اقتدار نہیں، اب آگ ہے یہ!

اقتدار نہیں، اب آگ ہے یہ!

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
آپ شیشے کا گلاس میز کے درمیان (سنٹر) میں رکھا دیکھیں جو سرکتے سرکتے ایک کنارے پر ہو جائے ، پیتے پلاتے لاپرواہی اور لطیفہ بازی کی گپ شپ جاری رہے وہ گلاس ایک کنارے پہ جائے مگر آپ کو میز پر ہی نظر آئے گا۔ سینٹر سے کنارے تک جانے کے دورانیے اور رفتار کا آپ کو اندازہ نہ ہو بس مطمئن رہیں کہ گلاس میز پر ہے تو اگلے لمحے وہ گلاس گر کر کرچی کرچی ہو چکا ہو گا۔ یہی ہوا ہے وطن عزیز کے سیاسی، سماجی، عدالتی، معاشرتی، عسکری، اخلاقی نظام کے ساتھ اور بالخصوص معاشی نظام کے ساتھ جو باقی تمام بربادیوں کی بنیاد ٹھہرا اور جس کی بربادی ہوس اقتدار، اختیارات سے تجاوز، انتہا پسندی، بنیاد پرستی، بے انصافی، ظلم ذمہ داری کو اختیارات اور اختیارات کو اپنا پیدائشی حق سمجھنا نہ جانے کیا کیا خرافات ٹھہریں۔ ایک ریڑھی بان آپ کو اس ملک کے متعلق تدبیر کرتا ہوا رائے دیتا ہوا سوچتا ہوا نظر آئے گا مگر جن کے پاس اقتدار اور مسلسل اقتدار رہا ہے وہ اس بارے بالکل سوچتے ہوئے نظر نہیں آئیں گے۔ ان کا انداز فکر تو یہ ہے کہ
گدڑیے کو غم تھا ان بھیڑوں کا جو بھیڑیا کھا گیا
بھیڑیے کو پچھتاوا تھا ان بھیڑوں کا جو بچ گئیں
ویسے بھی انتخابی نظام میں 95 فیصد لوگ تو حصہ ہی نہیں لے سکتے کیونکہ بقول جناب پرویز صالح کے انتخابی خرچے کی حدوں کی کوئی پروا نہیں کرتا اور نہ قانون پر عمل ہوتا ہے جو 95 فیصد 100 فیصد کی نمائندگی کر سکیں ایک فیصد لوگ حاکم ہیں 99 فیصد محکوم ہیں۔ یہ ہے ان کی سوچ کا محور کہ ان سے جو بچا ہے وہ کیوں بچ گیا تاریخ پر حقیقی نظر دوہرائیں تو بد نصیبی کے علاوہ کیا کچھ بھی نہیں اس وقت دنیا میں 60 کے قریب اسلامی ممالک ہیں یہ کبھی ریاست مدینہ میں ہوا کرتے تھے۔ ریاست اور فرد کا معاہدہ جب ٹوٹتا ہے تو پھر ملک کی سرحدیں بھی قائم نہیں رہتیں، ان کے نقشے میں تبدیلی لازمی ہے۔  ریاست اور فرد کا معاہدہ آئین اور قانون کی حکمرانی سے قائم رہتا ہے کسی کو چن کر مسلط کرنے سے نہیں یا ڈنڈے سے نہیں۔ 1961 میں لوگوں تک یہ خبر شعوری طور پر پہنچی کہ پاکستان اسلامی نظریہ کی بنیاد پر بنا تھا یہ ایک ایسی بات ہے جو
خاصاں دی گل عاماں اگے نئیں مناسب کرنی
مٹھی کھیر پکا محمد… اگے دھرنی
یہی ملک تھا جو اسلام کے نام اور 27 رمضان کو بنا مگر ایوب خان کے دور سے لے کر یحییٰ خان کے دور کے اختتام تک فرد اور ریاست کا معاہدہ ٹوٹ چکا تھا 
جس نے ملک تقسیم کر دیا اس ٹوٹتے ہوئے معاہدے کی بازگشت تاریخ میں جگہ جگہ سنائی دے گی۔
یحییٰ کے بعد پھر کبھی نو آزاد پاکستان واپس نہ آیا۔ ضیا الحق کے بعد ذوالفقار علی بھٹو شہید کا پاکستان واپس نہ آیا۔ بدنصیبی یہ ہے کہ ضیا نے جو تعصب، نفرت، دہشت گردی، کرپشن، فرقہ واریت، ذات، برادری، زبان، علاقائی تقسیم در تقسیم آئین سے روگردانی کی بارودی سے زیادہ جو خطرناک سرنگیں بچھائیں، وہ آج بھی وقفے وقفے سے پھٹ رہی ہیں۔
اس کے علاوہ صرف مالیاتی اعتبار سے ہی دیکھ لیں، ضیاء دور کی تباہی تو کبھی جا کر مورخ لکھ پائے گا، جون 88 میں اندرونی قرضہ 209 ارب روپے بنتا تھا جو ضیا دور کا شاخسانہ تھا، بیرونی قرضہ جات کا کوئی کھاتہ دستیاب نہیں اور زیر گردش 90 ارب روپے تھے۔ اکتوبر 99 میں اندرونی قرضہ 1400 ارب روپے بیرونی قرضہ 30 بلین ڈالر اور زیر گردش 300 ارب روپے تھے۔ مشرف کے بعد جب ہانڈی کا ڈھکن اُٹھتا ہے تو آغاز اندرونی قرضہ 3300 ارب روپے، بیرونی قرضہ 43 بلین ڈالر اور زیر گردش 1000 ارب روپے، جون 2013 میں اندرونی قرضہ دس ہزار ارب روپے، بیرونی قرضہ 53 بلین ڈالر اور زیر گردش 2200 ارب روپے تھے۔ جون 2018 میں اندرونی قرضہ 16500 ارب روپے بیرونی 86 بلین ڈالر اور زیر گردش 4400 ارب روپے، اب نئے پاکستان کی شروعات میں ہی اندرونی قرضہ 27000 ارب روپے، بیرونی قرضہ 130 بلین ڈالر، زیر گردش 7500 ارب روپے، 1947 سے لے کر 2018 تک 4400 ارب روپے کے نئے نوٹ چھاپے گئے جبکہ عمران حکومت کے صرف ساڑھے تین سال میں 3100 ارب روپے چھاپے گئے۔ اندرونی قرضہ خوفناک حد تک بڑھا اور بیرونی بھی، اندرونی قرضہ تو نئے نوٹ چھاپ کر گزارا کر لیا بیرونی قرضہ بہرحال ڈالرز میں واپس کرنا ہوتا ہے جس کے لیے فارن ایکسچینج ہونا ضروری ہے۔ موجودہ مارچ تک بلکہ جولائی تک کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 113 ارب ڈالر جون 22 تک 18 ارب ڈالر ہو جائے گا۔ تجارتی خسارہ کے حوالے سے برآمدات جولائی مارچ کے دوران 23 بلین ڈالر سے 36 بلین ڈالر، درآمدات 59 بلین ڈالر 2022 میں 75 سے 80 بلین ڈالر کا یقین ہے۔ 30 ارب ڈالر ترسیل زر میں بیرون ملک پاکستانی اپنے عزیز و اقارب کی مدد کے لیے بھیجتے ہیں جبکہ 15/20 ارب ڈالر کا قرضہ لینا پڑتا ہے۔ 6000 ارب ٹیکس میں سے 4000 ارب روپے سود کی مد میں چلے جاتے ہیں باقی 2000 ارب روپے ہیں گویا کل ملا کر وطن عزیز کی کل بچت اور سرمایہ شاید امریکہ یا انگلینڈ کی یونیورسٹی کے برابر بھی نہ ہو اور ہماری بڑھکیں اور ریاکاریاں نہیں بدکرداریاں ہیں کہ کسی کینڈے میں نہیں آ رہیں۔ سروس چارجز یعنی سود دینا محال ہے اب ہم قرضہ لینے جائیں، امداد لینے جائیں تو وہ پرانا واقعہ ہے۔ اب ہم اپنے اکاؤنٹ میں پیسے رکھنے کا کہتے ہیں جیسے امریکہ یا انگلینڈ کا ویزہ لینے کے لیے بینک سٹیٹمنٹ اور کاروبار دکھانا لازمی ہے۔ اب تو حالت یہ ہے کہ منور ظریف کی ایک فلم میں اس کی ہیروئن کے والد کو نشے کی لت ہے، وہ منور ظریف سے نشہ ٹوٹنے پر پیسے مانگتا ہے، منور ظریف پیسے دے دے کر تنگ آ جاتا ہے کہ رشتہ یہ کرتا نہیں اور رقم بٹورتا ہے بالآخر انکار کر دیتا ہے اور دھیان دوسری طرف کر لیتا ہے۔ بوڑھا نشئی اس کو کہتا ہے ’’او پتر شیدیا ایہہ میرے ہتھاں ول ویکھ‘‘، منور ظریف بغیر دیکھے کہتا ہے ’’اوہ بزرگا مینوں پتا جڑے نیں‘‘ مجھے پتہ ہے تم نے ہاتھ جوڑے ہوئے ہیں۔ اب ہماری حالت بھی ایسے ہی ہے دیکھے بغیر دنیا کو معلوم ہوتا ہے کہ ہاتھ جڑے ہوئے ہیں۔ ہم ایٹمی قوت، 24 کروڑ عوام کا ملک ہیں مگر اقتدار کی ادارہ جاتی ہوس اور کرپشن نے برباد کر دیا۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں اس ملک کو اللہ چلا رہا ہے یقینا وہ مختار کل ہے مگر ہم اِس کو اُس کے حکم کے مطابق چلاتے تو بہت اچھا چلتا، اس کو شیطانی قوتیں چلا رہی ہیں۔ عمران خان جس کا مان ایف آئی اے اور نیب تھا، آج کہتے ہیں ایف آئی اے کا حال وہ ہو گا جو ایم کیو ایم نے پولیس کا کیا اور ایم کیو ایم کو نازی پارٹی کہتے رہے کہتے ہیں ایٹم بم مار دیتے مگر جن کو اقتدار دیا ہے ان کو نہ دیتے حالانکہ عمران نیازی کے اقتدار کے بعد کسی ایٹم بم کی ضرورت نہیں اس کو لانے والوں کو اگر نوازشریف اور زرداری اچھے نہیں لگتے تھے ان کو ویسے مٹا دیتے مگر عمران نیازی کو مسلط کر کے قوم کو تو نہ مٹاتے۔ ان سے اقتدار کیا چھنا زندگی چھین لی گئی حالانکہ ان کا جانا پاکستان کی بقا کے لیے ناگزیر تھا۔ یہ کہتے تھے تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آ چکی ہے، اب ان کی بدولت ملک دیوالیہ ہو نہیں رہا ہو چکا ہے۔ ملکی معیشت بس ایک لاش ہے جس کے مرنے کا اعلان باقی ہے۔
نئی حکومت فوری انتخابات یا پھر آئی ایم ایف سے عمران حکومت کے کیے گئے وعدے پورے کرے گی۔ حکومت اپنی سیاسی ساکھ کی قیمت پر جاری رکھے گی یا پھر سیاسی ساکھ بچانے کے لیے نئے انتخابات کرائے گی۔ جبکہ ملک کا آگے چلنا محال اور مشکل ہی نہیں ناممکن ہو چکا ہے۔ اقتدار نہیں، اب آگ ہے یہ!

مصنف کے بارے میں