80 فیصد سیاستدان کرپٹ ہیں، ن لیگ کا وہی حال ہے جو 2013 میں پیپلز پارٹی کا تھا: ندیم افضل چن 

80 فیصد سیاستدان کرپٹ ہیں، ن لیگ کا وہی حال ہے جو 2013 میں پیپلز پارٹی کا تھا: ندیم افضل چن 

اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما ندیم افضل چن نے حکومتی اتحاد سے الگ ہونے کے تأثر کو مسترد کرتے کہا  کہ حکومت آئینی مدت پوری کرے گی اور پیپلز پارٹی آئینی مدت کی تکمیل تک حکومت میں رہے گی۔80 فیصد سیاستدان کرپٹ ہیں۔ 

ویب سائٹ "اردو نیوز "کو انٹرویو دیتے ہوئے  ندیم افضل چن نے کہا کہ ہم ن لیگ تھوڑی ہیں کہ پہلے چھ ماہ میں ہی کہہ دیں کہ مشکل حالات ہیں تو ’ہم یہ گئے‘ جیسے 2008 میں ہوا تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان چھوٹے چھوٹے سیاسی اختلاف ضرور ہیں اور ہونے بھی چاہییں کیونکہ مرکزی قیادت پر دوسرے تیسرے درجے کی قیادت اور کارکنان کا دباؤ ہوتا ہے۔ لیکن اتنے اختلافات نہیں ہیں کہ ہم گالم گلوچ کی طرف چلے جائیں۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سابق چیئرمین نے کہا کہ ن لیگ ہماری اتحادی جماعت ہے۔ پیپلز پارٹی نے ان کو وزارت عظمیٰ دی ہے اور کوئی لالچ نہیں کیا۔ میرے خیال میں ن لیگ کو پنجاب، کے پی اور اسلام آباد میں سپیس دینی چاہیے۔ وزیراعظم نے آج بھی اسلام آباد میں ایک منصوبے کا افتتاح کیا تھا۔ ہمارے سیکرٹری جنرل یہاں سے ہیں، ہمارے امیدوار ہیں، اگر وزیراعظم ان کو بلا لیتے تو کیا حرج تھا۔ آپ ہمارے بھی وزیراعظم ہیں، آپ سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک کریں۔ پنجاب میں اگر آپ اپنے ہارے ہوئے امیدواروں کو منصوبے دے رہے ہیں تو بیس تیس فیصد پیپلز پارٹی کو بھی دیں۔

عام انتخابات میں ن لیگ کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹنٹ کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ندیم افضل چن کا کہنا تھا کہ ’ہماری کوئی اتنی خواہش ہے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی اور نہ ہی ہم اس کے لیے مرے جا رہے ہیں۔ اس وقت ن لیگ کے ساتھ اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ اتنے فائدے میں نہیں ہے۔ گراؤنڈ پر صورت حال دیکھیں تو ن لیگ کی وہ صورت حال ہے جو 2013 کے انتخابات میں ہماری (پیپلزپارٹی) کی تھی۔

ایک سوال کے جواب میں ندیم افضل چن نے بتایا کہ ’بحث ہوئی تھی اور سب سے رائے مانگی گئی تو میں نے کہا کہ اگر ہم اپنی نظریاتی مخالف جماعت اسلامی سے بات کر سکتے ہیں تو پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کا جو ورکر ہے وہ بنیادی طور پر پیپلز پارٹی کا پرانا ورکر ہے۔ ان کے والدین پی پی سے تھے، ان کے خاندان اور خون اور خون جو ہے،  وہ پرانا پیپلیا خون ہے وہ بھٹواسٹ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’پی ٹی آئی ورکرز موٹیویشنل تقریریں سن سن کر ریاست اور اداروں کے خلاف ہو گئے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں ان لوگوں ہمیں انگیج کرنا چاہیے۔ ہمیں ان کو اس جھنجھٹ سے نکالنا چاہیے۔پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کے حوالے سے میں نے تجویز دی اس پر بحث ہوئی اور اکثریت نے پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کی مخالفت کی۔

ندیم افضل چن نے کہا کہ ’نو مئی کو جن لوگوں نے املاک کو آگ لگائی اور نقصان پہنچایا ہے ان کے خلاف ایکشن ہونا چاہیے۔ لیکن یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہم سیاسی لوگ اپنے حلقوں میں لسٹیں دیں کہ یہ لوگ ملوث ہیں، ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ پی ٹی آئی کے ورکرز یا اپنے مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔

مستقبل کے سیاسی منظرنامے پر بات کرتے ہوئے ندیم افضل چن نے کہا کہ ’اگر شفاف انتخابات ہوئے تو پرانے ضیا الحقی مائنڈ سیٹ کو شکست ہو گی۔ پروگریسو، لبرل اور جمہوری لوگ جیتیں گے۔ کے پی کے میں ایک سیاسی جماعت کے لیے کوشش کی جا رہی اور اس کا پلڑا بھاری ہے جو کہ زیادتی ہے۔ سب جماعتوں کو ایک جیسا موقع ملنا چاہیے۔‘  

  

موجودہ حکومت کی تشکیل اور مستقبل میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کے حوالے سے ندیم افضل چن نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کا ہمیشہ اثرورسوخ ہوتا ہے اور ہر دور میں رہا ہے۔ کبھی زیادہ اور کبھی کم ہوتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں (سیاسی کلاس کو) اپنی ذمہ داریاں خود نبھانی چاہییں اور اداروں کو ملوث نہیں کرنا چاہیے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ ادارے نے تو سیاست میں مداخلت سے باہر رہنے کا اعلان کر دیا تھا تو ندیم افضل چن نے کہا کہ اداروں نے نیوٹرل ہونے کی کوشش کی تو ہم نے انہیں گالیاں دینا شروع کر دیں۔ میں نے جنرل باجوہ کے سامنے کہا تھا کہ آپ نے غلط کیا ہے اور انہوں نے تسلیم بھی کیا۔ جب انہوں نے کوشش کی تو ہم نے انہیں جانور کہا اور نیوٹرل کو گالی بنا دیا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’میرے والد صاحب کی خواہش ہے کہ میرے بچے سیاست چھوڑ دیں۔ اگر حکم دیں گے تو میں ان کے حکم کا پابند ہوں گا۔ ابھی انہوں نے مشورہ دیا ہے تو اس پر میں اپنی جماعت کا بھی پابند ہوں اس لیے اپنی جماعت سے بات کروں گا۔

انہوں نے کہا کہ ’والد صاحب سمجھتے ہیں کہ آپ ایماندارانہ سیاست نہیں کر سکتے۔ ملک کا نظام ایسا ہے کہ منتخب ارکان کچھ نہیں کر سکتے۔ پہلے ووٹ کے لیے عوام کی منتیں کرتے ہیں اور پھر بیوروکریسی کی منتیں کرنا پڑتی ہیں۔ ہم دفتروں میں بھیک مانگتے ہیں۔اگر سوچنے والا دل ہو تو اسے اللہ کو جواب دینے کا خوف بھی ہوتا ہے لیکن ہمارے 80 فیصد ساست دان یا تو خود کرپٹ ہیں یا پھر سہولت کار ہیں۔

مصنف کے بارے میں