جھوٹے بیانیہ کی پذیرائی

جھوٹے بیانیہ کی پذیرائی

ایک ایسی قوم جس کا پیدا ہونے والا بچہ بھی اپنے سر پر قرض کا بوجھ لئے اس دنیا میں قدم رکھے اور اس کے حکمران غلامی سے نجات کے نام پر پورے عالم کو دھوکہ دیں، بالخصوص جنہوں نے اپنے دور اقتدار میں بھاری بھر قرض عالمی مالیاتی اداروں سے لے کر قومی اثاثہ جات کو گروی رکھا ہو تو ان کے منہ سے ’’ہم کوئی غلام ہیں‘‘ کا نعرہ سن کر ہنسی چھوٹ جاتی ہے، جو اپنے عہد اقتدار میں آئی ایم ایف کی تمام تر شرائط مان کر معاہدوں پر اظہار مسرت کر رہے ہوں، انھیں کیسے زیب دیتا ہے کہ وہ نسل نو آزادی کے نام پر گمراہ کریں۔
 وہ بخوبی نہیں جانتے کہ قیمتوں کے تعین سے لے کر دیگر ممالک سے معاملات طے کرنے تک آئی ایم ایف کی آشیر باد لازم سمجھی جاتی ہے، ہماری خارجہ اور داخلہ پالیساں انکی مرہون منت ہیں،  دنیا کے تمام عالمی مالیاتی ادارے وطن عزیز کو قرض بھی دیتے ہیں تو اس میں انکل سام کی رضامندی شامل ہوتی ہے، اس کے باوجود عوامی اجتماعات میں خط لہرا کر یہ تاثر دینا کہ ہم آزاد خارجہ پالیسی مرتب کرنا چاہتے ہیں لیکن ہماری راہ میں مقتدر کلاس بڑی رکاوٹ ہے، سفید جھوٹ ہے، کون نہیں جانتا کہ ان کے دور حکومت میں ہندوستان نے کشمیر کی آئینی حیثیت جس دیدہ دلیری سے تبدیل کی ہے اسکی مثال پورے عالم میں نہیں ملتی، مگر موصوف صرف بیانات دینے پر اکتفا کرتے رہے، ایسی جرأت تو اس کو سابق آمرانہ دور حکومت میں بھی نہ ہوئی جب چناب فارمولا اور بیک ڈور پالیسی سفارتی حلقوں میں کشمیر کے حل کے لئے زیر گردش تھی، یہ تو کہتے تھے کہ مودی کی جیت سے مسئلہ کشمیر حل ہو جائے گا، کشمیر تو رکھیں ایک طرف انھوں نے اپنے دور میں سرکریک، سیاچین،سندھ طاس معاہدہ کی نا انصافیوں پر بھی انڈیا کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہ کی، کلبھوشن جیسے جاسوس کو وہ تمام تر مراعات فراہم کیں جس نے بلوچستان میں دہشت گردی سے ہماری قومی سالمیت پر کھلا حملہ کیا لیکن سابقہ سرکار اس کے لئے سہولت کار بنی رہی۔ 
یہ تو کل کی بات ہے کہ ہندوستانی فضائیہ نے پاکستان کی سرحدوں کی کھلی خلا ف ورزی کی، ہماری مسلح افواج نے دشمن کا طیارہ مار گرایا، اس کا پائلٹ زندہ گرفتار کیا گیا، جنیوا کنونشن کے آرٹیکل4 کے تحت اسکی حیثیت ایک جنگی قیدی کی تھی ہمسایہ ملک نے ننگی جارحیت کی تھی مگر نام نہاد 
بہادرر لیڈر نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بغیر مشاورت کے اسکی رہائی کا اعلان کر دیا۔جب کہ پوری قوم اس کی رہائی کے خلاف تھی۔
موصوف جب اقتدار میں نہیں تھے توشمالی علاقہ جات میں ڈرون حملوں کی بڑی مذمت کیا کرتے تھے، جب مسند اقتدار کا جھولا لے چکے تو انھیں سب کچھ بھول گیا انھوں نے اس پر بھی یوٹرن لے لیا ورنہ طالبان کے ساتھ معاہدہ کے موقع پر اپنے اہل وطن کی ناگہانی شہادت اور بے گناہ اموات پر امریکہ بہادر کے سامنے ہرجانہ کا مقدمہ پیش کرتے ،اسلام آباد کے تعاون کے بغیر امریکہ اور اس کی اتحادی افواج نکل نہیں سکتی تھیں، طالبان آزادی کا نعرہ  اگرلگائیں تو بات سمجھ میں آتی ہے۔
قوم کو یہ بھی یاد ہو گا کہ کپتان اقتدار سنبھالنے کے ایک سال بعد چین کے دورے پر چیف آف آرمی سٹاف کے ساتھ گئے تھے، اس موقع پر امریکی عہدے دار پومپیو نے برملا کہا کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے معاہدہ جات میں یہ بات یقینی بنائی جائے کہ امریکی ٹیکس دہندگان کا پیسہ چینی قرض کی ادائیگی میں استعمال نہ ہو، چین نے سی پیک کی سست روی کا شکوہ بھی کیا۔
پاک ایران گیس منصوبہ جوز یر تکمیل تھا ہماری ضروریات کو پورا کرنے میں سود مند ہوتاگیس بحران سے قوم کو نجات ملتی مگر اس کا جائزہ لینا بھی ضروری نہ سمجھا گیا، کیونکہ امریکہ کے اعلیٰ سفارت کار نے کہا تھا کہ اس منصوبہ کو بھول جائیں۔
کیا یہ سب ریکارڈ پر نہیں کہ کپتان عوامی جلسوں میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکہ سے واپس لانے کا عہد کیا کرتے تھے، بطور وزیر اعظم انھوں نے ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کوکرکٹ سے بڑی کامیابی قرار دیا تھا، لیکن کشمیر سمیت کسی قومی ایجنڈے پر بات  ہوئی نہ ہی دہشت گردی کی نام نہاد جنگ پر احتجاج کیا ڈاکٹر عافیہ کا ذکر خیر بھی نہ ہوا۔
خدا را جھوٹ کے بیانیہ کو تقویت دے کر نسل نو تو گمراہ نہ کریں، انھیں سچ بتائیں کہ قرض کی مے پینے والے آزادی کا نعرہ کبھی بلند نہیں کر سکتے، اگر آپ نے اپنے دور حکومت میں خود انحصاری کی راہ اپنائی ہوتی، وہ تاریخی خطبات جن کے بوجھ تلے آپ خود دب گئے ان پر بھی عمل کیا جاتا، سادگی اپنا کر قرض سے اس ملک کو نجات دی ہوتی، پروٹوکول کی بدیشی روایت کو ترک کیا ہوتا، کابینہ کا سائز مختصر ہوتا، گورننس میں عالمی اداروں کی مداخلت نہ ہوتی تو آپ کو حق پہنچتا تھا کہ آپ غلامی سے نجات کا بیانیہ دیتے محض الفاظ سے شہادت نہیں ہوتی قیمتی جان بھی ساتھ دینا پڑتی ہے۔
آپ کے عہد میں سعودی کاوشوں سے او۔آئی ۔سی کا اجلاس اسلام آباد میں ہوا جس میں اعلامیہ کے مطابق کشمیر کی صورت حال پر محض تشویش کا اظہار کیا گیا حریت کے راہنما کو مودی نے شرکت کی اجازت نہ دی اور آپ نے ایک ٹویٹ سے مذمت کر کے قومی فرض ادا کیا، طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا تذکرہ تک اس فورم پر نہ ہوا جو امت مسلمہ کا مشترک ہے، آپ کس زبان سے آزادی کی بات کرتے ہیں، ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ اگر آپ کو امریکہ کا ڈر نہ ہوتا تو اقوام متحدہ سے لے کر ہندوستان کی مخالفت اور افغانستان کی حکومت کی حمایت میں قرارد ادیں منظور لازمی ہوتیں، نجانے آپ کس کو غلامی اور آزادی کہتے ہیں، کیا عوام کو بیوقوف بنانے کا نام آزادی ہے؟
خارجی معاملات کو رکھیں ایک طرف آپ جو ’’ تبدیلی ‘‘کا بھاشن دینے آئے تھے اس میں کس قدر کامیاب ہوئے ہیں، یہ بھی نوشتہ دیوار ہے، آپ تو بیرونی طاقت سے آزادی کا فریب دے رہے ہیں آپ کی اپنی غلامی کا یہ عالم تھا کہ کچھ نادیدہ ہاتھوں نے اس ملک کے بڑے صوبہ کا وزیر اعلیٰ تبدیل کرنے نہیں دیا، بدعنوانی کے حوالہ سے جو کچھ آپ کی ناک کے نیچے ہوتا رہا یہ بھی جلد منظر عام پر آنے والا ہے۔
ہم نسل نو سے کہیں گے کہ فریب کی دنیا سے باہر نکل کرحقیقت پسندی کو اپنائیں، یہ تیسری نسل سرمایہ داروں ،وڈیروں، تمن داروں کے حق میں گلے پھاڑ پھاڑ کر نعرے بلند کرتی رہی ہے، اس کے باوجود مقروض ہے، روزگار سے محروم ہے، ان شعبدہ بازوں نے کبھی روٹی، کپڑا، مکان کے نام پر دھوکہ دیا تو کبھی قرض اتارو ملک سنوارو کے نام پر بلیک میل کیا، کسی نے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ اپنے مفاد میں بلند کیا، تو کوئی مداری نیا پاکستان کا تماشہ لے کر آیا، اس کے باوجود عوام کا حال بد تر ہوتا چلا گیا ہے۔
ہمارے ہمسایہ ملک میں عام آدمی پارٹی کا ماڈل ہمارے سامنے ہے، اورند کیجروال بھارتی معاشرہ کا عام فرد ہے، جس نے دہلی اور پنجاب کے شہریوں کی حیاتی آسان کر دی ہے، بدعنوانی کو بھی مات دی ہے۔کپتان کے جھوٹے بیانیہ کو پنجاب کے ضمنی انتخابات میں اگرچہ پذیرا ئی ملی ہے لیکن اسکی حیثیت اک سراب کی سی ہے، حقیقی آزادی کا سفر خود انحصاری سے عبارت ہے،اپنے دور حکومت میں جیسے انھوں نے نظر انداز کئے رکھا۔

مصنف کے بارے میں