حکمراں ہے اک وہی باقی بتانِ آذری!

حکمراں ہے اک وہی باقی بتانِ آذری!

پورا ملک شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے۔ سبھی شہر تپ رہے ہیں۔ جیکب آباد میں درجۂ حرارت 51 ڈگری سینٹی گریڈ کو چھو رہا ہے۔ وہاں کے باسی کہتے ہیں ہر طرف آگ بھڑکتی محسوس ہو رہی ہے۔ جو موسم جون جولائی میں ہوتا تھا اب مئی میں آگیا ہے۔ شدید غربت، دس لاکھ آبادی کے لیے پانی کی شدید قلت، بجلی عنقا۔ عوام کس حال میں ہیں۔ کرسی سے اترنے والے خود جھلسا ڈالنے والی زبان بول رہے ہیں۔ کرسی پر اچانک آ بیٹھنے والے ایٹم بم گرا دینے کے بیانوں میں وحشت زدہ گھرے کھڑے ہیں۔ دھمکیوں کی سیاست کا دور دورہ ہے۔ شیخ رشید نے وارننگ دے دی کہ اگر عمران خان کو گرفتار کیا گیا تو پی ٹی آئی نے طریقِ کار طے کر لیا ہے۔ ملک ایک سیاسی بحران میں گھر جائے گا اور سری لنکا جیسی صورت حال کا سامنا کرے گا۔
کھیل یوں بگڑا کہ جب ملکی معیشت کا پانی واقعی سر سے گزرنے لگا تو بقول عمران خان ’طاقتور لوگوں‘ نے انہیں کہنا شروع کردیا کہ ’وزیراعظم دوسروں کے کرپشن کیسز کی بجائے حکومتی کارکردگی پر متوجہ ہوں۔‘ اب مسلسل ’طاقتوروں‘ پر بوچھاڑ ہے۔ کھلے جلسوں میں اسٹیلشمنٹ کے ساتھ ٹکراؤ ہر جملے میں سمویا ہے۔ للکارنے کی حد تک۔ بھارتی میڈیا مزے لے لے کر ایٹم بم والے بیان اور ہر ہذیانی کیفیت کو شہ سرخیوں میں جگہ دے رہا ہے۔ چوراہے میں گندے کپڑے دھونے کا ایک دھوبی گھاٹ کھلا ہے۔ عدلیہ بھی للکاری جا رہی ہے اور کبھی اپنے ہی سابقہ اتحادی نشانے پر ہیں۔ صوابی میں تقریر کرتے ہوئے ایم کیو ایم پی پر گرجے برسے ہیں، جو اتنے سال وزارتوں پر فائز رہے۔ ان کی مدد سے حکومت قائم کی۔ وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم 2 اپریل 2022ء تک عمران خان کے حواری تھے۔ اب یکایک ان کے جرائم کے کھاتے کھل گئے۔ پولیس کے ہدفی قتل کے الزام دیتے ہوئے ایم کیو ایم کو رد کیا۔ باوجودیکہ قانون جیسے حساس منصب پر انہیں بٹھا رکھا تھا! صوابی میں یہ بھی فرمایا کہ زرداری، شریفوں اور فضل الرحمن کا اجتماعی سیاسی جنازہ ہوگا۔ ایٹم بم پھاڑنے کی حسرت، جنازے اٹھانے کے عزائم، ملک کو سری لنکا کی طرح خانہ جنگی میں جھونکنے کی پلاننگ تیار؟ تمہی کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے۔
پی ٹی آئی کے مؤقر قائدین کی زبان ہر گھر میں اتر آئی ہے۔ خاندانوں میں سیاسی الجھاؤ، ٹکراؤ کی شکایات سنی جا رہی ہیں، اب تابکاری عنصر ایٹم بم بیانیے کے بعد مزید شامل ہوگیا ہے۔ تہذیب پہلے ہی سوشل میڈیا کے ہاتھوں دگرگوں ہے اب رہی سہی کسر پوری ہونے کو ہے۔ ایسے حالات میں الیکشن کا تقاضا کیونکر پورا ہوگا؟ انتخابات سے پہلے کے مراحل اس سرپھٹولی میں کیونکر طے ہو پائیںگے۔ واحد مطالبہ غیرمشروط بلاتاخیر (فوج، عدلیہ، الیکشن کمیشن، عوام ہر کس وناکس سے) عمران خان کو کرسی پر لا بٹھانے کا ہے۔ اس سے کم پر راضی نہیں۔ ورنہ مرنے مارنے کی تیاری ہے! امریکا کی سازش کا بیانیہ مضحکہ خیز ہے۔ خصوصاً مغربی ممالک کے باسی انصافیے گزشتہ 20 سال کہاں تھے؟
امریکا کی چاکری پی ٹی آئی سمیت ہر حکمران نے ڈٹ کر کی ہے۔ عوام نے کھلی آنکھوں سے یہ 
سب ہمیشہ دیکھا اور خاموشی، نیم رضامندی کے معنوں میں اختیار کیے رکھی ہے۔ امریکی طرز زندگی، بود وباش، شہریتوں، زبان وکلام میں ڈوبے ہوئے انصافیے یکایک امریکی سازش کی پٹاری کھول کر بیٹھ گئے، جس ’پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں‘ کے نعرے لگتے اور باجے بجتے ہیں، وہ عوام الناس کا تو ہرا پرچم ہے مگر بلااستثناء حکمرانوں کا لال لکیروں اور نیلے سفید تاروں والا امریکی پرچم ہے۔ اب بائیڈن کی بے توجہی کے ہاتھوں یکایک ان کے آنکھوں کے آگے تارے ناچنے لگے۔ امریکا کو للکارنا ہی تھا تو کم ازکم اپنے دور اقتدار میں ڈاکٹر عافیہ ہی پر مضبوط موقف اختیار کرکے انہیں واپس لایا جاتا۔ ان کی جنگ میں اتنی بے پناہ جانوں کے نذرانے کا ہرجانہ، دیت وصول کی جاتی۔ نیٹو سپلائز میں ادھ موئے ہوئے رہنے پر آواز اٹھائی جاتی، سلسلہ منقطع ہوتا۔ 15 اگست 2021ء تک (افغانستان سے امریکی انخلاء)سبھی کچھ حسب سابق چلا۔قوم کی ذہنی حالت بھی اس وقت زیادہ تسلی بخش نہیں۔ یادداشت کمزور ہوچکی ہے۔ کیفیت ہذیانی، کف آلود ہے۔ تجزیہ کرنے کی صلاحیت پہلے بھی واجبی تھی اب کھلے حقائق سے چشم پوشی کرکے ’میں نہ مانوں‘ کی ضد میں ملک کا مستقبل داؤ پر لگا رہے ہیں، نتائج وعواقب سے بے پروا۔ یہ اندھا دھند بلاروک ٹوک امڈتا لاوا کیا رخ اختیار کرے گا؟ شامتِ اعمال کی تلوار سر پر لٹکتی نظر آتی ہے۔ حضرت شعیبؑ کی زبان میں: ’آج میں تم کو اچھے حال میں دیکھ رہا ہوں مگر ڈر ہے کہ کل تم پر ایسا دن آئے گا جس کا عذاب سب کو گھیر لے گا۔‘ (ہود۔ 84) اللہ کے دین اور انبیاء کی تعلیمات کا مذاق اڑانے والی قومیں، ان میں سے ہر ایک کے انفرادی گناہ، آج ہمارے معاشرے میں سب یک جا نظر آرہے ہیں۔ لیڈروں کی کرپشن میں کون ہے جو پاک ہو؟ یہ فوری الیکشن کا ہنگام اسی لیے ہے کہ جوں جوں وقت گزرے گا، آج اگر بزدار، فرح اور توشہ خانہ، گھڑی اسکینڈل کھلے ہیں تو ہر آنے والے دن کے ساتھ سبھی کارکردگیاں کھل جائیںگی۔ یکطرفہ تصویر دیکھنی دکھانی ممکن نہ رہے گی۔ عوام کے لیے پروٹوکول اور ہٹو بچو نہ لینے والے وزیراعظم کی دھوم تو ہے مگر ہوا کے دوش پر اڑتے ہیلی کاپٹروں نے عوام کی جیب پر جو ڈاکا ڈالا اس کی تفاصیل صیغہ راز میں کب تک رہیںگی؟ سادگی پسند زمین پر چلنے کے قائل نہیں ہیں۔ جلسے بھی چارٹرڈ طیاروں میں ہو رہے ہیں۔ یہ سارا شاخسانہ مروجہ نظام کا ہے جس میں انسان کو خدائی کے منصب پر بٹھاکر عوام پوجا پاٹ کرتے گرمی میں جھلس رہے ہیں۔
 اللہ کی حکمرانی اور کائنات کی بادشاہت کے مالک رب کے اقتدار کی بجائے، انسانوں کی غلامی کا قلادہ جب تک گلے میں پڑا رہے گا عوام اسی طرح حبسِ دم سے مرتے گھلتے رہیںگے۔ اللہ کی حاکمیت میں حکمران، عوام سب برابر ہوتے ہیں۔ 22 لاکھ مربع میل پر حکمران سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مدینہ کے نواح سے پیدل چلتے لوٹ رہے تھے، ایک گدھا سوار سے ’لفٹ‘ لے کر لوٹے! اس شان کے تھے وہ راتوں کے راہب، داڑھیاں خشیت الٰہی کے آنسوؤں سے تر بہ تر کرنے والے۔ دن کو مزدوروں کی سطح پر بلاکروفر، گھن گرج عوام کی خدمت گزاری میں ہلکان ہونے والے۔ سیدنا عمرؓ کا بیت المال کے اونٹوں کو ایک معزز سردار صحابی کے ہمراہ اپنے ہاتھوں سے تیل مل مل کر انہیں جلدی بیماریوں سے محفوظ رکھنے کی فکر کرنا۔ ہمارے حکمرانوں کی خوش نصیبی یہ ہے کہ عوام نے اپنی تاریخ، اور اسلامی طرز حکمرانی نہیں پڑھ رکھی۔ ورنہ ہیلی کاپٹروں، جہازوں پر اڑنے کی بجائے یہ سرکاری گاڑیاں مثلِ عمرؓ دھو رہے ہوتے۔ لیموزین اور کروڑوں کے قرضوں اور عوام کی غربت نچوڑکر حاصل کردہ شان وشوکت بھری گاڑیوں کے قافلوں کا خوابوں سے بھی گزر نہ ہوتا۔ عوام یہ جانتے کہ ہر انسان عزت وشرف میں برابر ہے۔ 
خاک کے پتلے میں اللہ کی نورانی پھونک ہر انسان کا اصل سرمایہ ہے۔ نقطۂ نورے کہ نام او خودی! اس خودی کو گنوا دیا۔ عزت وشرف کھو کر سڑی ہوئی مٹی کے بدبودار تعفن والے گارے بھرے وجود (مادۂ تخلیق) کا پتلا باقی ہے اور پورے ملک میں طوفان بدتمیزی برپا ہے۔ روکنے والا کوئی نہیں! اللہ کے دین سے کھیلتے خوف نہیں آتا۔ قرآن سے نابلد، ان پڑھ، جہل عظیم کے مارے ہیں۔ تین رمضان کھیل تماشوں ، لہو ولعب، سوقیانہ مشاغل کی نذر ہوئے۔ حقیقی جہاد کے لیے امریکا کے خلاف اٹھنے والے ہر فرد کو عقوبت خانوں میں جھونکا یا مار ڈالا۔ ہر دور میں بلااستثناء۔جعلی جہاد کے نام پر ترکی فلمی ڈراموں میں روح کی بالیدگی کا قیمتی ترین مہینہ جھونک دیا لگاتار اتنے سال۔ (اس دفعہ تراویح عشاء کا مقابلہ، سیاسی جلسوں اور گانوں ترانوں نے کیا) ڈرامے میں جھوٹے کردار! ماں بن کر اداکارہ کا نامحرم نوجوانوں کو ’مجاہد‘ بیٹے قرار دے کر ماتھا چومنا اور پرائے مرد کی بیوی بن کر دونوں نامحرموں کا باہم بستر افروز ہونا۔ اسلام کے نام پر پوری قوم اس میں غرق! عقل کو زنگ نہ لگے۔ دلوں پر تالے نہ پڑیں۔ سورج آگ نہ برسائے، گلیشیئر شق نہ ہو جائیں تو کیا ہو؟ ’ریاست مدینہ‘ ، ’امر بالمعروف‘، ’صادق امین‘ کے تقدس کی بے حرمتی، ان سے استہزاء۔؟ جس اللہ کے دین سے کھلونا بناکر کھیل رہے ہیں، اس کی عظمت وہیبت کے کائناتی مظاہر ہیبت سے لرزا طاری کر دینے والے ہیں۔ حالیہ دو رپورٹیں جس کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں۔ دو نیوٹران ستاروںکا باہم ٹکراکرفنا کے گھاٹ اترتے ہوئے خالص سونے چاندی کی بارش، کائناتی آتشبازی کا عظیم مظاہرہ، جس سے دس سیارے، زمین جیسے وجود میں آئے ہوں گے! (یہاں ایک گھڑی پر ’صداقت وامانت‘ قربان ہوگئی!) دوسرا ہماری کہکشاں کے مرکز میں مہیب ’بلیک ہول‘ کا مشاہدہ۔ اس کی تفصیل بھی ہوشربا ہے۔ اللہ، سورۃ النمل میں تخلیق کے مظاہر دکھاکر پوچھتا ہے  ئَ الٰہٗ مع اللہ۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی (ان کاموں میں شریک) ہے؟ بہ چشم سر سائنسی کرشمے دیکھنے برتنے کے بعد بھی جہالت؟ اس پر تو آئن سٹائن نے بھی کائنات کے خالق کی تصدیق کی تھی (مگر ایمان لانے سے انکاری ہوا!) کہیے لاالہ الااللہ…، جیسے افغانستان نے کہا تھا۔ امریکی پرچم لپیٹ دیا، کلمے والا پرچم لہرایا، لہلہایا! انسانوں کی غلامی (حکمرانی) سے نکل کر اللہ کی حکمرانی میں آنا۔ باقی بتانِ آذری!

مصنف کے بارے میں