہ کاری کرکے روزگار دیتا ہے۔ یہ وہی نیشنل ہسپتال ہے جس میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار جا پہنچے تھے اور وہاں ان کی برتن کھڑکھانے کی ویڈیو بہت مشہور ہوئی تھی۔ انہوں نے دنیا کی معروف اور کامیاب ترین فیشن ڈیزائنر کی طرف توہین آمیز طریقے سے انگلی بڑھاتے ہوئے کہا تھا اوئے، تم نے یہ کپڑے کس قسم کے پہنے ہوئے ہیں۔
میں نے کہا کہ ہمارے پاس ادارے نہیں ہیں، نظام نہیں ہے، قانون نہیں ہے مگر ہمارے پاس افراد ہیں جو خود پسند ہیں اور بہرصورت اپنی واہ واہ چاہتے ہیں۔ ثاقب نثار نے اپنے دور میں جو کچھ کیا یقینی طور پر وہ اس کے بدلے تاریخ میں اپنا نام لکھوا کے جائیں گے جو ان کے پیش رووں کی فہرست میں بہت اوپر ہو گا، ہمارے ایمان اور عقیدے کے مطابق وہ اس کا صلہ اللہ سے بھی پائیں گے، اللہ اور اس کے رسول نے انصاف کرنے اور نہ کرنے والے منصفوں کے بارے بہت واضح طورپر بتا رکھا ہے کہ ان سے کیا سلوک ہو گا۔ثاقب نثار کے اس روئیے نے محمود بھٹی کو اتنا دلگرفتہ کیا کہ انہوں نے لاہور میں فیشن اور میڈیکل کے حوالے سے بین الاقوامی معیار کی یونیورسٹی بنانے کا اپنا پراجیکٹ ملتوی کردیا۔ جناب ثاقب نثار کی میڈیا پر آنے کی یہ 
بہت بڑی قیمت تھی جو پاکستان نے ادا کی۔ آج محمود بھٹی کی اہلیہ اور اولاد کہتی ہے کہ وہ پاکستان کیوں جائیں، جہاں کوئی نظام ہی نہیں، جہاں کوئی انصاف ہی نہیں، جہاں ان کی زندگیوں کو خطرات ہیں۔ اب یہ زندگیوں کو خطرات والے معاملے کو بھی سن لیں جس پر بہت سارے اخبارات و جرائد نے ان کے انٹرویوز اور مضامین شائع کئے اور جناب چیف جسٹس سے اپیل کی کہ وہ اس معاملے کا نوٹس لیں ۔ معاملہ یہ ہے کہ بیرون ملک پاکستانیوں کا سب سے بڑامسئلہ یہ ہے کہ یہاں ان کی جائیدادوں پر قبضے ہوجاتے ہیں کیونکہ ان کی دیکھ بھال اور حفاظت کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ محمود بھٹی کہتے ہیں کہ انہوں نے خود یتیمی دیکھی لہذا خواب دیکھا کہ وہ اپنے شہر او ر وطن کے یتیموں کے لئے لاہور میں ایک سٹیٹ آف دی آرٹ قسم کا یتیم خانہ بنائیں گے۔ انہو ں نے اس کے لئے ملتان روڈ پر کئی ایکڑ جگہ خریدی۔ بیرون ملک کاروباری حضرات اپنی مصروفیات کے باعث وکیلوں کو پاور آف اٹارنی دے دیتے ہیں اور وہ اس پر قانونی معاملات نمٹاتے رہتے ہیں اور یہی کام محمود بھٹی نے یہاں ایک معروف وکیل کے ساتھ کیا اور اس وکیل نے مبینہ طور پر وہ زمین خود کو اپنی اہلیہ کو گفٹ کر دی جوپروفیشنل ازم، قانون اور اعتماد کا قتل تھا۔جب محمود بھٹی نے یا کچھ صحافیوں نے اس پر آواز اٹھائی تو ان پر مقدمے درج کروا دئیے گئے کیونکہ قانون وکیلوں کے گھر کی لونڈی ہے، ایک لونڈی اور بھی ہے مگر اس کا نام لینے سے اس کی توہین ہوجاتی ہے سو اب محمود بھٹی کو ان سے جان کا خطرہ بھی ہے اور وہ پاکستان آ کے اپنے مقدمات بھی بھگتتے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے وطن کے یتیموں کی بھلائی کا سوچا تھا۔
محمود بھٹی کہتے ہیں کہ انہوں نے چیف جسٹس پاکستان سے درخواست کی کہ انہوں نے پاکستان میں رات بارہ بجے عدالتیں کھلتی اور فیصلے ہوتے دیکھے ہیں لہذا وہ ان کے تمام مقدمات کی فائلیں اپنے پاس منگوا لیں۔ ان کا موقف سنیں اور ان وکیل صاحب کا بھی۔ اگر چیف جسٹس یہ سمجھتے ہیں کہ محمود بھٹی نے واقعی بیرون ملک سے کمائی اپنی دولت یہاں لانے اور اس سے ایک یتیم خانہ بنانے کا خواب ایک غلطی تھی، ایک جرم تھا تواس کی سزا کے طور پر انہیں مینار پاکستان پر پھانسی دے دی جائے۔ بہت سارے اخبارات و جرائد میں یہ پیشکش شائع ہونے کے باوجود ابھی تک محمود بھٹی کو طلنب نہیں کیا گیا، انہیں سزا نہیں دی گئی۔ میں بھی چاہتا ہوں کہ پاکستان میں کسی بھی اچھا سوچنے اور کرنے والے کو ایک مرتبہ ضرور مینارپاکستان پر پھانسی دی جائے تاکہ آئندہ اس خرابے میں کوئی بہتری کا نہ سوچے۔ چیف جسٹس والی استدعا پر بھی ابھی تک ردعمل نہیں آیا لہذا میں سوچ رہا ہوں کہ اب وزیراعظم سے اپیل کی جائے کہ وہ محمودد بھٹی کو بلائیں اور انہیں اس جرم پر اپنے ہاتھ سے گولی مار دیں کہ وہ پاکستان اور پاکستانیوں کے بارے کیوں سوچتے ہیں، وہ یہاں ہسپتال، یونیورسٹی اوریتیم خانے کیوں بنانا چاہتے ہیں۔ جب وہ اس ملک سے چلے گئے تھے تو اپنی دولت بھی فرانس، برطانیہ اور امریکا میں ہی رکھتے۔ پاکستان میں اپنا پیسہ لا کر وہ یہاں کے مافیاوں کے کاروباروں کے مقابلے میں کیوں آتے ہیں۔ انہیں سزا اس لئے بھی ملنی چاہیے کہ انہوں نے قبضہ گروپ کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ ہمارے ملک میں سب سے مقدس، اہم اورطاقتور قبضہ گروپ ہی ہیں چاہے وہ کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں۔

مصنف کے بارے میں