شہباز کرے پرواز مگر کب تک

شہباز کرے پرواز مگر کب تک

اس ملک کی کشتی بیچ منجھدار کے کیوں نہیں ڈوبے گی جب ملک کی سلامتی کے اداروں سے لے کر وہ تمام طبقات جو حکومت کرنے کا اختیار رکھتے ہیں ایک دوسرے سے باہم دست و گریبان ہوں۔  ایک عمران خان کو کیا دوش دینا کہ یہاں تو سارے ہی اس ڈگر پر چل رہے ہیں۔ کیا یہ بات ثابت نہیں ہو گئی کہ سیاسی حکومتوں کو گرانے میں کچھ ادارے ملک کے اندر اکھاڑ پچھاڑ کرنے میں ہمیشہ سے سرگرم عمل رہے اور سیاست دان حکومت حاصل کرنے کے لیے ان کے ساتھ سازباز کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ یہاں پر ایسے سیاستدان بھی موجود ہیں جو ان کے ترجمان بن کر عوام اور سیاستدانوں کو بلیک میل کرتے رہے۔ اس ملک پر عوامی حکمرانی کا راج ابھی کوسوں دور ہے۔ عوامی راج اسی وقت آئے گا جب عوام فیصلے کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے اور یہاں ابھی تک یہ چلن شروع نہیں ہوا۔ یہ مملکت خداداد ووٹ کی طاقت سے بنی تھی مگر اب اس پر ان طبقات نے قبضہ کر رکھا ہے جو ووٹ کے تقدس پر یقین رکھنے کے لیے تیار نہیں۔ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ ہم سب لگاتے ہیں مگر موقع ملتے ہی خفیہ یا اعلانیہ معاہدے کر کے ان کے ساتھ شراکت داری میں شامل ہو جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ آج سے نہیں بلکہ اس کی تاریخ کئی دہائیوں پر مشتمل ہے۔ اس سارے کھیل کا آغاز ایوب خان کو بطور آرمی چیف وزیر دفاع بنانے سے ہوا تھا۔ بس پھر کیا تھا کہ چھٹتی نہیں ہے ظالم منہ کو لگی ہوئی۔
ڈالر نے اونچی اڑان بھری ہے اور کوئی اس پر روک لگانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ دہائیوں تک ملکی وسائل کا جس بے دردی سے استعمال کیا گیا آج حالات یہ ہیں کہ ملک ایک ایک ڈالر کو ترس رہا ہے۔ پاکستان ان ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر ہے جو دیوالیہ ہو سکتے ہیں۔ یہاں سری لنکا کی مثالیں دی جا رہی ہیں جناب وہاں انقلاب نہیں آیا بلکہ ملک ڈوب رہا ہے اور آپ اس ملک کو سری لنکا بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ڈالر کی اونچی اڑان کو صرف مستحکم سیاسی ماحول دے کر روکا جا سکتا ہے اور بدقسمتی سے یہاں کے حالات دن بدن خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ کسی ایک ادارے پر انگلیاں اٹھانے کی بجائے سب کے کردار پر نظر ڈالیں ہر ایک اپنے اپنے مفادات کے تابع ملک کی تقدیر کے ساتھ کھیلنے کے لیے ہمہ وقت کوشاں ہے۔ کیا یہ بات ثابت نہیں ہو گئی کہ اس ملک کا ایک سابق چیف جسٹس جس کا نام ثاقب نثار ہے اس نے حکومتی اداروں کی اکھاڑ پچھاڑ میں سب سے اہم کردار ادا کیا تھا مگر اب بھی وہ آزاد گھوم رہا ہے۔ ایک خفیہ ایجنسی کا سربراہ منتخب حکومت کو گرانے کی سازش کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا اور ایک سیاسی جماعت کی نشوونما کے لیے اس کی مکمل آبیاری کرتا رہا مگر اسے کوئی پوچھنے والا نہیں اور اسے اپنے اس عمل پر چنداں ندامت نہیں۔ وجہ صرف یہی ہے کہ ان کے پیچھے وہ طاقتیں اور سہارے موجود ہیں جن کے ایما پر وہ یہ سب کچھ کرتے رہے۔کیا جنرل ظہیر الاسلام کی ایک سیاسی پارٹی میں کی جانے والی تقریر کے بعد ان سے ریٹائرمنٹ کے بعد دی جانے والی مراعات کو واپس نہیں لیا جانا چاہیے تھا۔ میں نے گزشتہ کالم میں بھی یہ عرض کیا تھا کہ فوج پر تنقید اس وقت شمار ہو گی جب فوج کے آئینی اور قانونی کام کو ہدف تنقید بنایا جائے گا لیکن فوج اگر غیر قانونی اور غیر آئینی کام کرے گی تو کیا اس پر تنقید کی جا سکتی ہے یا نہیں؟ آئین اور قانون کی کسی کتاب میں یہ 
درج نہیں ہے کہ عسکری ادارے ملک کی سرحدوں کا دفاع کرنے کے ساتھ ساتھ سیاست کو اپنی مرضی سے تشکیل دینے کا کام بھی کریں گے۔ عمران خان بار بار نیوٹرلز کو کیوں پکارتے ہیں اور کیوں اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ نیوٹرلز اس کا ساتھ دیں۔ میرے نزدیک فوج کی جانب سے یہ بہت بڑا بیان تھا کہ فوج آئندہ صرف پیشہ ورانہ سرگرمیوں تک محدود رہے گی تو اس موقع کو غنیمت سمجھا جانا چاہیے تھا مگر نہیں صاحب کچھ قوتوں کی سیاست ہی ان کی مداخلت کی مرہون منت ہے۔ 
جس ملک میں سیاست ہر پل بدل رہی ہو وہاں روپیہ کیونکر مضبوط ہو سکتا ہے اور ایسے ملک میں سرمایہ کار کیوں سرمایہ کاری کرے گا۔ جس دن شہبازشریف نے حکومت سنبھالی تھی اس دن ڈالر نیچے بھی آیا اور سٹاک ایکسچینج بھی مستحکم ہوئی مگر ان کی گومگو کی پالیسی نے حالات کو اتنا خراب کیا کہ ڈالر کی اڑان رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ آپ اس سارے عمل میں عمران خان کو کتنا دوش دیں گے کہ آپ خود سیاسی نظام کو کمزور بنانے کے لیے اہم کردار ادا کرتے رہے۔ ضمنی انتخابات میں نتائج نے مسلم لیگ ن کے غبارے سے تمام ہوا نکال دی اور آج فیصلہ بھی ہونے جا رہا ہے کہ صوبے میں کس کی حکومت ہو گی تو اس کے بعد حالات کیونکر صحیح ہو سکتے ہیں کہ مرکز کی حکومت کو کسی بھی وقت گرایا جا سکتا ہے۔
مسلم لیگ کو اس سارے کھیل میں سوائے شرمندگی اور گزشتہ حکومت کی بری کارکردگی اپنے کھاتے میں ڈالنے کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ ہاں یہ ضرور ہوا ہے کہ شہبازشریف کچھ دن کے لیے وزیراعظم بن گئے ہیں اور ان کے برخوردار حمزہ شہباز وزیراعلیٰ بنے۔ شہبازشریف کا یہ زعم بھی ختم ہوا کہ اس ملک کامقتدر طبقہ ان کے ساتھ رہا ہے اور وہ اسے وزیراعظم بنا کر ملک کو تیزی سے ترقی کی راہ پر ڈالنے کا خواہاں ہے۔ ان انتخابات نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز عمران خان کا سیاسی میدان میں مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں اگر اس انتخابی مہم سے مریم نواز کو باہر نکال دیا جاتا تو تحریک انصاف کے لیے میدان صاف ہو جاتا۔ عمران خان کا مقابلہ کرنا ہے تو اس کے مقابلے میں ہیوی ویٹ اتارنا ہو گا اور وہ ہیوی ویٹ نوازشریف کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہیں۔ اس ہار کی کوئی بھی تاویل کریں مگر آپ ہارے ہیں اور بری طرح ہارے ہیں اسے تسلیم کریں۔ آپ کا یہ خمار بھی اتر گیا کہ کھمبے کو ٹکٹ دے کر بھی جتایا جا سکتا ہے۔ 
جس کے جانے کا وقت قریب آ گیا ہو اسے کتنی دیر تک لائف سپورٹ پر زندہ رکھ سکتے ہیں مصنوعی انداز سے اسے کتنی دیر آکسیجن فراہم کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے حکومت کو مذاق سمجھ لیا تھا۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ وزیر اطلاعات کے لیے مریم اورنگ زیب کا انتخاب درست تھا۔ کیا ان میں یہ اہلیت موجود ہے کہ وہ میڈیا کی مینجمنٹ کر سکیں انہیں صرف ایک ہی زبان آتی ہے اور اس کا اظہار وہ ہر روز ٹی وی پر بیٹھ کر کرتی ہیں۔ اگر انہیں صرف اسی کام کے لیے رکھنا ہے تو کوئی اور وزارت دے کر بھی ان سے یہ کام لیا جا سکتا تھا۔ آپ کے پاس دوسرے ہیوی ویٹ موجود تھے مگر آپ نے انہیں پیچھے رکھا۔ کیا پرویز رشید ایک اچھا انتخاب نہیں تھا، کیا مشاہد حسین کی خدمات صرف پاک چین معاملات تک ہی محدود رکھی جانی چاہیے تھیں۔ سعد رفیق کو وزیر اطلاعات بنایا جا سکتا تھا کم از کم تحریک انصاف ان پر کنیز خاص ہونے کا الزام تو عائد نہ کرتی اور وہ میڈیا کو کسی حد تک مینیج کرنے کا کام کرتے۔ میڈیا مینجمنٹ صرف اخبارات کے فرنٹ پیج پر بڑے بڑے اشتہارات دینے کا نام نہیں ہے۔ آپ سے تو سوشل میڈیا نہیں سنبھالا گیا اور اس نے آپ کو اڑا کر رکھ دیا۔ عمران خان نے ثابت کر دکھایا کہ سوشل میڈیا کے زور پر کیسے ایک جھوٹے بیانیے کو بھی مقبول کرایا جا سکتا ہے۔ ملک کے تمام ادارے یہ کہہ رہے تھے کہ کوئی سازش نہیں ہوئی لیکن اس نے امپورٹڈ حکومت کے بیانیے کو عوام میں پہنچا دیا۔ سارے کے سارے ناکام ہو گئے۔ نوکیا موبائل فون بنانے میں سب سے آگے تھا مگر زمانے کی رفتار کے ساتھ نہیں چل سکا اس نے یہ سمجھا کہ نہیں کہ عوام کی خواہش کیا ہے اب لوگ موبائل خریدتے وقت سب سے پہلے یہ سوال کرتے ہیں کہ اس کا کیمرہ کتنے میگا پکسل کا ہے؟ نتیجہ کیا ہوا کہ نوکیا کو کسی اور نے خرید لیا۔ پنجاب میں عطااللہ تارڑ کو کن خصوصیات کی بنا پر وزیرداخلہ بنایا گیا۔ یہ صرف دو مثالیں ہیں۔ پھر جو ہونا تھا وہ آپ کے سامنے ہے۔
میں نے کہا تھا کہ ضمنی انتخابات عمران خان کی سیاست کا فیصلہ کریں گے اور یہ انتخابات اس کے لیے بہت بڑا ریلیف لے کر آئے ہیں اور وہ ہر قسم کے خوف سے آزاد ہو گیا ہے اب وہ نیوٹرلز کو نہیں پکارے گا کیونکہ اسے علم ہو گیا ہے کہ وہ عوام کو ساتھ ملا سکتا ہے اور اس کا بیانیہ مقبول ہو رہا ہے۔ عمران خان نے اپنا خوف اتار کر شہبازشریف کے گلے میں ڈال دیا ہے۔ شہبازشریف اس حکومت کو زیادہ دیر تک نہیں چلا سکتا اور یہ کسی بھی وقت یہ ہنڈیا بیچ چوراہے کے پھوڑ دی جائے گی۔ آپ سے حکومت کنٹرول نہیں ہو رہی آپ نے روپے کو کیسے مستحکم کرنا ہے۔ افسوس صد افسوس۔

مصنف کے بارے میں