گونگے…… بہرے…… ”دن سنہرے“

 گونگے…… بہرے…… ”دن سنہرے“

 فرخ شہباز وڑائچ …… صبح صبح ملنے آیا…… کچھ پریشان تھا…… آپ کے ذہن میں ”وڑائچ طیارہ“ آ گیا ہو گا۔ میں نے اک گدھا گاڑی کے پیچھے لکھا دیکھا تو…… ہنسی نکل گئی…… پہلے پہل ”وڑائچ طیارہ“ جیسے الفاظ…… جب لاہور فیصل آباد سنگل روڈ ہوتی تھی، بڑی بڑی ”خونخوار“ بسوں کے پیچھے لکھے ہوتے تھے…… ”وڑائچ طیارہ“…… قسم کی بسوں کے ڈرائیور کو اگر کوئی ڈرائیور کہتا تو وہ ”کھانے کو دوڑتا“ تھا…… ”اُستاد“ کہلانا البتہ اُن کو پسند تھا یا پھر ”مرشد جی“!…… یہ لفظ ”مرشد جی“…… آج بھی عام ہوتا چلا جا رہا ہے اور پسند بھی کیا جاتا ہے۔
یہ اُن ڈرائیوروں کو خود بھی اندازہ نہ تھا کہ وہ کس چیز کے اُستاد ہیں، کس قسم کے اُستاد ہیں …… اور ”استادی“ کے مقام پر فائز ہو جانے سے پہلے…… وہ…… سکول سے ساتویں جماعت میں فیل ہو جانے پر بھاگ نکلے تھے…… پھر کسی ورکشاپ پر ”استاد جی“ کے ہاتھوں ”پلگ پانا“ سے مرمت کرا کر…… ”میڈم جی“ کی مرمت کے لیے آئی گاڑی پر چوری چھپے ڈرائیونگ سیکھنے کے چکر میں …… ”دھڑل“ دیوار گرا چکے ہیں …… اور ”میڈم جی“ بے چاری بریک ٹھیک کرانے آئی تھی۔ ”چھوٹے“ کو استاد بنا گئیں …… اور مذاق مذاق میں ان کو پچاس ہزار کی ”بھنڈی توری“ کھانا پڑ گئی! اچھی بجلی ”میراں“ جیسی گاڑی کی شکل اللہ دتہ لونے والے جیسی ہو گئی؟
میں ایسی ”میڈم جی“ کو جانتا ہوں …… یہ بے چاری سوشل ہونے کے چکر میں …… ورکشاپ وغیرہ پر جائیں تو گندے سٹول پر یہ شو کرنے کے لیے بیٹھ جاتی ہیں …… روٹی کھاتے ”چھوٹوں“ کے ساتھ یہ کہہ کر ”بھنڈی“ کے ساتھ ایک آدھ لقمہ بھی لے لیتی ہیں …… ”وی آر …… آل، ہیومن بینگ“…… اور جب ”چھوٹا“ ایسی میڈم جی کی گاڑی دیوار میں دے مارتا ہے تو سخت غصے میں دانت پیستے ہوئے…… کانپتے ہوئے زور سے چلاتی ہیں …… ”حرامی اے کی کیتا ای“۔
میڈم جی…… گھر چل پڑی ہیں۔ رکشا کرا کے اور گاڑی ہفتے کے لیے ”بک“ ہو جاتی ہے اور ”چھوٹا“ دل ہی دل میں کامیاب ڈرائیور بن جانے پر خوش ہوتا ہے اور تصور میں …… گاڑی پر کپڑا مارنا آسمان پر بلندیوں پر اڑنے لگتا ہے۔ ”چارانجن“ والا جہاز…… اور ایئر ہوسٹس کی نہایت سریلی مدھر آواز…… کھٹکھٹاتے جوس سے لبالب گلاس اور ”عالم لوہار“ کے چمٹے والے……گیت!۔
”چھوٹو…… آنکھیں بند کر لو……“ ”بھنڈی توری“ کے ساتھ کھانا کھاتے اور میڈم جی کی گاڑی کا بیڑا غرق کر چکنے کے بعد ہم پندرہ ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرنے والے ہیں۔ راستے میں ہم آپ کو لیموں پانی پلائیں گے اور پانچ پانچ روپے چندہ اکٹھا کر کے ایک ایک کٹی ہوئی مولی بھی کٹھا ڈال کے زیادہ مرچوں کے ساتھ پیش کریں گے۔ گویا ”چھوٹا“ فل موڈ میں تھا…… اور مزے لے رہا تھا…… بغیر ٹکٹ!۔
ایسے میں ”شاہ جی“ آ کر سر پر زور سے ”پلگ پانا“ مارتے ہیں اور ”پرواز“ ایک دم سے پندرہ ہزار فٹ کی بلندی سے سیدھا ایک دو فٹ کی بلندی پر آ گرتی ہے۔
”حرامی…… تو نے بھی پکا سگریٹ اس کم عمری میں ہی پینا شروع کر دیا ہے“۔
اسے استاد کا منہ کسی بھارتی فلم کے بدنام زمانہ ”ولن جیسا لگا…… جس کے ہتھوڑے جیسے ہاتھ اور نازک ”چھوٹا“ بے چارہ…… ایسے استاد اور ایسے وڑائچ طیارے ہمارے اردگرد موجود ہیں اور آئے دن آپ اخبارات میں پڑھتے ہیں ”نیند میں بس چلاتے ڈرائیور نے درخت میں مار ڈالی…… چالیس ہلاک“۔
بات فرخ شہباز وڑائچ سے شروع ہوئی تھی چل نکلی ”استادوں“اور ”مرشدوں“ کی طرف!
فرخ شہباز وڑائچ لکھاری ہے اور سلجھا ہوا ایسا لکھاری ہے جس کی ”گریپ“ تحریر پر اوائل عمری میں ہی بڑے لکھاریوں جیسی ہے…… ویسے کچھ بڑے لکھاریوں کی گرپ نہ اب خود پر رہی ہے نہ ہی تحریر پر…… یہ وقت تو خیر سب پر آنا ہے (کیونکہ جب لکھاری سیاست میں الجھ جائیں …… ”کالم نگار“ بن جائیں یا خود کو تیس مار خان سمجھنے لگیں تو …… پھر وارے نیارے ہو جاتے ہیں مگر بدنامی تو پھر ہو کے رہتی ہے)۔
”مظفر صاحب…… پانچ سال بعد ماجد بہرہ ہو جائے گا“۔
”فرخ حیرت سے بولا!“
”اور اب“۔
وہ ہنس پڑا…… مجھے تو آج کل بھی وہ بہرہ ہی لگتا ہے۔ ہم نے واک کرتے ہوئے جناح باغ میں۔
میں نے پوچھا…… ”ماجد مسواک لے لیں“۔
”جی ہاں …… کھالوں گا!“
”ہائیں؟“
اس نے کانوں پہ ”واک مین“ چڑھایا ہوا تھا۔ چوبیس میں سے اٹھارہ بیس گھنٹے وہ ہوتا ہے اور بہرہ کر دینے والا ”واک مین“ اسے دنیا سے بے نیاز کیے رکھتا ہے!
مجھے استاد کمر کمانی کی ماحول کو شگفتہ بناتی گفتگو یاد آ گئی۔
استاد امرود کو تربوز سمجھتا ہے۔
غلیل کو چڑیل سنتا ہے…… سلطان راہی کو ملتان راہی کہتا ہے…… نعمان کو گلدان سمجھنے لگتا ہے اور خوش ہے۔
میں نے کہا…… استاد جی…… ایک ہمارے سیاستدان خوش ہیں دوسرے آپ؟…… کراچی میں قتل و غارت…… صوبہ سرحد میں دہشت گردی مگر سیاست دان خوش…… استاد نے میرا کندھا تھپتھپایا اور بولا…… مر جائے گا زیادہ اُداس نہ وہا کر…… ہمارے والا فارمولا اپنا لے۔
وہ کون سا؟ …… میں نے پوچھا؟
تو استاد بولا…… ”گونگے، بہرے…… دن سنہرے“۔